روٹی کو عزت دو۔۔سلیم مرزا

پنڈت جواہر لال نہرو ایک دن بالکل ویہلے تھے، اندرا گاندھی تیار شیار ہوکے پاس سے گذریں، تو آواز دیکر بٹھالیا ۔اور کہنے لگے “مرن جوگیے ،تجھے ایک نصیحت کرنا تھی ”
اندرا کہنے لگی “حکم کریں پتا جی ”
پنڈت جی کہنے لگے “سپتری ،اگر ہندوستان کی جنتا پہ ہمیشہ حکومت کرنی ہے تو تین چیزیں کبھی مہنگی نہ ہونے دینا ” سائیکل، فلم اور شراب ”
اندرا کہنے لگی “آپ کی ھر بات بدھی اور سیاست کا ملن ہوتی ہے ۔پوچھنا تو نہیں چاہیے، پھر بھی اگر وضاحت ہوجاتی تو کرپا ہوتی ”
پنڈت جی کہنے لگے، سائیکل والا خود کو ہمیشہ گاڑی والا سمجھتا ہے اسے کبھی بھی کار والے سیٹھوں سے نفرت محسوس نہیں ہوتی ۔اس سے معاشرہ صحتمند اور معاشی طور پہ مضبوط رہتا ہے ۔
فلم ۔۔۔خوابوں کی دنیا ہے ۔تین گھنٹے اس خواب نگری میں گذار کر غریب سمجھتا ہے کہ کسی دن ہیرو کی طرح اس کے بھی دن پھر جائیں گے اور کسی سیٹھ کی بیٹی اس پہ فدا ہو جائے گی ۔
پھر بھی اگر اس کی واجبی تعلیم اور ناکافی آمدنی سے اس کو اپنے معاشی استحصال کا خیال آہی جائے تو سستی شراب سے مت مار کر ماش کی دال کو تندوری چکن ،ثمینہ کو کترینہ سمجھ کر سوجاتا ہے ۔
اور اگلے دن پھر کولہو کا بیل تیار ہوتا ہے ۔
موجودہ دور میں سائیکل کی جگہ موٹر سائکل نے لے لی ہے ۔کبھی آپ سڑک پہ موٹر سائیکل سواروں کی اکڑ دیکھیں ۔؟
اندازہ ہوجائے گا ۔کہ وہ اپنی قسطوں کی سیونٹی کو بھی سوک سمجھ رہا ہوتا ہے ۔
فلم کی جگہ پانچ چھ انچ کی اسکرین ہر ہاتھ میں ہے ۔
اب سارے من چاہے خواب ایک کلک پہ دستیاب ہیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی
فیس بک پہ چمکتے چہرے اور قابل رسائی انبکس ۔
خواب ہی خواب ۔تعبیر کہیں نہیں ۔
شراب اس ملک میں ملتی نہیں اور جس قیمت پہ ملتی ہے ۔وہ قیمت ہی کلاس کا فرق سمجھا دیتی ہے ۔
چنانچہ
گوجرانوالہ والوں کا ان میں سے کوئی مسئلہ نہیں ۔
گوجرانوالہ کا ایک نارمل ریائشی بھی ایک سو پچیس سی سی کے موٹر سائیکل کیلئے امتحان ہے ۔ہُنڈا سیونٹی کے سوار پہ تو سیدھا ”  مکینیکل ابیوز ” کا کیس بنتا ہے ۔
۔فلموں کے وہ شوقین نہیں، اسٹیج ڈراموں کے شوقین تھے مگر جب سے اسٹیج پہ ننگے ڈانس پہ پہ پابندی لگی وہ اسٹیج بھی نہیں دیکھتے ۔مشرف دور میں آخری کیبرے سیالکوٹی دروازے کے ایک سینما ہال میں دیکھا تھا
شراب اس شہر کی کبھی ہرابلم نہیں  رہی ۔
وہ لسی سے ہی اتنی مت مار لیتے ہیں جتنی جیک ڈینئل کی پوری بوتل نہیں مار سکتی ۔
بیچاروں کا لے دے کے ایک ہی شوق ہے ۔کھانا اور بار بار کھانا ۔اسی لئے گوجرانوالہ میں اسی فیصد مردانہ پیٹ جائز، تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں ۔
یہاں دال چاول کو کھانے کیلئے نہیں محض اشتہا بڑھانے کیلئے کھایا جاتا اور اکثر دال چاول والے لنچ اور ڈنر کے درمیانی وقفے میں ہی دستیاب ہوتے ہیں ۔
ان کا دکھ میں بھی پیٹ بھرتا ہے اور خوشی میں تو سبھی کا بڑھتا ہے ۔
آل پہلے ہم آلو گوشت میں آلو کے آٹھ ٹکڑے کرکے پکاتے تھے ۔اور گوشت کی چھٹانک چھٹانک کی بوٹی کرواتے تھے ۔
پھر آغا سہیل نے بتایا کہ یہ نرا وقت کا ضیاء ہے ۔
اب ثابت آلو اور پاؤ بھر کی بوٹی سے پتہ چلتا ہے کہ پلیٹ میں اور پیٹ میں کچھ ہے ۔
گوجرانوالہ پیٹ کیلئے پیٹ کے سہارے پیٹ کے بل چلتا پھرتا کھاتا اور جیتا ہے ۔
موجودہ حکومت نے چونکہ سیدھا ان کے پیٹ ہہ ہی ہاتھ ڈال دیا ۔یہ کیسے گوارا کرتے ۔
وہ معدے سے سوچتے ہیں اور اکھاڑے میں معاملات نبٹاتے ہیں ۔لہذا اب احتجاج کیلئے بھی اکھاڑہ ہی چنا ہے ۔پہلے سمجھ لینا چاہیئے تھا کہ یہ پیٹ کے ہلکے نہیں ہیں کہ رو پیٹ کر چپ ہوجائیں ۔
یہ حلق میں ہاتھ ڈال کر رزلٹ لیتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply