موٹیویشنل سپیکنگ انڈسٹری کتنی فراڈ ہے؟(قسط 1)۔۔عارف انیس

موٹیویشنل سپیکنگ انڈسٹری پر گزرتے گزرتے تبصرہ کیا، مگر چھاجوں کے حساب سے فیڈ بیک برسا تو اندازہ ہوا کہ پبلک غصے میں ہے۔ ساتھ ہی بے شمار لوگوں نے رابطہ کیا جو اس انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں، مگر انہیں راستہ سجھائی نہیں دیتا، تو سوچا، اس پر جم کر لکھا جائے۔ کچھ دوستوں نے نصیحت کی کہ اپنے آپ کو چاند ماری کے لیے پیش نہ کیا جائے، مگر لگا کہ موضوع اتنا دھواں دھواں ہے کہ کھل کر بات کر ہی لی جائے۔

سب سے پہلے تو یہ نام بذات خود غلط العام ہے۔ یہ موٹیویشنل سپیکنگ نہیں، سپیکنگ انڈسٹری ہے۔ موٹیویشن اس کا ایک چھوٹا سائنس جزو ہے۔ بنیادی طور پر اسے حکمت یا وزڈم کی انڈسٹری سمجھ لیجیے اور یہ اکیسویں صدی کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ آپ کو سکندر اعظم کے اتالیق کے طور پر ارسطو کا انتخاب سمجھ میں آجائے گا۔ اکبر کے نورتن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں ۔ تقریر اس کا لازمی جزو نہیں ہے، مگر حکمت اس کا لازمی جزو ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے مشیر حکمت کے اسی ہتھیار سے لیس ہوتے تھے اور مرتبے پاتے تھے۔

صنعتی انقلاب آیا تو پہلی مرتبہ سرمایہ دارانہ نظام کے ابھرتے ہی ایک بڑی زد اس عقیدے پر پڑی جس کی رو سے کامیابی اور امارت ورثے میں حاصل ہوتے تھے۔ ایک دلچسپ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ 1900 کے شروع تک دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں میں سے 96 وہی تھے جو کہ خاندانی امیر تھے اور پچھلے سو، دو سو سال سے زمین، سونے اور وراثت کے زور پر امیر تھے۔ سیلف میڈ ملین ائیر ہونے کا تصور بعد میں مقبول ہوا۔ امریکہ  مواقع کی سرزمین بن کر اُبھرا۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر وہاں پہنچے اور مالامال ہوگئے۔ یہ ایک نئی دریافت تھی کہ کوئی بھی شخص اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے اور کروڑ پتی ہی نہیں، ارب پتی بھی بن سکتا ہے۔ پچاس برس پہلے جب بل گیٹس جیسے لوگ ارب پتی کلب میں نئے شامل ہوئے تو وہ ایک نئی بات تھی۔ اس وقت اس کلب میں صرف ٪20 پرانے لوگ رہ گئے ہیں اور ہر سال نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک بات صحیح ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے حکمت کو انڈسٹری کی شکل دی۔ تاہم پرانے زمانے میں بھی حکمت کے موتی برسانے والے کا منہ اشرفیوں سے بھرا جاتا تھا کہ حکمت ہر زمانے میں انمول رہی ہے۔

مغرب اور مشرق اس بارے میں مختلف سوچتے رہے ہیں۔ مشرق چونکہ زیادہ روحانی اور گہرا ہے تو ہمارے ہاں استاد اور شاگرد، پیر اور مرشد، گرو اور چیلے کا ایک پورا دبستان وجود رکھتا ہے۔ مغرب چونکہ روحانی طور پر اتھلا ہے اور لین دین پر یقین رکھتا ہے تو اس سلسلے میں زیادہ مضبوط روایات موجود نہیں ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ میں نئے کروڑ پتی ابھرنے لگے تو ڈیل کارنیگی پرسنل ڈیویلپمنٹ کے شو بوائے کے طور پر سامنے آیا اور اس کی کتابیں کروڑوں میں شائع ہوئیں۔ یوں سیلف ہیلپ کا یہ نیا تصور مقبول ہوا کہ آپ اپنی زندگی خود بنا سکتے ہیں اور اپنی قسمت خود لکھا سکتے ہیں۔ میں اس انڈسٹری کے ارتقاء پر اگلی قسط میں روشنی ڈالوں گا، فی الحال اپنے آپ کو سپیکنگ انڈسٹری کی مبادیات تک محدود رکھوں گا۔

1950 کی دہائی سے مغرب میں یہ تصور راسخ ہوا کہ کوئی بھی علم سیکھا جاسکتا ہے۔ اب سیکھنے کے لیے موزوں لوگوں کی جستجو ہوئی تو ماسٹر یعنی ایکسپرٹ کی بات ہوئی۔ جیسے جیسے سیکھنے کی دنیا میں انقلاب آیا، وہاں سکھانے والے کی مہارت کے حساب سے اس کا سکہ جمنے لگا۔ اگر نظریہ اضافت پر کچھ سیکھنا ہے تو سب سے بہترین شخص تو آئن سٹائن ہی ہوگا۔ لیکن اگر آئن سٹائن سے سیکھنا ہے تو پھر اسی حساب سے اس کے وقت کی قیمت دینی ہوگی، سو تب سے گرو یا ماسٹر لوگ جو دنیا میں اپنے میدان میں آپ مثال تھے، سونے میں تلنے لگے۔ نابغہ روزگار لوگ ایک وقت میں بولنے کا معاوضہ ہزار ڈالر سے شروع ہوئے اور اب ایک ملین ڈالرز سے زیادہ چارج کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک خبر ہوگی، کہ پرسنل ڈءویلپمنٹ انڈسٹری کا بین الاقوامی تخمینہ 2027-2020 میں 56 ارب ڈالرز سالانہ لگایا گیا ہے۔

بولنا، یعنی “کی نوٹ سپیکنگ” ، پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کا ایک حصہ ہے اور موٹیویشنل سپیکنگ تو بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔ اس فہرست میں آپ کو نوبل انعام یافتہ سائنسدان، دنیا کی بہترین کتابوں کے مصنف، ایتھلیٹ، کوچ، سپورٹس مین اور وومین، بزنس مین اور وومین، ہالی ووڈ کے سپر سٹار، کامیڈین، اقتصادی ماہرین، تاریخ نگار، ماہر قانون، صدور، وزرائے اعظم، جرنیل، سیاست دان سب ملیں گے۔ یہ سب لوگ موٹیویٹ نہیں کر رہے ہوتے کہ وہ تو اس کھیل کی ابتدا ہے۔ یہ اپنے اپنے شعبے میں سیکھی گئی حکمت کے خزانے لٹاتے ہیں اور منہ مانگوں دام پاتے ہیں۔

اب یہ گرو لوگ کتنے سونے میں تلتے ہیں؟ اللہ کے بے پناہ کرم سے مجھ جیسے ایک چرواہے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کے جنوں کے ساتھ سیکھا اور کام کیا۔ میں شاید واحد پاکستانی ہوں جو بین الاقوامی طور پر اس سرکٹ تک پہنچا ہے اور میں   بھی اس کا طالب علم ہوں۔ Success Resources، پرسنل ڈویلپمنٹ میں سپیکنگ کے میدان میں دنیا کی سب بڑی کمپنی ہے، اور اس کے چیف ایگزیکٹو میرے دوستوں میں سے ہیں، یہ پانچ براعظموں میں، کورونا وائرس سے پہلے تین کروڑ افراد کو ہر سال اپنے پروگراموں میں شامل کرتے ہیں۔ جو معلومات میں آپ کے ساتھ ابھی شیئر کر رہا ہوں وہ بہت سوں کے لیے چشم کشا ہوں گی۔

میں لندن میں خود بل کلنٹن کے ایونٹ کے منتظمین اور سپیکرز میں شامل ہوا جس میں 7000 سے زائد دنیا کے 56 ملکوں سے چیف ایگزیکٹوز نے شمولیت کی تو بل کلنٹن کو 6 گھنٹے کی موجودگی کے لیے ایک ملین ڈالرز ادا کیے گئے۔ 75 ہزار ڈالرز، جہاز چارٹر کرنے کے اور دو دن کے قیام کے لیے دیے گئے۔ صرف سیکورٹی کا خرچ بیس ہزار ڈالرز تھا۔ میں شاہد ہوں کہ 2013 میں موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خطاب کے لیے تب تین گھنٹوں کے لیے 5 لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے۔ میں انہی دنوں صدر پرویز مشرف کے ایک کنٹریکٹ کا شاہد ہوں جس کے لیے انہیں ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری کے کچھ ستونوں کو میں نے خود ہائر کیا۔ ٹونی بیوزان کو پاکستان آنے کے لئے ایک کروڑ ادا کیا گیا، اسی طرح جیک کینفیلڈ اور برائن ٹریسی کولندن کے لیے ڈیڑھ، ڈیڑھ کروڑ دو دنوں میں ادا کیے گئے۔ دیپک چوپڑا کا خرچ تین کروڑ روزانہ ہے۔ اور ہاں، پچھلے تین برسوں میں بہت سے لوگوں نے ٹونی رابنز کے بارے میں پوچھا کہ اسے پاکستان لے کر آتے ہیں۔ میں چونکہ رابنز کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں، جب بتایا کہ رابنز کا تین دن کا سفر اور سپیکنگ کا خرچہ پچیس کروڑ بنتا ہے تو اچھے خاصے لوگوں کا تراہ نکل گیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ رابنز کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانے کا خرچہ پانچ سے دس لاکھ روپے ہے۔ میں عمران خان کے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کے کنٹریکٹ کا شاہد ہوں جو پانچ سال پہلے سائن کیا گیا تھا۔ رابنز خان سے دس گنا زیادہ مہنگا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو ابن عربی روحانیت پر بات کرنے، ماریہ شاراپووا ٹینس اور زندگی پر بات کرنے کے لیے، اور آل پاچینو یا امیتابھ بچبن اداکاری اور زندگی پر بات کرنے کے لیے مل سکیں تو آپ کتنا کچھ لٹانے کے لیے تیار ہوجائیں گے؟

اب آپ ہکا بکا سوچتے ہوں گے کہ مغرب میں رابنز جیسے لوگوں کو اتنی رقم دینے کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اپنے پلے سے یہ پیسے خرچ کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ زندگی کے اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لئے بہترین سے سیکھنا ہے۔ وہ فاقے کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں، مگر اپنے سیکھنے کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً ٹونی رابنز کی کمپنی نے مجھے اگست میں کہا کہ میں پاکستان میں اس مہینے اکتوبر 25-22 کے ہونے والے ورچوئل پروگرام کو مارکیٹ کروں، مگر میں نےہاتھ کھڑے کر دیے۔ کیونکہ پاکستانی روپوں میں اس کی فیس 65 ہزار سے شروع ہوتے ہوئے پانچ لاکھ تک پہنچتی ہے اور میں کم ازکم پاکستان میں اکا دکا کے علاوہ ایسے لوگوں کے وجود سے آگاہ نہیں ہوں جو اپنے اوپر اتنے پیسے لگانے کو  تیار ہوں، ویسے بھی ہمیں سب کچھ آتا ہے۔ پاکستان میں کارپوریٹ ٹریننگ کا دور دورہ ہے جس میں جمائیاں لیتے ہوئے خواتین وحضرات لنچ اور ٹی بریک کے انتظار میں موبائل سے کھیلتے ہوئے، کمپنی کے خرچ پر اپنا دن گزارتے ہیں۔ ہم کپڑوں، جوتوں اور کھانے پر یہ پیسے لگا سکتے ہیں، مگر سیکھنے کے لیے کیوں؟ آپ میں سے کتنے پڑھنے والوں نے آج تک 10 ہزار سے زائد رقم اپنی پرسنل ڈیویلپمنٹ پر خرچ کی بے؟ ضرور بتائیے گا۔ ٹونی رابنز کی ٹریننگ صبح 6 بجے سے لے کر رات 2 بجے تک چلتی ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ پچھلے سال لندن میں ایک چھت کے نیچے اس کے پروگرام میں کتنے لوگ تھے تو جواب ہے، صرف پندرہ ہزار۔ 22 اکتوبر کے ورچوئل پروگرام کے بیس ہزار سے زائد ٹکٹ بک چکے ہیں۔ ہے کوئی مائی کا لال جو یہ ٹکٹ خریدے؟؟

پاکستان میں یہ انڈسٹری، گزشتہ بیس برس میں ٹیکنالوجی کے انقلاب اور واٹس ایپ کی برکت سے پتھر کے دور سے براہ راست فائیو جی میں داخل ہوئی ہے، جس کے اپنے اپنے چیلنجز ہیں۔ کوئی بیس برس پہلے جب میں نے اور پاکستان کے نامور سپیکر قیصر عباس نے “ٹک ٹک ڈالر” اور “شاباش تم کرسکتے ہو” مل کر لکھی تھیں توتب وہ اردو میں شائع ہونے والی ابتدائی کتابوں میں سے تھیں۔ محترم قاسم علی شاہ کو اس وجہ سے میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ سیکھنے سکھانے کے اس سلسلے کو “معلیٰ” سے “محلے” میں لے آئے اور سیلف ہیلپ کے محدود دروازے کو لامحدود میں کھول دیا اور عوام الناس کو “ٹوٹوں” سے ہٹا کر” حکمت” کو شیئر کرنے پر لگا دیا۔ پاکستان میں مالی امکانات کے حوالے سے میں، قیصر عباس کو، اپنے آپ کو، قاسم علی شاہ، جاوید چوہدری کو اور چند اور نامور دوستوں کو جانتا ہوں جنہیں چند گھنٹوں کا چھ یا سات ہندسوں میں معاوضہ ملتا ہے، لیکن ایسے لوگ آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی یہ انڈسٹری اپنے بچپنے میں ہے اور بدقسمتی سے یہیں سے موت کے منہ میں جانے کا اندیشہ بھی ہے ۔ پاکستان کی پرسنل ڈویلپمنٹ انڈسٹری کے “شائقین” میں ٪90 لوگ مفتے ہیں، جو صرف یو ٹیوب پر ایسی گفتگو مفت میں دیکھتے ہیں، مگر پھر بھی ان کے گلے ختم نہیں ہوتے۔ میں نے تو کھل کر پوچھا کہ آج تک کسی کو موٹیویشنل سپیکرز نے کیا نقصان پہنچایا، لیکن ابھی تک جواب کے انتظار میں ہوں۔ اللہ کے کرم سے ڈبل شاہ تو ہمارے ہر قصبے میں پائے جاتے ہیں، جاننا چاہتا ہوں کہ ایسے کتنے لکھنے اور بولنے والے ہیں جنہوں نے آپ کا راستہ کھوٹا کیاہے اور گمراہ کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کی پرسنل ڈویلپمنٹ اور سپیکنگ انڈسٹری کہاں پر کھڑی ہے؟ اس کی کیا محدودات ہیں اور کیا امکانات ہیں؟ یہ انڈسٹری کیسے مراحل سے گزری اور اس کے معمار کون ہیں؟ کیا سپیکنگ انڈسٹری ہر ایک کے لیے ہے؟ اس میں کامیابی کا کیا فارمولہ ہے اور آپ کیسے اس میں شامل ہوسکتے ہیں، اس پر اگلی قسط میں بات ہوگی۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply