ڈاکٹرنی، دانشور اور نواز شریف : انعام رانا

گئے دنوں کا قصہ ہے جب عاشقی معشوقی ابھی مشقت طلب کام تھا۔ محبوبہ سے ملنا تو درکنار بات کرنا بھی جوئے شیر نکالنے کے برابر تھا کہ موبائل کا وجود ابھی کچھ سال کی دوری پہ تھا اور پی ٹی سی ایل پہ محبوبہ کے علاوہ اسکے گھر کا ہر فرد ہی میسر ہوتا تھا۔ تصویر کھنچوا کر، پرنٹ نکلوا کر محبوب کو دینا شاہراہ عشق پہ باقاعدہ ایک منزل تھی کہ گھر بیٹھے سمارٹ فون سے تصویر تو کیا ہر طرح کی تصویر اور وڈیو کا تبادلہ کسی لاشعور میں بھی امکان نہیں رکھتا تھا۔ اس دور میں سمجھدار مائیں البم میں بیٹی کی تصاویر گن کر رکھتی تھیں اور کسی تصویر کا گم ہونا باقاعدہ ایک الزام بن جاتا تھا۔ رہی ملاقات تو صاحب سماج کا کون سا حصہ تھا جو دو دلوں کو ملنے سے روکنے کیلئیے صف انداز نا تھا۔ ہاں جگہ کا جو مسلئہ تب تھا وہ آج بھی ویسا ہی لگتا ہے کہ اس دور میں بھی ہر لیک وڈیو کسی سینما، سڑک یا اسپتال کی ہی ملتی ہے۔

اسی دور میں لاہور کی لڑکی ایک ٹرافی تھی۔ اطراف سے ہر شخص لاہور میں یہ خواہش لئیے داخل ہوتا تھا کہ لاہور کی کوئی شوخ اس پہ فریفتہ ہو جائے تو لوشے ہو جائیں کہ لاہور والیاں انکے شہر والیوں کی مانند بور نہیں ہونے دیتی تھیں۔ اسی پس منظر میں لائل پور سے ایک کزن تشریف لائے اور لہجے میں منزل پا لینے کا سب تفاخر لئیے ہوے بتایا کہ لاہور کی اک لڑکی ان پہ مہربان ہو گئی ہے۔ اگلا بم یہ مارا کہ لڑکی ڈاکٹر ہے۔ اب اپنے کزن کے لمبے قد، گورے رنگ کے باوجود ایک ڈاکٹرنی کا اس معیار پہ اتر آنا اسکے اصرار کے باوجود گلے سے نا اترا کہ موصوف اردو بھی مسلسل دو منٹ نہیں بول سکتے تھے اور بقول شخصے ڈاکٹرنیاں تو بات ہی انگریزی میں کرتی تھیں،کم از کم محبوب سے۔ خیر ہم پہ مہربان ہوتے ہوے ہمیں بتایا گیا کہ کل ملاقات ہے اور تم گاڑی پہ لے کر جاو گے چنانچہ اس سیمیں بدن کا دیدار تمھیں بھی نصیب ہو گا۔ رات بھر کون سی صفت تھی جو عفیفہ سے کزن نے منسوب نا کر دی اور اپنا یہ حال کہ اپنا لاہوری ہونا اور تعلیم حاصل کرنا بس ضیاع ہی لگنے لگا۔

اگلے دن کزن تو جو تیار ہوا سو ہوا، فدوی نے بھی خوب تیاری کی کہ سمجھدار لڑکیاں اکثر ایسی ملاقات میں ایک آدھ سہیلی کو بھی اخلاقی مدد یا مورل سپورٹ کیلئیے لے آتی تھیں۔ عفیفہ مگر کچھ زیادہ ہی سمجھدار نکلیں اور ایک عدد پانچ چھ برس کی بھانجی کو ساتھ لئیے گاڑی میں آن اتریں۔ صاحب جسکی امید ٹوٹ جائے اس سے زیادہ زخمی شیر کون ہوتا ہے سو بس میں اب قسمت کے اس مذاق پہ بدلہ لینے کے چکر میں پڑ گیا۔ کچھ ہی سوالوں میں موصوفہ کی ڈاکٹری شبہ میں آ گئی اور جب انھوں نے کہا کہ گریجوئشن انھوں نے “کنگز ایڈروڈ” سے کی ہے تو شک یقین میں بدل گیا۔ ابھی کچھ سوال اور کرنا چاہتا تھا کہ کزن نے کہنی مار کر چپ کرا دیا کہ کہیں “ڈاکٹر صاحبہ” ناراض ہی نا ہو جائیں۔ فدوی نے رشتہ داری قائم رکھنے کیلئیے خاموشی کا فیصلہ کیا مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ نا جنوں رہا نا پری رہی۔ بہت پیار بھرے لہجے میں کزن نے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گی، ڈاکٹر صاحبہ نے فورا کہا “نہیں مجھے واپس جانا ہے آپ ایسے کریں یہ لکشمی چوک سے مجھے پانچ کلو کڑاہی پیک کرا دیں”۔ اس سے پہلے کہ کزن کے چہرے پہ آیا “شاک” اپنا رنگ بدلتا، میرا مشہور قہقہ اس زور سے نکلا معصوم بچی کے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ زمین پہ گر گئی۔ بس دوستو اتنا ہی یاد ہے کہ کزن یکدم غائب ہو گیا اور “ڈاکٹر صاحبہ” میری پیشکش کے باوجود واپس میری گاڑی کے بجائے سالم رکشہ کروا کر گئیں۔ کزن کو دیکھ کر آج بھی یہ واقعہ یاد آئے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے اور وہ فورا سمجھ کر شرمندہ ہو جاتا ہے۔

واقعہ یاد نجانے کیوں ایک ٹویٹ دیکھ کر یاد آیا۔ ہمارے ایک معروف لبرل سینیئر صحافی ہیں، اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، بلکہ کئی دوستوں کے بقول وہ نیا اور حقیقی مطالعہ پاکستان لکھ رہے ہیں۔ فرمایا استاد مکرم نے کہ “نواز شریف اب سیاستدان نہیں رہے، سقراط، منصور حلاج اور مارٹن لوتھر کنگ کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں”۔ اللہ اللہ،
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

سقراط کو قید کیا گیا، شاگردوں نے فرار کرانے کی پیشکش کی تو صوفی منش فلسفی نے تاریخ کے بجائے صیاد کے ہاتھوں مرنا قبول کیا اور زہر کا پیالہ پی گیا۔ منصور حلاج کے جسم کا ایک ایک عضو سولی پہ چڑھا کر کاٹا گیا، مطالبہ فقط اناالحق سے انکار کا تھا اور ظلم رک جاتا مگر صوفی نے زبان کے کٹنے تک اناالحق کی تکرار جاری رکھی۔ مارٹن، جدید تاریخ میں سول رائیٹس کا نمایاں ترین چہرہ تھا۔ ریاست اور اسکے کارندوں کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ڈٹ کر کھڑا رہا حتی کہ مارا گیا۔ آپ ان سب میں مشترکات دیکھئیے، یہ شروع سے ہی “انقلابی” تھی اور انکا اصرار حق کسی “محرومی” کے سبب نا تھا۔ یہ سب خود سامنے رہے نا کہ اپنے ماننے والوں کو آگے کر کے خود کسی پتلی گلی سے فرار ہو گئے۔

دوسری جانب ہمارے میاں صاحب ہیں۔ ڈیل کرنا انھیں اتنا ہی محبوب ہے جتنا کہ نہاری اور پائے۔ بلاشبہ پاکستان میں سیاسی عمل میں فوجی مداخلت بری ہے اور اسے بند ہونا ہو گا،اس میں بھی شک نہیں کہ عمران حکومت نے مایوسی کی وہ حبس پیدا کی ہے کہ لوگ لو کی دعا کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سوال رائیٹس سے وابستہ لوگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا کہ ہم “بتوں سے امیدیں” باندھ لیں۔ گذشتہ کو چھوڑئیے صاحب، ہمارے سقراط نے کچھ دن قبل ہی تو باجوہ صاحب کو ایکٹینشن کا ووٹ دلوایا تھا، اور پھر منصور جدید نے جیل کی سولی سے یوں فرار پایا کہ میڈیکل سائنس بھی مریض کی ریکوری پہ حیران ہے۔ آپ کے مارٹن ثانی لندن میں بیٹھ کر قوم کو سول رائیٹس کی جنگ کرنے کیلئیے کہہ رہے ہیں تاکہ انکی آمد کا سٹیج تیار ہو۔
چہ نسبت خاک را با عالم پاک

Advertisements
julia rana solicitors

نجانے ہمارے “دانشوروں” کو کون سی نگاہ میسر ہے کہ کبھی عطاالحق قاسمی پابلو نرودا ہو جاتے ہیں، کبھی دوپہر کی روٹی بچا بچا کر جنرل کیانی اربوں پتی ہو جاتے ہیں تو کبھی انھیں نواز شریف میں وہ صفات مل جاتی ہیں جو ابھی خود نواز شریف کو بھی نظر نہیں آئیں۔ کیجئیے صاحب، اپنے ممدوح کی تعریف جی بھر کے کیجئیے، مگر یاد رکھئیے اس “ڈاکٹرنی” نے بھی آخر میں پانچ کلو کڑاہی مانگ لینی ہے اور ہمارے قہقہے پھر آپ کے چہروں پہ آیا رنگ دیکھ کر دُکھی ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے