• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • غنی خان: عظیم پشتون شاعر ،مبارز اورفیلسوف(حصہ اوّل)۔۔۔مشتاق علی شان

غنی خان: عظیم پشتون شاعر ،مبارز اورفیلسوف(حصہ اوّل)۔۔۔مشتاق علی شان

غنی خان جدید پشتو ادب کا ایک معتبر حوالہ ہے ۔انھیں اگر پشتو زبان کا سب سے مقبول شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔دنیا بھر میں جہاں جہاں پشتون بستے ہیں وہاں غنی خان پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ پشتو زبان کے ممتاز گلوکار سردار علی ٹکر نے ان کی نظموں کو اپنی خوبصورت آواز میں گا کر گویا دوام بخش دیا ہے ۔ یوں غنی خان کی شاعری محض کتابوں تک محدود نہیں رہی بلکہ وسیع عوامی حلقوں تک اس کی رسائی ہے ۔ شاید ہی کسی پشتون شاعرکے کلام کو اتنی عوامی پذیرائی ملی ہو جتنی کہ غنی خان کے حصے میں آئی ہے اور آج بھی دور دور تک ان کا کوئی ہمسر و ثانی نظر نہیں آتا ۔ بلاشبہ پشتونوں نے انھیں اپنے سب سے بڑے شاعر کا درجہ دے رکھا ہے ۔غنی خان کے خیالات اور افکار سے اختلاف بلکہ شدید ترین اختلافات رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن ان کے بدترین مخالفین کو بھی ان کے مدھر گیتوں پر سر دھنتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مزدور،کسان، طلبا، خواتین سمیت پشتون سماج کے محروم طبقات ان کی شاعری کے دلدادہ ہیں ۔جہاں جہاں پشتون بستے ہیں وہاں غنی خان کے نغمے گونجتے ہیں۔

غنی خان کا تعلق پختونخوا کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تھا ۔ان کے والد خان عبدالغفار خان ( باچا خان) جنگ ِ آزادی کے ایک آزمودہ کار سپاہی تھے جنھوں نے برطانوی استعمار کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک اورکانگریس کے پلیٹ فارم سے جدوجہدِ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا، اس سلسلے میں قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور ”سرحدی گاندھی“ کہلائے ۔یہ اور بات کہ اس وجہ افتخار کو پاکستان میں وجہ ندامت بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ان کے چچا ڈاکٹر خان صاحب ( عبدالجبار خان) بھی ایک فریڈم فائٹر تھے جنھوں نے اس زمانے میں برطانوی سامراج کو للکارا تھا جب اس کی قدم بوسی کو بعد میں ”حب الوطنی“ کے اسناد جاری کرنے والے اپنا اولین فریضہ گردانتے تھے۔ یہ وہی ڈاکٹر خان صاحب تھے تقسیم ِ ہند کے بعد پختوانخوا میں جن کی منتخب حکومت کا غیر جمہوری طور پر خاتمہ کیا گیا اور ایک متنازعہ ریفرنڈم کا ڈول ڈالتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کے اِس پار پشتونوں کی تقدید گویا طے کر دی گئی ۔ باچا خان کی طرح ڈاکٹر خان صاحب نے بھی انگریز حکمرانوں اور بعد ازاں ”اسلامی پاکستان“ کے حکمرانوں کے دور میں قید وبند کا سامنا کیا ۔1958میں آزادی کے اس سپاہی کو لاہور میں قتل کر دیا گیا ۔ غنی خان کے چھوٹے بھائی ولی خان ملک کے معروف سیاست دان تھے جن کی سیاست کا دائرہ ”نیشنل عوامی پارٹی“ ( نیپ) سے لے کر ”عوامی نیشنل پارٹی “(ANP) تک پر محیط تھا ۔ اس زمانے میں ملک بھر کے ترقی پسند ، سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، قوم پرست اور سماج کے دیگر مظلوم طبقات نیپ کا حصہ ہوا کرتے تھے ۔ آج غنی خان کے بھتیجے اسفند یارولی’عوامی نیشنل پارٹی‘کے قائد ہیں۔مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد ان کی جماعت پختونخوا میں برسرِ اقتدار آئی۔اور اس نے انتہائی بہادری سے طالبان نامی ظلمات پرستوں کا سامنا کیا اور اس کی پاداش میں کئی ایک قابلِ قدر قربانیاں دیں۔

جہاں تک غنی خان کا تعلق ہے تو انھیں مذکورہ بالا حوالہ جات کی نہ کبھی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی ہو گی ۔ غنی خان اس وقت بھی زندہ رہیں گے جب ان کے خاندان کا کوئی فرد صحنہء سیاست میں موجود نہیں ہو گا ۔غنی خان کے گیت تب بھی دلوں کو گرماتے اور کیف ومستی پر اکساتے رہیں گے جب آج کے عہد کی ملائیت، مذہبی جنونیت ،نسل پرستی اور سامراجیت تاریخ کے اندھیر غاروں میں اوندھے منہ پڑی ہوگی اور نوعِ انسانی نت نئی منزلوں کی جانب پیش رفت کر رہی ہو گی ۔ غنی خان نے اپنی شخصیت، اپنا کردار اور اپنا قدوقامت خود تراشا ہے ۔وہ ایک جہان ِ فن ہے مبارز، فیلسوف ، دانشور، سنگ تراش ،مجسمہ ساز، مصور ، گندھارا تہذیب کے مستند اسکالر ،مورخ، شاعر وادیب ، سقراط ، مسیح اور بدھا سے لے کرامام حسین اور منصور حلاج تک سے اپنا فکری تعلق جوڑنے والے ،عمر خیام کے ہمنوا، حسن ،محبت، سرمستی اور سرشاری کے گیت گانے والے ، ساغر ومینا کے دلدادہ ، ملا اور ملائیت کے ازلی دشمن ،روحانی تجلیوں کے میک اپ کا برسرِ عام مذاق اڑانے والے۔ پتا نہیں غنی خان کیا کیا ہیں۔عبدالغنی خان سے غنی خان اور ” فلسفی لیونے“ ( فلسفی دیوانہ۔ اس قلمی نام سے غنی خان کچھ عرصے تک مختلف اخبارت و رسائل میں لکھتے رہے پھر غنی خان ” فلسفی لیونے“ کے نام سے بھی مشہور ہوئے) بننے تک کا سفر انھوں نے یوں ہی نہیں طے کر لیا بلکہ یہ ایک کڑی تپسیا کا نتیجہ ہے۔ آئیے پہلے غنی کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

غنی خان پہلی عالمگیر جنگ کے سال یعنی 1914میں ہشت نگر کے گاؤں اتمانزئی میں پیدا ہوئے۔ ابھی پانچ سال کے ہی تھے کہ ممتا کی گھنی چھاؤں سے محروم ہوگئے ۔ان کے والدباچا خان ان دنوں ڈیرہ غازی خان کی جیل میں تھے۔ اس کرب ودکھ کا اظہار بعد ازاں ان کی کئی نظموں میں نظر آیا ۔ غنی خان نے برسوں بعد اپنی ماں کا مرثیہ لکھا جس میں ایک پانچ سالہ بچے کا دکھ اور اس کے سارے احساسات کو کمال ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے ۔غنی خان نے ابتدائی تعلیم اتمانزئی میں اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کے قائم کردہ ” آزاد
قومی اسکول “ میں حاصل کی ۔یہ اسکول جدید عصری تعلیم کے لیے قائم کیا گیا تھا جس کے خلاف انگریزوں کے ایجنٹوں اور ملا حضرات نے پروپیگنڈے کا بازار گرم کر رکھا تھا۔

بعدازاں غنی خان نے جامعہ ملیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی جہاں ان کی عربی دانی اور فارسی دانی کے چرچے زباں زد عام تھے ۔ جولائی 1929میں غنی خان بمبئی سے بحری جہاز ”نلڈیرا“ میں سوار ہو کر مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے ۔ اس بحری سفر کے دوران انھوں نے متعدد نظمیں لکھیں۔لندن میں انھوں نے شکر سازی کا ایک خصوصی کورس کیا ۔ یہ غنی خان کے معاشقوں کا دور تھا ۔ ایک طرف وہ حسن پرست تھے تودوسری جانب خود بلا کے حسین ۔ایک انگریز اداکارہ سے جب عشق کے چرچے ان کے والد تک پہنچے تو اس عشق کے شادی پر منتج ہونے سے قبل ہی انھیں امریکا میں کیمسٹری کی تعلیم کے لیے جانے کا حکم ہوا۔ غنی خان نے سعادت مند بیٹے کی طرح اپنا بوری بستر باندھا اور امریکا جا پہنچا ۔لندن کے معاشقوں کا ذکر انھوں نے اپنی کئی ایک نظموں میں کیا ۔ان نظموں سے اس خاتون کا نام ” ازبیل“ معلوم ہوتا ہے۔1931میں باچا خان ایک بار پھر حوالہ زندان کر دیے گئے تو غنی خان کو مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس ہندوستان آنا پرا ۔انھوں نے بہار کی ”ہزاری باغ جیل“ میں اپنے والد سے ملاقات کی جنھوں نے انھیں موتی لال نہرو کے گھر الہ آباد بھیج دیا ۔ یہاں انھوں نے 8ماہ کا عرصہ گزارا ۔ جواہر لال نہرو کی بیوی کملا اپنے بچوں کی طرح ان کا خیال رکھا کرتی تھی ۔اس دوران جب پولیس جواہر لال نہرو کو گرفتار کرنے کے لیے سرگرداں ہوئی تو انھوں نے گاندھی جی کے مشورے پر غنی خان اور اپنی بیٹی اندرا کو رابندر ناتھ ٹیگور کے شہرہ آفاق ادارے ” شانتی نکیتن “ بھیج دیا ۔ان دنوں باچا خان نے غنی خان کو ایک خط میں لکھا کہ ” غنی جان !یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ تم گاندھی جی کے مشورے پر بنگال جا رہے ہو ۔اگر تم گاندھی جی کے مشوروں اور نصیحتوں پر عمل کرو گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی ،کیونکہ وہ تم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔“ شانتی نکیتن میں غنی خان نے رابندر ناتھ ٹیگور جیسے فلسفی ، شاعر وادیب اور طباع کی نگرانی میں فلسفے، موسیقی ، مجسمہ سازی ،مصوری اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم حاصل کی ۔مصوری کے فن میں ان کے استاد رابندر ناتھ ٹیگور اور نانا لال بوس تھے تو مجسمہ سازی کا فن انھوں نے رام کنکار اور کرشنا کرپلانی جیسے اساتذہ سے سیکھا تھا ۔شانتی نکیتن کی عظیم درس گاہ کی گہری چھاپ ان کی شاعری، مصوری اور سنگ تراشی کا جزولانیفک بن گئی ۔

شانتی نتکیتن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد غنی خان بمبئی آ گئے جہاں ایک دوست کے گھر میں وہ حیدر آباد دکن کے ایک نواب رستم جنگ کی صاحبزادی روشن کی زلفوں کے اسیر ہو گئے ۔ یہ معاشقہ سات سال بعد 1939میں روشن سے ان کی شادی پر منتج ہوا ۔غنی خان نے اس خاتون سے ٹوٹ کر محبت کی اور شادی سے قبل اور بعد میں اپنی محبوبہ کے نام متعدد نظمیں کہیں جو ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ایک نظم میں وہ اپنی محبوبہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ
اک خواب ہے شاعر کا
یاں صورتِ انسانی
ہے دور سریلا جو
اک ساز آسمانی
اک پھول ارم کا ہے
خصلت میں ہے رحمانی
ایک جسم ہے وہ ناری
اک قلب ہے نورانی
محبوبہ غنی خاں کو
مل ہی گئی آخر جو
پختون ہے غیرت میں
اور حسن میں ایرانی

غنی خان نے کچھ عرصہ یوپی اور پھر تخت بائی ( پختونخوا ) کے ایک شوگر مل میں بھی ملازمت کی لیکن قسام ِ ازل نے شکر سازی اور کیمسٹری سے لے کر فلسفہ اور فنونِ لطیفہ تک کی تعلیم حاصل کرنے والے خان غنی کو محض گنے اور چقندر کے شیرے کو چینی کی مٹھاس میں تبدیل کرنے کے لیے نہیں تھا ڈھالا ۔وہ تو ان سماعتوں میں شعر و نغمہ کے ساتھ ساتھ عقل وشعور کا رس گھولنے کے لیے پیدا ہوئے تھے جن میں صدیوں جہالت انڈیلی گئی، جن پر سامراجی آقاؤں اور ان کے وظیفہ خور ملاؤں نے نادیدہ پہرے بٹھا رکھے تھے ۔ انھیں اعلیٰ انسانی آدرشوں کی صورت گری کرنی تھی اور ان اذہان کو جھنجوڑنا تھا جوبستہء اوہام تھے ۔ غنی خان کو شعر وادب کی آبیاری کرنی تھی ،رجعت پرستی جس کے سوتے خشک کردینے کے درپے تھی ۔
سو کچھ عرصے بعد غنی خان نے ملازمت چھوڑ دی ۔ ان کے والد جیل میں تھے جس کے باعث وہ اپنی آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ شعر وادب کی کاکلیں سنوارتے رہے ۔ اس
زمانے میں ان کی شاعری میں عصری سیاسی شعور بلندیوں پر نظر آتا ہے جس میں انھوں نے قوم پرستی کے زیر اثر برطانوی سامراج کے خلاف نظمیں کہیں۔

غنی خان کی سیاسی عمر اگرچہ مختصر تھی مگر یہ تھی انتہائی بھرپور ۔ انھوں نے ایک سیاسی ماحول میں پرورش پائی تھی اور ان کی تربیت اپنے والد باچا خان کے علاوہ گاندھی جی ، جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے اکابرین کے درمیان ہوئی تھی ۔البتہ غنی خان نے یہاں بھی اپنا تخصص برقرار رکھا ۔ وہ گاندھی جی اور باچا خان کے برعکس فلسفہ عدم تشدد کے بالکل قائل نہیں تھے بلکہ وہ برطانوی سامراج اور اس کے گماشتوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔وہ اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے ۔ جب غنی خان محض دس ، بارہ سال کے تھے تب بھی وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے پرجوش تقریریں کیا کرتے تھے۔ باچا خان اپنی سوانح عمری” میری زندگی اور جدوجہد“ میں لکھتے ہیں کہ ” غنی ایک بہت اچھا مقرر تھا اور بڑی شاندار تقریر کیا کرتا تھا ۔وہ اپنی تقریر کے آخر میں لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ ”اے لوگو! آپ ذرااس حکومت سے یہ تو پوچھیں کہ میرے والد کو اس نے کس لیے قید کر رکھا ہے۔ آخر ان کا گناہ کیا ہے اور انھوں نے کون سا جرم کیا ہے۔“ہمارے لوگوں پر ان باتوں کا بڑا اثر پڑتا تھا ،لہذا وہ بڑے متاثر ہوئے اورملک میں ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی“۔

غنی خان نے 1945کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور تین بڑی جماعتوں ’خاکسار تحریک‘ ،’ مسلم لیگ‘ اور ’ہندو مہا سبھا “ کے امیدواروں کو شکست دی اور مرکزی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوکردہلی چلے گئے ۔اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی اور وہ مرکزی پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر رکن تھے ۔ وہ مرکزی وزراءکے 11مشیروں میں شامل تھے اور ان کا شمار تین شعلہ بیان مقرروں میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں غنی خان نے کئی ایک بین الاقوامی دورے بھی کیے اور مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کی ۔
ان کا آخری سیاسی کام ” زلمے پختون“ ( نوجوان پختون)کا قیام تھا ۔ یہ تنظیم انھوں نے1947میں اس وقت قائم کی جب ”کانگریس “اور ”خدائی خدمت گا ر تحریک“ کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مسلم لیگ کے غنڈوں کی طرف سے حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ۔ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے قائل غنی خان نے 80ہزار نوجوانوں کا مسلح لشکر قلیل عرصے میں تیار کر لیا ۔ شروع میں مسلم لیگ نے اس تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے ” غازی پختون“ کے نام سے اپنی ایک بغل بچہ تنظیم بنائی مگر پھر پسپائی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ غنی خان کی یہی قائم کردہ مسلح تنظیم تھی جس نے اگست 1947میں پختونخوا بالخصوص پشاور میں ہندو مسلم فسادات کی کوششوں کو ناکام بنایا ۔غنی خان متحدہ ہندوستان کے حامی تھے ،برصغیر کی تقسیم نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔اس کے بعد وہ کبھی سیاست کے طرف مائل نہیں ہو سکے ۔

اگر چہ غنی خان تقسیم کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے لیکن 1948میں جب مسلم لیگ کی قیوم خانی سرکار نے باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کیا تو غنی خان اور ولی خان بھی حوالہء زنداں کر دیے گئے ۔ 12اگست 1948کو جب چارسدہ کے علاقے ” بابڑا “ میں ان گرفتاریوں کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنان پرامن طور پر سراپا احتجاج تھے تو قیوم خان نے ان پر فائرنگ کا حکم دیا جس سے سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ۔ سانحہ بابڑا پر غنی خان چیخ اٹھے ۔
نن دہ ہغہ ورز چی پختون جوند پہ مرگ گٹلے ہو
خپلی محبوبہ لہ زلمی سر تلی کی وڑے ہو
تہ ماتا ملا بابا د یو اسمعیل کڑے قصہ
دلتہ پہ ہر گام باندی یو یو قربان شوے ہو
منظوم ترجمہ
آج ہی کا دن ہے وہ
پختون نے ممات کو
دی شکستِ فاش یاں
اور حیات جیت لی
آج ہی کا دن ہے وہ
عاشق ِ جواں تھا جب
پیش گل عذار کے
سر بکف کھڑا ہوا
مت سنا اے مولوی !
قصہ اسمعیل کا
یہاں تو گام گام پر
قرباں ہوئے ہیں نوجواں

جنرل ڈائر کے نقشِ قدم پر چلنے والے قیوم خان کو ایک اور انوکھا اعزاز بھی حاصل ہے ۔مشرف بہ مسلم لیگ ہونے اور وزارات کی مسند پر جلوہ افروز ہونے سے قبل اس نے اپنی
کتاب”گولڈ اینڈ گنز “ میں خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا ۔البتہ پختونخوا کا وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی موصوف نے اپنی ہی کتاب پر پابندی عائد کر کے دنیا کے پہلے ” باضمیر“ مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔
بہر کیف غنی خان نے 1948سے لے کر 1954تک کا عرصہ پشاور ، ہری پور، حیدر آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان ، خانپوراور تھنڈیانی سمیت مختلف جیلوں میں گزارا ۔ انھیں ایامِ اسیری میں غنی خان نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ” د پنجرے چغار“ ( پنجرے کی فریاد)مکمل کیا ۔ دورانِ قید انھوں نے اپنی بہترین نظمیں تخلیق کیں ۔ یہ مجموعہ بعد ازاں 1956میں پشاور سے شایع ہوا۔ اس کے بعد غنی خان ایک شاعر کے طور پر مشہور ہوتے چلے گئے غنی خان کی شاعری پشتون عوام میں جتنی مقبول تھی پاکستان کے فنون و ادب کے اداروں نے انھیں اتنا ہی نظر انداز کیا ۔ انھیں سرکاری سطح پر انتہائی ناپسندیدہ فنکار تصور کیا جاتا تھا۔1985میں غنی خان کی کلیات ” د غنی کلیات“ کابل سے انقلابی حکومت نے شایع کی تب کہیں جا کر انھیں پاکستان میں پذیرائی مل سکی ۔
غنی صرف ایک بڑے شاعر ومصور ہی نہیں بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے ۔ ان کے اکلوتے بیٹے فریدون رستم جنگ کو 1987میں ان کے ایک مزارع نے معمولی تکرار پر بیلچہ مار کر قتل کر دیا تھا مگر غنی خان نے پشتونوں کی خونی روایات کے برعکس اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیا ۔ ورنہ پشتون سماج، جوان بیٹے کا قاتل وہ بھی اپنا مزارع ، پتا نہیں اس مزارع اور اس کے خاندان پر کیا گزرتی مگر غنی خان ایک خون کے بدلے دوسرے خون کے قائل نہیں تھے ۔ وہ سیاسی طور پر عدم تشدد کے قائل نہیں تھے لیکن وہ اتنے بڑے انسان تھے کہ جب بات ان کی ذات تک پہنچی توانھوں نے تشدد سے کام نہیں لیا ۔

عمر کے آخری حصے میں غنی خان ریڑھ کی ہڈی کے مفلوج ہونے اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔1994میں پشاور میں ان کے ساتھ ایک یادگار شام منائی گئی جس میں ملک بھر سے شعرا، ادبا اور دانشوروں نے ان کی شخصیت اور فن پر اظہارِ خیال کیا ۔اس موقع پر غنی خان نے ویل چیئر پر بیٹھے بزبان شعر ونثر حالِ دل سنایا ۔
15مارچ1996کو اس عظیم شاعر کا انتقال ہوا ۔ ان کاجنازہ آبائی گاؤں اتمانزئی میں ہوا جس میں ساٹھ ہزار افراد شریک ہوئے ۔ ان کی وفات کے بعد پختونخوا حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 8ایکڑ رقبے پر ” حجرہ غنی“ کے نام سے ایک کتب خانہ قائم کیا جو ان کے آبائی گھر” دارالامان“ کے قریب واقع ہے۔
غنی خان کی تصانیف
(1) د پنجرے چغار“ ( پنجرے کی فریاد) ۔یہ غنی خان کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو 1956میں پشاور سے شایع ہوا ۔ اس مجموعے میں شامل زیادہ تر نظمیں ایامِ اسیری کے دوران لکھی گئی ہیں ۔ اس مجموعے کے منصہ شہود پر آنے سے غنی خان ایک صاحبِ طرز ، مستند اور منفرد شاعر کے طور پر مشہور ہوگئے ۔ اس مجموعے میں شامل نظمیں زباں زد عام ہوئیں۔
(2)”د غنی پلوشے“ ( غنی کی کرنیں) ۔غنی خان کا یہ دوسراشعری مجموعہ کابل سے شایع ہوا جس پر 1364کا سال درج ہے ۔ اس مجموعے میں ان کی پہلی نظم ” تسلی“ کے عنوان سے شامل ہے جس کے حاشیے میں غنی خان لکھتے ہیں کہ ”یہ میرا پہلا شعر ہے جو میں نے 14سال کی عمر میں ”نلڈیرا “ نامی بحری جہاز پر کہا تھا ۔“ شعر کچھ یوں ہے ۔
تہمت سے اس جہان میں کس کو ملی نجات ہوتے ہیں آسمان پہ بادل کبھی کبھی
(3)”پانوس“ ( فانوس)۔ غنی خان کا یہ تیسرا ضخیم شعری مجموعہ 1978میں پشاور سے شایع ہوا ۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری عروج پر نظر آتی ہے ۔
(4)”د غنی کلیات“ ( کلیاتِ غنی)۔ غنی خان کی یہ کلیات 1985میں کابل سے شایع ہوئی جس میں ان کے تینوں مجموعوں کو یکجا کیا گیا ہے ۔اس کلیات کے آخر میں غنی خان کے حالاتِ زندگی اور ان کے فن کے متعلق پشتو زبان کے مشہور شعرااور ادبا کی آراءشامل ہیں۔جب کہ اس کا پیش لفظ افغانستان کے مشہور انقلابی شاعر اور رہنما کامریڈ سلیمان لایق نے تحریر کیا ہے. یہ کلیات 680صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے اب تک درجنوں ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں ”لٹون“( تلاش) کے نام سے پشاور سے بھی غنی خان کی کلیات شایع ہوئی۔
.THE PATHANs(5) ( دی پٹھان) ۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی غنی خان کی یہ کتاب 1958میں پشاور سے شایع ہوئی ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن پشتو ادبی سوسائٹی ( اسلام آباد) کی طرف سے میں 1991میں شایع کیا گیا ۔”دی پٹھان“ کو پشتونوں کی تاریخ ، ثقافت اور ادب کے حوالے سے مستند ترین کتاب سمجھا جاتا ہے ۔اس کتاب کے دوسرے حصے میں غنی خان کی انگریزی نظمیں اور افسانے بھی شامل ہیں۔
اس کتاب میں غنی خان لکھتے ہیں کہ ” میں نے لوگوں کو اپنے لوگوں کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کوشش میں میرا نقطہ نظر جذبات سے عاری ، غیر متعصبانہ اور غیرجانبدارنہ نہیں تھا ۔ کیوں کہ میں کوئی پتھر نہیں ہوں کیونکہ پتھر ایک واحد چیز ہے جسے آپ پوری سچائی کے ساتھ غیر جانبدار یا غیر متعصب کہہ سکتے ہیں ۔ سوچ جانبداری کا اظہار ہوتی ہے جب کہ تخلیقی تحریک جانبداری سے بالاتر ہے۔ اس لیے یہ سوچ سے بالا تر ہوتی ہے۔انسان کے لیے تعصب اور جانبداری کا مادہ ماں کے دودھ کی طرح ہے ۔ آپ جتنی جلدی یہ بات تسلیم کر لیں اتنا ہی اچھا ہے ۔جب بھی میں ہائی کورٹ کے کسی جج کو سنجیدگی اور ایک شان کے ساتھ ”غیر جانبدرانہ انصاف بانٹتے دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے ۔ میں اپنی تحریر کو غیر جانبدار نہیں کہوں گا ۔ میں پٹھان ہوں اور مجھے دیانتداری سے کام لینا ہے ۔اگر میں ایسی غیر جانبداری برتوں گا تو مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو جائے گی ۔
(6)” خان صاحب“۔ اردو زبان میں لکھی گئی غنی خان کی یہ واحد کتاب ہے جو مزاح کا بھی شاندار نمونہ ہے ۔ ذرا یہ عبارت دیکھئے جس میں غنی خان نے پشتونوں کی طبقاتی تقسیم کو شگفتگی سے بیان کیا ہے ۔” ارے بھائی خان صاحب ! ذرا یہ تو سمجھائیے کہ سب پٹھان خان کیسے ہوتے ہیں ؟ ۔ نہیں نہیں پٹھانوں میں ایک یا دو خان ہوتا ہے اور تو یہ سب جولاہا ،مولاہا ، لوہار، موہار ،کدو ، کریلا اِدھر اُدھر کا لوگ ہوتا ہے۔ ایک لاکھ کا قبیلہ ہے تو دس ہزار پٹھان ، ان میں بیس تیس بڑا بڑا خاندان ۔پھر اس میں کہیں ایک دو خان نکل آتا ہے۔ یہ ایسا آسان کام نہیں ہے ۔“
غنی خان بطورِ شاعر:
غنی خان پشتو ادب میں ایک ممتاز مقام پر متمکن ہیں ۔ ان کی شاعری سے آج پشتونوں کی نہ صرف تیسری اور چوتھی نسل حظ اٹھا رہی ہے بلکہ یہ انھیں مسلسل وہم اور جہالت کے جالوں کے خلاف صف آراءہونے پر بھی ابھار رہی ہے۔ابتدائی زمانے کی کچھ نظموں سے قطع نظر غنی خان ایک رومانوی شاعر ہیں ۔لیکن صرف رومانوی ہونا ان کا تخصص نہیں ہے۔ وہ محض عشق ومحبت ، وصل وخمار ،مستی وسرشاری کے ہی شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ یورپ کے قاموسی دانشوروں دیدرو ، والٹیر اور ہولباخ کی طرح مذہب کے ٹھیکہ داروں کے خلاف بھی مسلسل جہد آزما نظر آتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود آپ غنی خان کو کسی ایک اسکول آف تھاٹ کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے ۔وہ جب مستی اور سرشاری میں آتے ہیں تو اپنی محبوبہ کے مقابل انھیں ” جنت کی سرخ وسفید موٹی تازہ عریاں حوریں“ بھی ہیچ نظر آتی ہیں ۔ وہ جنت کی حقیقت سے واقف ہیں لیکن اس کے خیال سے دل کو نہیں بہلاتے بلکہ اسی دنیا میں ایک ” گل اندام “ کا مطالبہ کرتے ہوئے حور وقصور ملا کو بخش دیتے ہیں ۔غنی خان اس جہانِ رنگ وبو میں مسرت کا نسخہ ” جانان ،جوانی اور ساغر“ کو ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ توہم پرستی اور دقیانوسیت پر مسلسل حملہ آور ہونے کے اپنے فریضے سے بھی غافل نہیں رہتے۔غنی خان ایک طرف جمال کے شاعر ہیں تو دوسری طرف جلال کے بھی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں ۔ وہ کبھی صوفی ، کبھی ایک رندِ مست ،کبھی رجائیت پسند تو کبھی قنوطیت کی انتہاؤں کو چھوتے نظر آتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply