کیپٹن عمر کی شہادت اور اپوزیشن۔۔سعید چیمہ

شاہراہِ خیالات پر جا بجا سپیڈ بریکر نمودار ہو گئے ہیں، قلم کو شاہراہ پر چلانے کی تگ و دو میں ہوں مگر رکاوٹوں کے سبب قلم میں روانی نہیں ہے، روانی آتی ہے تو تخیل بٹنے لگتا ہے، خیالات دماغ کا، دماغ دل کا اور دل قلم کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، کیپٹن عمر فاروق چیمہ کی شہادت نے دل پر ایسا زخم لگایا ہے کہ جس کے رفو ہونے کی کوئی امید نہیں، شاید یہ عمر نام کی تاثیر تھی کہ کیپٹن نے بہادری سے شہادت کے دامن کو بوسہ دیا، کیپٹن عمر کے ساتھ 19 جوان اور بھی تھے جو شہداء کی عالی شان عمارت میں داخل ہوئے، پہاڑ سے پھوٹنے والے کسی چشمے کی طرح آنکھوں سے اشک رواں ہیں، چوبیس سالہ اس کیپٹن نے بھی اپنی آنکھوں کی منڈیر پر کچھ خواب سجائے ہوں گے، پل بھر میں وہ خواب کرچی کرچی ہو گئے، وہ ایسا کون سا مقصد ہے جس کی خاطر انسان اپنے خوابوں کی حسین وادیوں کو خیر آباد کہہ کر مقتل گاہ کی طرف روانہ ہو جاتا ہے، اور ایسی شان سے مقتل گاہ کی طرف رختِ سفر باندھا جاتا ہے کہ فیض بھی بول اٹھے

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر، کارگل کے فلک بوس برفانی تودوں پر اور بلوچستان کی شاہراہوں پر گویا کہ ہر جگہ جوانانِ فوج مقتل گاہ میں کھڑے ہو کر شہادت کے دامن کوبوسہ دیتے ہوئے پاک سرزمین کی شادابی کے لیے اپنا لہو بہا رہے ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ ہیں جو عشرت کدوں میں بیٹھ کر پاک فوج کے بارے میں دشنام طراز ہیں، ابھی پرلے روز لندن میں بیٹھ کر ایک لیڈر نے تقریر کی، چشمِ فلک نے ایسا لیڈر اس سے پہلے کہاں دیکھا تھا، مستقبل میں بھی نہیں دیکھے گی، یہ تو ہم پاکستانیوں کی کم بختی ہے کہ اس لیڈر کی قدر نہیں کی، ان کو اقتدار کی مسند سے اتارا گیا، اقتدار سے محرومی نے اس لیڈر کے دل میں انتقام کی ایسی چنگاری سلگائی کہ جو برابر سلگتی جا رہی ہے، اس لیڈر نے ایسی تقریر کی کہ تاریخ دان دنگ رہ گئے، بقراطوں کے نزدیک وہ ایک ایسی تقریر تھی جو تاریخ  کے دھارے کو موڑ دے گی، تقریر کیا تھی بلکہ دل میں چھپا ہوا غبار تھا جو الفاظ کی صورت میں باہر آ گیا، کچھ لوگ نعرہ مستانہ بلند کر رہے ہیں کہ یہ تقریر پاکستانی سیاست میں انقلاب کا پیش خیمہ ہے، ابراہم لنکن، چی گویرا اور ان ایسے لیڈر اچھا ہوا جو بھلے وقتوں میں عالمِ ارواح چلے گئے، وگرنہ تو کوئی نا ہنجار ان سے کہہ دیتا کہ آپ لوگوں نے خومخواہ جیلیں کاٹیں، عشروں تک انقلاب کے لیے جدو جہد کرتے رہے، اگر آپ لوگ بھی لندن میں بیٹھے ہوئے اس شخص کی طرح تقریر کرتے تو آپ کے ملکوں میں بھی ایسا انقلاب برپا ہوتا کہ لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھتے، اپوزیشن کی جانب سے کیا کسی ایک لیڈر نے بھی ڈھنگ کی تقریر کی، الفاظ کا ذخیرہ نہ ہو تو تقریر کہاں سہل ہوتی ہے، اوٹ پٹانگ الفاظ تو ہر کوئی بولتا چلا جاتا ہے، اور اس لیڈر کے کارندے ان الفاظ پر تقریر کا خوش نما غلاف چڑھا دیتے ہیں، لندن میں بیٹھے ہوئے اس لیڈر کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی تمنا ہے کہ کیسز ختم ہوں اور حکومتی اقتدار کا  خیمہ جلا دیا جائے، خواہشوں پر خواہشیں، کیفی اعظمی نے پھر قلم توڑا

انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں

دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آ جائیے اس بات کے اوپر کہ جلسہ کیسا تھا، گیارہ جماعتوں کا متحد پاور شو تھا، کچھ بڑا ہونا چاہیئے تھا، مگر نہ ہو سکا، کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ ساحر لودھی کی فلم کی طرح جلسہ فلاپ تھا، ظفر ہلالی اپنی ساکھ کے اعتبار سے میڈیا پر آنے والی چند قابلِ بھروسہ شخصیات میں شامل ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ اپوزیشن نے اس جلسے کے لیے دو ارب کے فنڈ مختص کیے تھے، لاہور سے لے کر گجرات تک، منڈی بہاؤالدین سے لے کر حافظ آباد تک لوگوں نے جلسے میں شرکت کی، مگر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جو تنکوں کو بہا لے جاتا کہیں نظر نہ آیا، پنجابی فلموں کے مولا جٹ اور نوری نت کی طرح خوب بڑھکیں ماری گئیں، کوئی رہ نما بھی ڈھنگ کا پلان پیش نہ کر سکا، پہلے بھی فدوی لکھ چکا ہے کہ عوامی مسائل اپوزیشن کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو تو بس اپنی فکر کھائے جا رہی ہے کہ ہماری حالت قفس میں قید ہوئے کسی پرندے کی طرح ہے اور ہمیں ہر آزادی دی جائے، پہلے منتیں سماجتیں ہوئیں اور اب بات بڑھکوں تک ان پہنچی ہے، جن پر برابر تیر اندازی کی جا رہی ہے وہ اپنے مورچوں میں خاموش بیٹھے ہیں، شاید فی الحال وہ جوابی کاروائی کا ارداہ نہیں رکھتے،  شاید وہ چاہتے ہیں کہ گھمسان کا رن نہ پڑے، کیوں کہ ملکی حالات ایسے نہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان گھمسان کا رن شروع ہو، اب اگر یہی زبان جو گوجرانوالہ کے جلسے میں استعمال کی گئی  ، دوسرے جلسوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے تو شاید دوسرے فریق کے صبر کا جام چھلک جائے،  اپوزیشن اگر چاہتی ہے کہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو تو اس کو ایک پُر اثر لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا، بڑھکوں کی سیاست کی کشتی سے اترنا ہو گا، تقریروں میں الفاظ کا چناؤ ایسا رکھنا ہو گا جو عوام کو بد مزہ نہ کرے، ہاں مگر عوام کو، سیاسی کارندوں کی بات دوسری ہے جن کی عقل سلب کر لی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply