مُجھ میں تُو موجود۔۔گوتم حیات

“مجھ میں تُو موجود “نے دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیا۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک کامیاب تھیٹر ڈرامہ وہی ہے جس کو دیکھ کر شائقین وہ نہ رہیں جو وہ ڈرامہ دیکھنے سے پہلے تھے اور کچھ ایسا ہی اثر آج شب اس کھیل نے بھی کیا۔ کراچی تھیٹر فیسٹیول کے سلسلے میں   شب سترہ اکتوبر کو آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں اسٹیج کیے جانے والے اس کھیل کی مرکزی کہانی امر جلیل کے افسانے پر مبنی تھی، امر جلیل صاحب کے افسانے کو اسٹیج کے روپ میں ڈھال کر انور جعفری نے کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی ڈائریکشن شیما کرمانی اور انور جعفری نے مل کر سر انجام دی۔ اسے دیکھ کر مجھے اردو ادب کی ایک لازوال ادیبہ “قرہ العین حیدر’ کی یاد آئی، انہوں نے کہیں لکھا تھا کہ
“یہ تعزیوں، پیروں، فقیروں اور درگاہوں اور رام لیلاؤں کا  کلچر ہمارا  اصل کلچر ہے اور بڑی نعمت ہے اور اسے ہر گز ہرگز مٹنے نہیں دینا چاہیے۔ نہ یہ بدعت ہے نہ اوہام پرستی، نہ شرک، نہ بت پرستی، یہ محض ہمارے عوام کا تہذیبی سرمایہ ہے”۔

شیما کرمانی اور انور جعفری صاحب نے اسی کلچر کو آج اسٹیج پر زندہ کیا ہے، جسے مذہبی گروہوں کے انتہاپسند عناصر گزشتہ کئی دہائیوں سے مٹانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
“تحریک نسواں” کی اس پروڈکشن نے سندھ میں جاری مذہبی بنیاد پرستی کی تاریخ کو موجودہ صورتحال سے جوڑ کر دیکھنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مزاحمت کے چراغ کبھی نہیں بجھتے۔ اس دھرتی سے انسانیت اور مذہبی رواداری کی صدیوں پرانی روایات کو کچلا نہیں جا سکتا۔ کل اور آج اور آنے والے کل میں بھی جیت بھگت کنور رام کی راہ پر چلنے والے راستے کی ہی ہو گی۔ یہ راستے دشوار گزار اور کٹھن ضرور ہیں لیکن ناممکن نہیں ہیں۔

اس کھیل میں سندھ کے ایک صوفی شاعر اور فنکار بھگت کنور رام شہید کی کہانی کو مختصراً اجاگر کر کے کہانی کو مدن فقیر اور تمنا کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔کھیل کا مرکزی کردار مدن فقیر ہے جو سرسنگیت کا بادشاہ ہے، دھرتی سے جڑا ہوا، انسانیت کی محبت میں سرشار، سچائی کی راہ پر گامزن، ہندو مسلم کی تفریق سے بے نیاز، لوگوں کے دلوں میں اپنی مسحور کُن آواز اور شاعری سے انسانی برابری کا کلمہ منور کر رہا ہے۔۔۔ لوگ اس کے گرویدہ ہو رہے ہیں، علاقے کی ایک بااثر شخصیت کی بیٹی “تمنا” اس فقیر سے سُرسنگیت کے اسرار و رموز سیکھ رہی ہے، آہستہ آہستہ وہ سر تا پا مدن کے روپ  میں ڈھلتی جاتی ہے اور یہ بات اس کے والد کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ اپنی بیٹی کے یوں ایک فقیر کی شاگردی میں رہ کر سنگیت و رقص کی گہرائیوں میں اتر جانے کو اپنی غیرت و انا کا مسئلہ  بنا دیتے ہیں، انہیں اس بات کا بھی رنج ہے کہ ان کی اعلیٰ  تعلیم یافتہ بیٹی مسلمان گھرانے کی ہونے کے باوجود مدن فقیر جیسے فنکار کو اپنا استاد مانتی ہے اور پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر رقص کر کے کون سے گیان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

تمنا کا باپ طاقت کے نشے میں چور مدن فقیر کو قتل کروا دیتا ہے اور اپنی بیٹی کی زبردستی شادی کر کے اسے ملک سے باہر بھیج دیتا ہے، وہ شاید اس یقین کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کرتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن عشق کا راگ تمنا کے دل میں گھر کر چکا ہے وہ شادی کے بعد بھی اپنے راستے پر گامزن رہتی ہے، اس کے لیے ابھی بھی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت سُرسنگیت اور رقص ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مدن فقیر کے فراق میں غرق ہے، اس کی تلاش میں وہ سارے بندھن توڑ کر واپس اپنی دھرتی میں آجاتی ہے، کوئی مندر، کوئی درگاہ، کوئی مزار ایسا نہیں ہوتا جہاں پر اس نے مدن کو تلاش نہ کیا ہو، وہ تو برسوں پہلے قتل کیا جا چکا تھا لیکن یہ تلخ حقیقت وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ایک رات جبکہ وہ مزار پر وجد کی کیفیت میں بیٹھی ہوئی ہے، فنکاروں کی ٹولی اس کے پاس سے گزرتی ہے، وہ ان سے مدن کے بارے میں پوچھتی ہے کہ وہ کب گائے گا۔۔۔ فنکاروں کی ٹولی کی سربراہ اس سے کہتی ہے کہ وہ تو کب کا مر چکا، وہ کس طرح گا سکتا ہے۔۔۔ لیکن تمنا انہیں زور دے کر کہتی ہے کہ وہ تو زندہ ہے، یہیں موجود ہے، وہ گا رہا ہے، وہ کل بھی گائے گا۔۔۔ اور یوں گاؤں میں یہ بات مشہور ہو جاتی ہے کہ مدن زندہ ہے اور وہ کل عرس کے موقع پر گائے گا، اُڑتے اُڑتے یہ بات تمنا کے باپ تک پہنچتی ہے۔۔۔ وہ اپنے بندوں سے استفسار کرتا ہے کہ تم لوگوں نے مدن کو قتل کیا تھا یا اسے زندہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔؟ یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ کل مدن گائے گا۔۔۔ وہ بندے اسے یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے خود پچیس سال پہلے آپ کے حکم پر مدن کو گولی مار کر لاش نہر میں پھینک دی تھی۔ اب تک تو اس کی ہڈیاں بھی گل گئی ہوں گی۔

کھیل کا آخری منظر، فنکاروں کی ٹولی کی سربراہ اپنی ٹیم سے کہتی ہے کہ مدن  زندہ ہے، وہ آج گائے گا، میں نے خود پروگرام منیجر سے پوچھا ہے اور اس نے کھڑکی سے مجھے دکھایا بھی ہے، وہ مدن ہی  ہےاور وہ آج گائے گا۔۔۔ اس دوران گیت کا آغاز ہوتا ہے مدن پگڑی پہنے آہستہ آہستہ رقص کرتے ہوئے اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے اسے دیکھ کر فنکاروں کی ٹولی مسرت کا اظہار کرتی ہے، وہ ابھی اس کا رقص   حیرت سے دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ تمنا کا باپ بھی وہاں آجاتا ہے، اس دوران رقص کی تیز تھاپ سے مدن کی پگڑی اس کے سر سے نیچے گر جاتی ہے اور فنکاروں کی ٹولی یہ دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیتی ہے کہ مدن کے سراپے میں رقص کرتی ہوئی وہ عورت “تمنا” ہے جو اب “مدن” ہی کا روپ لیے ہوئے ہے۔

مدن اور تمنا ایک ہیں، ان کے درمیان کسی بھی قسم کی کوئی تفریق نہیں رہی، مدن تمنا ہے اور تمنا مدن ہے۔۔۔ مدن کے روپ کو یوں اپنی بیٹی میں سرایت کرتا ہوا، رقص کرتا ہوا بدن دیکھنا، تمنا کے باپ کے لیے ناگزیر ہے، وہ اپنے ہاتھ سے اسی لمحے تمنا کو گولی مار کر فرار ہو جاتا ہے۔

اس کھیل میں وقفے وقفے سے عظیم صوفی شعراء شاہ لطیف، سچل، سامی اور کبیر کے کلام سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے، ان شعراء کے صوفیانہ کلام اور فنکاروں کی متاثرکن پرفارمنس نے سماں باندھ دیا، اسٹیج پر لائٹنگ اور سیٹ ڈیزائننگ بھی عمدہ تھی جو شائقین کو مدتوں یاد رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر غور کیا جائے تو ہمارے سماج میں مذہبی بنیادوں پر کسی انسان سے تفریق کرنا یا اس سے نفرت و تعصب کا اظہار کرنا محض آج کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمارے سماج میں بہت گہری ہیں، اسی لیے اپنے اپنے زمانے کے مشہور صوفی شعراء اور بھگتوں نے اس نفرت و تعصب کے خاتمے کے لیے اپنی شاعری میں خصوصی طور پر مذہبی تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔۔۔ انسانوں کے درمیان ذات پات، رنگ و نسل، صنف اور مذہبی بنیادوں پر قائم رسم و رواج اور نظریات کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا ہے، ان انسانیت کش نظریات کے خلاف موئثر طور پر مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے اور اس راستے پر چلنے کے لیے کسی بھی قسم کی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ آج صدیوں بعد بھی ان کے کلام کی تاثیر پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں کو گرماتی ہے، ان کے دلوں میں لگے زنگ آلود تالوں کو کھول کر انہیں ایسی روشنی سے منور کرتی ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان صوفیا کے کلام کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں، انہیں پڑھیں، انہیں گائیں کہ اسی سے زندگی کی خوبصورتی، اس کی معنویت ہمارے سامنے عیاں ہو گی!

Facebook Comments