بیانیہ نہیں بکے گا۔۔سعید چیمہ

مرزا غالب یاد آئے، شہرہ آفاق شاعر، ایک عرصے تک زمانہ جن کے سحر میں مبتلا رہا، اور اب بھی ہے

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

ماضی کی بنیادوں پر حال میں مستقبل کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے،جن کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہوں وہ عمارت کیسے تعمیر کریں گے، اگر کوئی تعمیر کی کوشش بھی کرے گا تو اس عمارت کو ڈھانے کے لیے فقط ہوا کا ایک جھونکا کافی ہو گا، اپوزیشن کا بیانیہ ایسا نہیں کہ وہ اپنے بیانیے کی بنیاد پر کوئی عالی شان عمارت کھڑی کر سکیں، ایسی عمارت جو اقتدار کے ایوانوں کو خیرہ کر سکے، اپوزیشن اپنی ساری توجہ جلسوں پہ مرکوز رکھے گی، جلسوں سے کیا ہو گا، شاید کورونا کی چنگاری دوبارہ سلگ اٹھے، ایک سوال بار بار درِ دل پر دستک دیتا ہے کہ اگر وزیراعظم نے بھی اپوزیشن کے مقابلے میں جلسے شروع کر دئیے تو پھر کیا ہو گا؟۔۔

مخالفین بھی کچے پکے دل کے ساتھ مانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے جلسوں میں عوام کے سروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، لیکن وزیراعظم کے جلسوں کی کیا تُک ہو گی، شاید وہی جو ماضی کے وزیراعظموں کی ہوتی تھی، سابقہ دورِ حکومت میں نواز شریف بھی تو جلسوں کے گھوڑے پر سوار ہوئے تھے، یہ الگ بات کہ گھوڑا ہی بدک گیا، ایک نقطے پر غور کیا جائے کہ اپوزیشن اگر بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہو گا، کیا حکومت کمزور ہو جائے گی، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیا وزیراعظم ایک ہی میز پر مخالف سمت میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں گے، دور دور تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے، کیا پنڈی بوائز حکومت کی پشت سے اپنا ہاتھ ہٹا لیں گے، قطعاً ایسا ممکن نہیں، تو پھر سوال یہ ہے اپوزیشن کو جلسے منقعد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جواب خود ڈھونڈئیے، یہاں کچھ اور مدعا بیان کرنا مقصود ہے، مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والی عوام صرف ایک وجہ کی بنیاد پر جلسے میں شریک ہو گی، اور وہ وجہ مہنگائی ہے، مگر مہنگائی تو اپوزیشن کے لیے ثانوی مسئلہ ہے، آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب “ابوالکلام آزاد” میں راقمطراز ہیں کہ مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی صدیوں سے یہ حالت ہے کہ آندھی کی طرح اٹھتے، طوفان کی طرح چھا جاتے اور گرد کی طرح بیٹھ جاتے ہیں، مولانا آزاد کے یہ الفاظ اپوزیشن پر خوب فٹ بیٹھتے ہیں، اپوزیشن کی صفوں میں کوئی بھی مردِ حر ایسا نہیں جو اٹھنے والے طوفان کو برقرار رکھ سکے، لاہور کی مسلم لیگ سے ہوتے ہوئے سرحد کی جمیعت علمائے اسلام تک اور وہاں سے سندھ کی پیپلز پارٹی تک کوئی بھی رہنما ایسا نہیں جو ڈھنگ کی تقریر پر قادر ہو،  ذخیرہ الفاظ جس کا شاندار ہو،  جو بولے تو منہ سے پھول جھڑیں، طبیعت میں عجب قسم کا بوجھل پن عود کر آتا ہے جب ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپوزیشن کی تقریر سننے کے لیے کان کھڑے کیے جائیں، کسی بھی تحریک کا روح، رواں ایک شخص ہوتا ہے، تحریکِ آزادی کی جان قائدِ اعظم تھے، ایوب خان کے خلاف تحریک میں سپہ سالاری کا تاج بھٹو کے سر پر تھا، نواز شریف کے خلاف عمران خان برسرِ پیکار تھے، لیکن آج اپوزیشن کی تحریک کا روحِ رواں کون ہے، بہت دیر غور و خوض کرنے کے بعد جواب یہی ہے کہ کوئی بھی نہیں، لیڈروں کی شخصیات اگر کرشماتی نہ ہوں تو عوام کی توجہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی،  اپوزیشن کی شخصیات اگر کرشماتی نہیں بھی تو کم از کم بیانیہ تو ایسا ہوتا  کہ عوام زیادہ دیر متوجہ رہتے، فِدوی کی نظر میں اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کا صدر بنا کر اپنی تحریک کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے، اپوزیشن کا بیانیہ ایسا نہیں کہ عوام کے بازار میں جو فروخت ہو سکے، عوام کے مسائل کچھ اور ہیں، جن سے اپوزیشن کو کوئی سرو کار نہیں، یار لوگ نعرہ مستانہ بلند کرہے ہیں کہ اپوزیشن کے جلسوں سے حکومتی ایوان لرز اٹھیں گے، وزرا کی فوج نیند سے محروم ہو جائے گی، وزیراعظم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے، مگر پھونکوں سے سورج کب بے نور ہوتا ہے، وزیراعظم کو اقتدرا کی مسند سے اتارنے کے لیے ان کے مدِ مقابل کوئی ایسا شخص ہو جو ان کو شکستِ فاش سے دوچار کر سکے، شکست اگر نہ بھی دے سکے تو کم از کم گھمسان کا رن تو پڑے،  مگر اپوزیشن کی صفوں میں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں جو عمران خان کا مقابلہ کر سکے، حیران کن طور پر جن کے خلاف تحریک چلائی جا رہی ہے ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے، اور تحریک چلانے چلانے والوں کے دامن پر چھینٹے ہیں، تحریک چلانے والے خوب جانتے ہیں کہ ہمارے دل میں سیاہی ہے۔

تمھاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہء سیاہ میں تھی

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ہی بات وزیراعظم کے لیے حسن کہلاتی ہے جب کہ اپوزیشن کے لیے وہ بات سیاہی ہوتی ہے، کہیں نہ کہیں تو کچھ نہ کچھ تو غلط ہے بابا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply