رتھرفورڈ تجربے کر رہے تھے کہ ایٹم میں برقی چارج کس طرح پھیلا ہوا ہے۔ وہ چارج والے ذرات کو ایٹم پر فائر کر کے ان کے راستے میں ہونے والی تبدیلی دیکھنا چاہ رہے تھے اور اس کام کے لئے اپنے دریافت کردہ الفا پارٹیکل استعمال کر رہے تھے۔ (آج ہم انہیں ہیلئم کا نیوکلئیس کہتے ہیں)۔
اس وقت تک پروٹون اور نیوکلئیس دریافت نہیں ہوئے تھے۔ تھامسن کا پیشکردہ ماڈل یہ تھا کہ مثبت چارج ایٹم میں کسی سیال کی طرح پھیلا ہے اور اس میں ننھے منفی چارج والے الیکٹران گھومتے ہیں۔ رتھرفورڈ کا خیال تھا کہ بھاری مثبت چارج ان سے ٹکرا کر وہ معلوم کر سکیں گے کہ ایٹم کے اندر چارج کیسے پھیلا ہے۔
ٹارگٹ کے لئے سونے کا بہت باریک سا ورق تھا۔ اس کے پیچھے سکرین تھی اور جب فائر ہونے والے الفا پارٹیکل اس سے ٹکراتے تو بہت مدہم سا نشان چھوڑ دیتے اور اس سکرین کے آگے محدب عدسہ لئے یہ کچھ کوشش سے معلوم ہو جاتا کہ یہ پارٹیکل کہاں ٹکرائے اور ان کا زاویہ کس قدر تبدیل ہوا۔
رتھرفورڈ میں صبر کی کمی تھی۔ پیمائش کا بہت ہی صبرآزما کام ان کے اسسٹنٹ ہانس گائیگر کر رہے تھے۔ (جو اپنی بعد میں کی گئی ایجاد گائیگر کاونٹر کی وجہ سے مشہور ہوئے)۔
رتھرفورڈ کو توقع تھی کہ زیادہ تر الفا پارٹیکل سیدھے گزر جائیں گے۔ لیکن چند ایک معمولی سا خم لیں گے اور اس کی وجہ مثبت چارج ہو گی۔ یہ وہ تجربہ تھا جس نے ایٹم کا سٹرکچر آشکار کیا لیکن اس کی وجہ قسمت تھی۔ یہ اس طرح سے نہیں ہوا، جیسا انہوں نے سوچا تھا۔
گائیگر کا تمام ڈیٹا رتھرفورڈ کی توقع کے مطابق تھا۔ 1909 میں ایک روز گائیگر نے ایک “چھوٹا سا پراجیکٹ” تجویز کیا۔ یہ پراجیکٹ ارنسٹ مارڈسن کو دیا گیا جو نوجوان طالبعلم تھے۔ رتھرفورڈ کو ریاضی میں پرابیبلیٹی کی کلاس میں ایک خیال آیا تھا کہ ممکن ہے کہ تھوڑے سے پارٹیکل اس سے زیادہ خم لے رہے ہوں جتنا سکرین پر آ سکتا ہے۔ یہ وہ چھوٹا پراجیکٹ تھا جو مارڈسن کو دیا گیا کہ وہ اس کو چیک کر لیں۔
اگر بڑی ڈیفلیکشن مل جاتی تو یہ رتھرفوڈ کے تصور کردہ ایٹم کے سٹرکچر کی خلاف ورزی ہونا تھی۔ رتھرفورڈ کو کوئی امید نہیں تھی کہ انہیں ایسا کچھ بھی ملے گا اور اس میں بڑا وقت ضائع ہونا تھا۔ اور ایسا بے کار سا، وقت ضائع کرنے والا پراجیکٹ ایک انڈرگریجویٹ سٹوڈنٹ کے لئے ٹھیک تھا۔
مارڈسن نے ایک کے بعد دوسرے الفا پارٹیکل کو اس ورق سے گزرتے دیکھا لیکن کوئی ڈرامائی ڈیفلیکشن نہیں تھی اور پھر ایک ناقابلِ تصور چیز ہو گئی۔ ہزاروں الفا پارٹیکل ویسے ہی گزرے جیسے پچھلے تجربات میں ہوا تھا لیکن چند ایک بڑے زاویوں پر ڈیفلیکٹ ہو گئے۔ اور ایک دو واپس آ گئے! یہ مشاہدہ کافی تھا۔
اس کو سن کر رتھرفورڈ نے کہا، “یہ میری زندگی کا سب سے ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔ یہ ایسا تھا جیسے آپ ٹشو پیپر کو گولی ماریں اور یہ اس سے ٹکرا کر واپس آ کر آپ کو ہی لگ جائے”۔ ان کی ریاضی انہیں بتاتی تھی کہ کوئی بہت ہی چھوٹی اور طاقتور شے اس سونے کے ورق میں ہے جو یہ کر رہی ہے۔ انہوں نے دریافت کر لیا تھا کہ تھامسن کا ماڈل غلط ہے۔
مارسڈن کے تجربے کو بہت سراہا گیا اور اگر یہ وہ نتائج نہ دیتا جو اس نے دئے تو یہ ایک بے کار وقت کا ضیاع ہوتا۔ لیکن اگر یہ نہ ہوتا تو اس کے بغیر بوہر کا ایٹم کا ماڈل نہ ہوتا۔ یعنی ایک اچھی کوانٹم تھیوری کو کم از کم بھی کئی برسوں کا انتظار کرنا پڑتا (اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ بالآخر آ بھی جاتی)۔ یہ نہ ہوتا تو اس کے بغیر نئی ٹیکنالوجی کو انتظار کرنا پڑتا۔ ایٹم بم کو بھی اور یہ ہتھیار کم از کم جاپان پر استعمال نہ ہو سکتا۔ ٹرانسسٹر کی ایجاد کو انتظار کرنا پڑتا۔ کمپیوٹر کا دور موخر ہو جاتا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بے معنی لگنے والے انڈرگریجویٹ کے کئے گئے تجربے کے بغیر آج کی دنیا بہت مختلف ہوتی۔ اور یہاں پر ایک بار پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کسی خبطی کے عجیب پراجیکٹ اور ایک اچھوتے خیال جو سب کچھ بدل دے ۔۔۔۔ ان میں بہت باریک حدِ فاصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رتھرفورڈ نے بہت سے تجربات کئے جس میں مارڈسن اور گائیگر نے مشاہدات سے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اس ڈیٹا سے ایٹم کے سٹرکچر کی تھیوری بنی۔ اس میں مثبت چارج ایٹم کے مرکز میں تھا۔ بعد میں یورپ میں سیاست بدلی۔ ان تجربات میں ایک ٹیم میں کام کرنے والے مارڈسن اور گائیگر نے الگ راہیں لیں۔ پہلی جنگِ عظیم میں دونوں مخالف اطراف کی سائیڈ پر تھے اور دوسری میں بھی۔ مارڈسن راڈار بنانے پر کام کر رہے تھے جبکہ گائیگر نازیوں کے لئے جرمن ایٹم بم پر۔
رتھرفورڈ کا ماڈل آپ سکول میں پڑھتے ہیں۔ اور یہ ایک شاندار کامیابی ہے۔ اس کی سادہ ڈایاگرام اس تمام عمل کی پیچیدگی چھپا دیتی ہے جو اس تک پہنچنے میں کی گئی تھی۔ رتھرفورڈ نے دریافت کیا تھا کہ ایٹم کا تقریباً تمام ماس اس کے مرکز میں ہوتا ہے جس کو انہوں نے نیوکلئیس کا نام دیا۔ اگر اس میٹیریل کی ایک پیالی ہمارے پاس ہو تو اس کا وزن ماونٹ ایورسٹ سے سو گنا زیادہ ہو گا۔ میرا اور آپ کا وزن اس کے قریب قریب بھی کیوں نہیں؟ اس لئے کہ یہ نیوکلئیس ایٹم کے مرکز میں بہت بہت اور بہت ہی چھوٹا نقطہ ہے۔ باقی ایٹم خالی ہے۔
رتھرفورڈ نے بہت پیچیدہ ٹیکنیکل ریاضی سے یہ تصویر بنائی تھی۔ اور یہ مشاہدات کے ڈیٹا کی وضاحت کرتی تھی۔ اس مرکزے کے قریب سے گزرنے والے الفا پارٹیکلز کو زبردست فورس فیلڈ کا سامنا کرنا پڑتا تھا جو ان کے زاویے کی وجہ تھی۔ یہ مضبوط فورس فیلڈ رتھرفورڈ کو سائنس فکشن لگے ہوں گے۔ لیکن یہ ایٹم میں موجود تھے۔
رتھرفورڈ کے ماڈل کا اہم نکتہ یہ تھا کہ مثبت چارج مرکز میں مرکوز ہے۔ ان کی بنائی گئی الیکٹران کے ان کے گرد سیاروں کی مانند گھومنے والی تصویر غلط تھی اور وہ خود اس بارے میں جانتے تھے۔
نظامِ شمسی کے سیاروں کے درمیان آپس میں ہونے والی انٹرایکشن نظرانداز اس لئے کی جا سکتی ہے کہ گریویٹی کمزور قوت ہے۔ الیکٹران میں ایسا نہیں اور آپس میں دفع کی قوت ان کو مداروں میں نہیں رہنے دیتی۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سیارے گردش کرتے وقت گریویٹیشنل توانائی خارج کرتے ہیں جبکہ الیکٹران الیکٹرومیگنیٹک انرجی۔ چونکہ گریویٹی اتنی کمزور ہے، اس لئے یہ سیاروں میں ناقابلِ ذکر ہے اور اربوں سال میں توانائی کا محض چند فیصد ہی ضائع کرتے ہیں (اس کا آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی سے معلوم ہوا)۔ جبکہ دوسری طرف الیکٹرومیگنیکٹ فورس اتنی طاقتور ہے کہ رتھرفورڈ کے ماڈل کے مطابق انہیں ایک سیکنڈ کے بعد بہت چھوٹے وقت میں مرکزے میں گر جانا چاہیے تھا۔ یا دوسرے الفاظ میں، اگر رتھرفورڈ کا ماڈل درست ہوتا تو کائنات میں کوئی شے موجود نہ ہوتی۔
اب کائنات تو موجود ہے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ رتھرفورڈ کا ماڈل درست نہیں اور یہ ہمیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر کوئی تھیوری کچھ ایسی پیشگوئی کرے جو غلط ہو تو کیا اسے سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے؟ یہ سائنس میں پراگریس کے اہم نکتے کو بتاتا ہے۔ زیادہ تر سائنسی تھیوریاں کسی خاص صورتحال کے لئے بنائے گئے خاص ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر کسی میں کوئی کمی ہو اور معلوم ہو بھی کہ یہ کچھ صورتحال میں وضاحت نہیں کرتی، یہ پھر بھی مفید ہو سکتی ہیں۔
رتھرفورڈ کا ماڈل نیوکلئیس کی پیشگوئی بالکل درست کرتا تھا۔ اور یہ فرض کرتا تھا کہ اس ماڈل کو آئندہ ہونے والے تجربات بہتر کر دیں گے اور بتا دیں گے کہ آخر ایٹم مستحکم کیوں ہے۔ جو واضح نہیں تھا، وہ یہ کہ ایسی وضاحت جب آئے گی تو یہ معمولی تصصیح نہیں بلکہ ایک بڑی انقلابی تبدیلی ہو گی۔ یہ وضاحت رتھرفورڈ کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان بوہر کی طرف سے آنی تھی۔ بوہر ایٹم کے اس ماڈل کو ایک بھوسے کے ڈھیر کے طور پر دیکھ رہے تھے جس میں کہیں ایک سوئی چھپی ہوئی تھی۔ اور وہ اس کو ڈھونڈ لینے کا عزم رکھتے تھے۔
نہ ہی رتھرفورڈ کو، نہ ہی بوہر کو اور نہ ہی کسی اور کو اندازہ تھا کہ جس دروازے پر بوہر دستک دے رہے تھے، اس کے پیچھے فطرت کا گہرا ترین اسرار چھپا تھا۔ بھوسے کے ڈھیر میں چھپی سوئی انمول تھی۔ یہ نئی دنیا کی کنجی تھی۔
(جاری ہے)
Facebook Comments