سفر صدیوں کا (ایک یاداشت)۔۔۔رضوان شاہ

کوئی نصف صدی قبل ایک بچہ (وقتی طور پر نادر کہہ لیں اُسے)،کٹاس راج شریف کے ہائی اسکول اور تالاب سے متصل مکانات کے درمیان واقع کُھلے میدان میں سارا دِن کھیلتا رہتا، اور تالاب کو پانی مہیا کرنے والے چشمے کے بہاؤ سے لطف اندوز ہونے کے لیے، بِنا ماں کی ڈانٹ کی پروا کیے، غوطے لیتا رہتا۔۔اُس عُمر میں بھی اُسے یہ احساس تھا کِہ تالاب کی طرف جانا اُس کے لیے خطرناک ہے۔

تھک ہار کر گَھر کی راہ لیتا اور کئی گھنٹے باہر رہنے کے جواز کے طور پر سرکنڈے، لکڑی اور ہر ایسی چیز جسے بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہو کے ٹکڑے، اپنی چھوٹی چھوٹی مُٹھیوں کی گنجائش کے مطابق اکھٹے کرتا اور گھر جا کر ماں کو (توتلیزبان )  پشتو میں کہتا: ګِلګِي [لَرګِي] مې راوړي دي… (گِلگِی [لَرگِی] مے راوڑی دی) … یعنی لکڑیاں لایا ہُوں، پنجابی میں کہیں گے بالن آندا۔۔

اور ماں اُس کے ہاتھ سے گِلگِی، اِس انداز سے وصول کرتی جیسے بیٹا واقعی کوئی بہت بڑا ’بَھار‘ اُٹھا کر لایا ہو، ہاتھ چُومتی، نہلا  دھلا کر کپڑے بدلواتی اور اُس کے کھانے پینے و آرام کی طرف متوجہ ہوتی۔

آنے والے برسوں میں، ماں مختلف مواقع پر اُسے اِس ’خِدمت‘ مع اَن-گِنت دیگر ’شر-آفتوں‘ کی یاد دِلاتی رہتی۔۔ مگر خود اُس کی یَاد سے یہ سب محوّ ہو گیا تھا جو کہ فطری تھا۔ بمشکل دو برس کا ہو گا کہ اُسے کٹاس چھوڑ کر تلہ گنگ منتقل ہونا پڑا۔

وقت کا دھارا بہتا رہا، پَل گھڑیوں، پہروں، دنوں، ہفتوں، مہینوں، برسوں میں ڈھلتے گئے اور وہ بچہ پرائمری اسکول سے ہوتا ہُوا ہائی اسکول جا پہنچا۔ساتویں جماعت میں ہو گا کِہ ایک دِن والد صاحب نے اعلان فرمایا کِہ اگلے روز، کسی سرکاری کام کے سلسلہ میں، وہ کٹاس جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فیملی ساتھ جائے، اس بہانے سیر بھی ہو جائے گی۔

اگلے روز کٹاس یاترا نصیب ہوئی۔۔

نادِر نے گاڑی سے اترتے ہی ہائی اسکول کی طرف جانے والے راستے پر دوڑ لگا دی،شعوری طور پر تو اُسے کُچھ یاد  نہیں تھا مگر تحت الشعور نے اُس پر کُچھ ایسا اثر ڈالا کہ اُسے کُچھ ایسا محسوس ہُوا، جیسا کہ اُس پوِتر دھرتی پر بہتا چشمہ اُس کا سگا رشتہ دار ہو، جسے وہ صدیوں بعد مِلا ہو اور اِس سے پہلے کِہ کوئی کُچھ کہہ پاتا وہ اُس چشمے سے معانقہ کرنے، اُس میں باقاعدہ ڈُبکی لگا چُکا تھا۔معلوم نہیں کتنے پَل یہ کیفیت رہی، سفر صدیوں کا تھا۔ وہ ہزاروں برس قبل اسی مٹی سے اُٹھا تھا، نہ جانے کتنی بار اِس میں لَوٹ کر ایک بار پِھر اس سے جُدا ہو چُکا تھا اور کِس قدر بےتاب تھا پِھر سے اس میں مِل جانے کو۔۔

بالآخر والدین کا ڈانٹنا اور بہن بھائیوں کا پُکارنا اُسے وقت کی قید میں واپس لے آیا،وہ حیرت کا مارا، خود بھی اپنے بھیگے لباس کو دیکھتا رَہ گیا، یادوں کی اِک رِیل چل رہی تھی اور لَب خاموش۔۔مگر جس سِین کی اُسے تلاش تھی وہ چل کر نہیں دے رہا تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کی قید میں کئی برس مزید بِیتے، اکیسویں صدی شروع ہوئی، نادِر کا باقاعدہ ایک کریئر (career) بَنا، حالات کے جبر کے باعث ختم ہُوا، اُس نے اپنے لیے اِک نیا کریئر چُنا اور انگریزی ادب میں ایم۔اے کر کے، یہی سبجیکٹ پڑھانا شُروع کر دیا۔

2010 کے عشرے کا پہلا یا دوسرا برس تھا، گرمیوں کی آمد آمد تھی اور وہ مَنجی پر بیٹھا چاچا بَرْٹِی (Bertrand Russell) کی Conquest of Happiness پڑھ رہا تھا، کِہ اچانک وہی لڑکپن والی کیفیت طاری ہوئی اور وہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر ماضی میں جا پہنچا، ماں کی بتائی ہوئی ایک ایک بات سچ نکلی، اُس کی انگلیوں کی پوروں کو باقاعدہ محسوس ہونے لگا کہ وہ مٹی اور ریت میں سے گِلگِی چُن رہی ہیں اور نادِر کا conquest مکمّل ہُوا۔۔

ایک بَرس اَور گُزرا اور کُچھ پریشانیوں کے باعث نیا کریئر دوسرے برس میں ہی چھوڑنا پڑ گیا، صحت ایسی بگڑی کہ  بستر  تک محدود ہو گیا اور کام ٹَھپ۔۔

مگر آزمائشوں کا سلسلہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نَہ لیتا، کرتے کرتے اُس کی ماں، اُس کی سب سے بڑی سپّورٹ، خود بیمار ہو کر وِیل چیئر پر آ گئی،اِن دنوں اسلام آباد میں زیرِعلاج ہے۔۔

عِید گُزارنے گھر آئی اور آج اپنے نادِر و نایاب بیٹے کا ہاتھ چُوم کر اُسے یادوں کی بارات کے سپُرد کر کے پِھر سے بسلسلہ علاج اسلام آباد روانہ ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اَب تک تو آپ کو نادِر کے اصل نام کا اندازہ بھی ہو چُکا ہو گا اور آپ اُسے پہچان بھی چُکے ہوں گے!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ تحریر جون 2019 میں لکھی گئی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply