نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ (قسط 4)۔۔محمد شاہزیب صدیقی

مریخ اور زمین میں حیران کن حد تک یکسانیت موجود ہے ،جس وجہ سے ہمیں کبھی کبھار ایک خوشگوار ساوہم بھی ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ کبھی یہ ہمارا مسکن رہا ہو۔ماضی کا مریخ ہر طرح کی زندگی کے لئے بالکل سازگار تھا لیکن وقت بہت ظالم ہوتا ہے ، اس نے اپنے بےرحم نقوش اس سیارےپر بھی چھوڑ دئیے، آج ہم جانتے ہیں کہ یہ سیارہ زندگی کو کسی طور بھی support نہیں کرسکتا بلکہ مریخی ماحول زندگی کا اس حد تک دشمن ہوچکاہے کہ بغیر اسپیس سوٹ کے انسان مریخ پر فقط 2 منٹ ہی زندہ رہ سکتا ہے۔مریخ کے سفر کے دوران مشکلات کا پہاڑ ہمارے سامنے ہوگا۔یہ مشکلات ایسی ہیں جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہیں، یعنی ان کا فوری حل ممکن نہیں ، جس وجہ سے ہمیں مریخ پر ایک مصنوعی دُنیا بسانی پڑے گی۔ آج کی قسط میں ہم انہی معاملات کو دیکھیں گے۔
دوستوں مریخ کے متعلق بات کرتے ہوئے جس چاہت کا اظہار ہماری طرف سے ہوتا ہے بدقسمتی سے مریخ کا مُوڈبالکل اس سے اُلٹ ہے۔ مریخ ہرگز ہمیں پھُولوں کا ہار لیے ویلکم نہیں کرے گا، بلکہ ہمیں وہاں پہنچ کر اِس پر لگے زخموں کو مرہم کرنا پڑے گا۔اس ضمن میں بہت سے مسائل ہمارے سامنے ہونگے۔
مریخ پر پہنچتے ساتھ ہی سب سے پہلا مسئلہ لینڈنگ کا درپیش ہوگا،چونکہ مریخ پر ہوا کی densityبہت کم ہے جس وجہ سے وہاں پر لینڈنگ کسی طرح بھی آسان نہیں ہوگی ،ہم جانتے ہیں کہ زمین کے فضائی کُرے میں جب کوئی جسم داخل ہوتا ہے تو ہوا کی density زیادہ ہونے کے باعث اسے کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس وجہ سے زمین پر گرتی شے کو پیراشوٹ اور دیگر طریقوں سے لینڈنگ کروانا آسان عمل ہوتا ہے مگر مریخ پر یہ سہولت میسر نہیں ہوگی لہٰذا سائنسدانوں کواسپیس کرافٹ میں لینڈنگ کے لئےبھی چھوٹے راکٹس یا تھرسٹرز لگانے پڑیں گے جو لینڈنگ کے دوران مریخ کی کشش ثقل کے مخالف قوت لگا کر اسپیس کرافٹ کو لینڈنگ میں معاونت فراہم کریں گے، یاد رہے انسانوں کے لئے لینڈنگ انتہائی پیچیدہ مرحلہ ہوگا اگر اُس موقع پر حادثہ رونما ہوگیا تو بھیانک قسم کے جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا، یہی وجہ ہے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ توجہ خلاء بازوں کو مریخ کی سطح پر باحفاظت اتارنے پہ دی جائے گی۔
مریخ کی جانب سفر کے دوران اگلا امتحان 9 ماہ تک کشش ثقل کی غیرموجودگی کا ہوگا،ہمیں معلوم ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر خلاء باز6ماہ گزار کر آتے ہیں تو اتنا عرصہ کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی ہڈیوں اور مسلز پر بُرے اثرات پڑتے دیکھے گئے ہیں، جس وجہ سے عالمی خلائی اسٹیشن سے لوٹنے والے خلاء بازوں کو کئی دنوں تک چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔اگر یہی کُلیہ مریخ کی جانب جانے والے مشنز پر اپلائی کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان مشنز کے دوران سفر 9 ماہ سے 4 سال تک طویل ہوسکتا ہے،اتنا عرصہ کشش ثقل کی عدم موجودگی میں رہنے کےبعد اچانک مریخ پر لینڈ کرنے سے خلابازوں کو مختلف قسم کے طبعی مسئلے مسائل کا سامنا رہے گا جن میں سب سے بڑا مسئلہ دل کی بیماریاں،ہڈیوں اور مسلز کا کمزور /ناکارہ ہوجانا ہے، ہڈیوں اور مسلز کا مسئلہ ایسا پیچیدہ ہےجس کا علاج فی الحال ممکن نہیں، اسی خاطر مریخ کی جانب مشنزکو خودکش (Suicidal) بھی کہا جاتا ہے،لیکن سائنسدان ایسی ادوایات پر کام کررہے ہیں جو آنے والے وقت میں مسلز اور ہڈیوں کو بحال کردیں گیں۔
ایمرجنسی situation سے نپٹنے کے لئے فی الحال انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر جانے والے خلاء باز اپنے ساتھ200 ٹیبلٹس لے کر جاتے ہیں، مریخ پر جانے والے انسانوں کے ساتھ کونسی ادوایات بھیجی جائیں ان کی لسٹ ترتیب دی جارہی ہے کیونکہ اگر کوئی بھی دوائی رہ گئی تو ایک ننھی سی گولی کو مریخ پر بھیجنے کا خرچہ اربوں ڈالر آئے گا۔ کشش ثقل کی عدم موجودگی سے نپٹنے کے لئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ مستقبل میں لمبے سفر کےلئے بنائے جانے والے خلائی جہازوں میں ایک حصہ ایسا بھی بنایا جائے گا جو ٹائر کی طرح گول ہو،اِس کو ہم ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ سائیکل کے ٹائر کو زور سے گھُمائیں تو اس کے باہر موجود مٹی اُڑ کر ٹائر سے الگ ہوجائے گی اورٹائر کے اندر کوئی چیز موجود ہوگی تو وہ اس دوران ٹائر کے ساتھ چپک جائے گی، بالکل اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اسپیس کرافٹ کے آگے یا پیچھے ایک بہت بڑا ٹائرنما حصہ ہوگا جو گول گھوم رہا ہوگا۔
اس کے گول گھومنے کی وجہ سے اُس حصے میں جو بھی جسم موجود ہوگا وہ اُس ٹائر کے ساتھ چپکا رہے گا یوں ہم ایک طریقے سے مصنوعی کشش ثقل بنا لیں گے جس وجہ سے ہڈیاں اور مسلز ناکارہ نہیں ہونگے۔اِس پُرخطر سفر میں یہ مشکل بھی سامنے ہوگی کہ خلاء میں اتنا طویل عرصہ ریڈیشنز میں رہنے کی وجہ سے خلاء بازوں میں کینسر ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں، سائنسدان ان مسائل کے حل کےلئے بھی کوششوں میں مصروف ہیں۔یہ حقیقت ہےکہ زندگی کے کھیل تماشے کو جاری رکھنے میں temperature کا کلیدی کردار ہے،زمین پر اب تک سب سے سرد علاقہ انٹارکٹکا ہے جدھر کم ترین درجہ حرارت منفی90ڈگری ریکارڈ کیا گیا ہےجبکہ مریخ پر درجہ حرارت منفی 150 ڈگری تک گر جاتاہے،لہٰذا وہاں پر پہنچنے والے مشنز کااتنی شدید ٹھنڈ سے لڑنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا،اس پر مزید ظلم یہ کہ مریخ پر مقناطیسی میدان موجودنہیں ہے جس وجہ سے وہاں پر سورج کی خطرناک radiationsہر وقت پڑتی رہتی ہیں لہٰذا مریخ کے باسیوں کو وہاں پہ ان ریڈیشنز سے بچاؤ کے لئے بھی اقدامات کرنے پڑیں گے ورنہ تمام مریخی انسان چند سالوں میں ہی کینسر کے باعث مر جائیں گے۔
مریخ پر ایک اور سنگین مسئلہ شہابِ ثاقب کی آمد ہے، شہابِ ثاقب خلاء میں ان دیوہیکل آوارہ پتھروں کو کہا جاتا ہے جو عموماً خلاء میں گھومتے پھرتے کسی بھی سیارے یا چاند پر گر جاتے ہیں، زمین پر بھی شہابِ ثاقب گرتے رہتے ہیں مگر چونکہ زمین کے گرد فضائی تہہ موٹی ہے جس وجہ سے یہ پتھر زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی جل کر خاک ہوجاتے ہیں۔
مریخ کے گرد فضائی تہہ انتہائی کمزور ہے لہٰذازیادہ تر پتھر اس کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں اور تباہی مچاتے ہیں، سو اگر آپ مریخ پر جاکر آباد ہوتے ہیں تو ہر وقت یہ ڈر موجود رہے گا کہ آسمان کے کسی بھی حصے سے کسی بھی وقت کوئی بھی شہابِ ثاقب آکےآپ کے بیس کیمپ پر “خودکش حملہ” کرسکتا ہے، بیس کیمپ کے تباہ ہونے کا مطلب ہے کہ بیچ سمندر میں کشتیاں جل چکی ہیں اور کچھ ہی دیر میں موت آپ کو اپنی آغوش میں لے لے گی، لہٰذا سائنسدانوں نے ان مسائل کا یہ حل تجویز کیا کہ چونکہ مریخ پر مختلف جگہوں پر ہولز اور غاریں موجود ہیں(جن کا ذکر ہم نے اس سیریز کی پہلی قسط میں کیا تھا)، لہٰذا اب ہماری کوشش ہوگی کہ جو بھی انسانی مشن مریخ پر اترے وہ ان غاروں کے آس پاس ہی لینڈ کرےاور سب سے پہلے ان غاروں کو اپنا مسکن بنائے ،یعنی انسان مریخ پر اپنی ابتداء stone-age سے کرے گا لیکن یہ پتھروں کا دور،زمین والے پتھروں کے دور سے تھوڑا جدید ہوگا،ان غاروں میں رہنے سے جہاں انسانوں کی شہابِ ثاقب سے حفاظت ہوگی وہیں پر ان غاروں میں حدت (گرمائش)بھی موجود ہوگی کیونکہ مریخ کی سطح کے نیچے لاوا موجود ہے جس وجہ سے یہاں پر جان لیوا ٹھنڈنہیں ہوگی، ان غاروں/ہولز میں رہنے کے باعث سورج سے آنے والی خطرناک ریڈیشنز سے مریخی انسان محفوظ رہے گا۔ان فائدوں کے پیشِ نظرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا پہلا پڑاؤ یہی غاریں ہونگیں جنہیں lava tubesبھی کہا جاتا ہے،یہ بھی اندازہ ہے کہ ان غاروں میں پانی بھی مائع حالت میں میسر ہوسکتا ہے۔
انسان اب ایک سیارے سے بڑھ کر کئی سیاروں کی مخلوق بننے کی جانب سفر کررہا ہے ، اس ضمن میں یہ کالونیاں پہلیstage ہوگی جس میں انسان اپنے بنائے ہوئے بیس کیمپس اور غاروں میں رہائش اختیار کرے گا۔اسے ہمcolonization of mars بھی کہہ سکتے ہیں،اس اسٹیج پر اپنے base camps سے باہر نکلتے ہوئے ہمیں اسپیس سوٹ پہننا پڑے گا، امید کی جارہی ہے کہ آنے والے 50 سالوں میں ہم مریخ پر ایک اچھی کالونی قائم کرلیں گے۔colonizationکے شروع میں مریخ کی جانب گروپس کی شکل میں دنیا کے ذہین ترین افراد بھیجے جائیں گے، جو وہاں جاکر اِن سائنسی تحقیقات کو عملی جامہ پہنائیں گےجن کا خواب آج ہم زمین پر بیٹھے دیکھ رہے ہیں، اس ضمن میں Mars One نامی کمپنی اگلے دس سالوں میں چند انسانوں کو مریخ پر بھجوائے گی، Space X نے 2024ء تک 4انسانوں پر مشتمل پہلے گروپ کو مریخ پر بھیجنے کا اعلان کررکھاہے ،یہ گروپ مریخ پر قدم رکھنے والا پہلا انسانی گروہ ہوگا۔مریخ پر ڈیرے ڈالنے والے ان “ملنگوں” کو اپنی ساری زندگی مریخ پر خلائی سوٹ پہن کر اور بیس کیمپس میں رہ کر گزارنی پڑے گی۔چونکہ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے،لہٰذا اکیلے پن،آس پاس ویرانی اور دُور دُور تک صحرا ہونے کےباعث مریخ پر پہنچنے والے اولین انسان شدید ذہنی خلفشار کا بھی شکار ہوسکتے ہیں، جس کے لئے ان کے بیس کیمپس میں پودے اگائے جائیں گے جو انہیں آکسیجن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ زمین جیسا ماحول بھی فراہم کریں گے، 2010ء میں مختلف خلائی ایجنسیز کی جانب سےResearch stations بنائے گئے ۔
ان ریسرچ اسٹیشنز میں مریخ جیسا ماحول فراہم کرکے سائنسدانوں کو کچھ دنوں کے لئے رہنے کا کہا گیاتا کہ انسانوں پر ہونے والے سائیکلوجیکل اثرات کا جائزہ لیا جائےان اسٹیشنزمیں پانی ، فوارے،باغ اور دیگر ضروریات زندگی کو بھی شامل کیا گیا، اس colonization کے دوران مریخ پہ ایسے ہی ریسریچ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے تاکہ وہاں کے باسیوں کو زمینی ماحول میسر ہوسکے۔ چونکہ مریخ کی مٹی میں پانی کے شواہد ملے ہیں لہٰذا مارس ون نامی پراجیکٹ میں مریخ کی مٹی سے پانی کو کشید کرنے کا راستہ بھی نکالا گیا ہے۔شروع میں یہ کالونیاں مکمل طور پر زمین سے بھیجی جانے والی کُمک پر انحصار کریں گیں لیکن زیادہ عرصہ مریخ کے باسی زمین والوں پر منحصر نہیں رہ سکتے لہٰذا انہیں کچھ عرصے بعد ہی مریخ پراپنے بیس کیمپس میں اناج اگاناہوگا، یہ فصلیں مریخ کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لئے خوراک کا ذخیرہ ہونگیں۔کوشش کی جائے گی بیس کیمپس مکمل طور پر آکسیجن سے بھرے نہ ہوں بلکہ 40فیصد نائیٹروجن،40فیصد آرگان اور 20 فیصد آکسیجن پر مشتمل ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ 50 سال پہلے چاند پر جانے کےلئے لانچ کی گئی اپالوسیریز کے پہلے مشن اپالو 1کی ٹیسٹنگ فلائٹ میں آگ لگ گئی تھی کیونکہ اپالو 1 کا ماڈیول آکسیجن سے بھرا ہوا تھا جس وجہ سے آگ بہت تیزی سے پھیلی اور خلاء باز اندر ہی زندہ جل کر جاں بحق ہوگئے، اس حادثے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ کسی بھی بیس کیمپ یا خلائی جہاز کو مکمل طور پر آکسیجن سے نہیں بھرا جائے گا بلکہ دیگر گیسز بھی اس میں شامل کی جائیں گیں جو آگ کو بڑھنے سے روکے رکھیں گیں۔
زمین پر بھی نائیٹروجن اور دیگر گیسز 79 فیصد ہیں، آکسیجن 21 فیصد ہے، سانس لیتے ہوئے ہمارا جسم قُدرتی نظام کے تحت آکسیجن کو بقیہ گیسز سے الگ کرلیتا ہے ،لہٰذا دیگر گیسز کی موجودگی نقصان دہ ثابت نہیں ہوگی۔ مریخ پر بجلی کے لئے سولر پینلز ،تابکاری بیٹریاں اور Nuclear reactorsاستعمال کیے جائیں گے۔مریخ کے باسی مختلف structuresبنانے کےلئے 3D printers کا سہارا لے سکیں گے، ان پرنٹرز میں لوہے کو بطور material استعمال کیا جائے گا، جب کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو 3D printer کی مدد سے وہ چیز بنا لی جائے گی۔مریخ پر زندگی کا الگ ہی رنگ ہوگا، شروع کے ادوار میں مریخ پر ڈیرے ڈالنے والے انسان بلاشبہ بہت بڑی قربانی دیں گے، تھوڑا imagineکرکے تو دیکھیے کہ آپ اپنی اتنی قیمتی زندگی ساری کی ساری ایک ایسے سیارے پر بیتا دیں جہاں پر آپ سانس تک لینے کے لئے مشینوں کے محتاج ہوں… جہاں ہمہ وقت خطرات آپ کے سر پر منڈلاتے رہیں… یہ جانتے ہوئے کہ آپ کے اس ایک فیصلے سے آپ کی آنے والی کئی نسلیں موت کے دہانے پر کھڑی رہیں گے… آپ اپنی اولاد کو زمین پر ایک خوبصورت مستقبل دے سکتے تھے مگر اس ون سائیڈڈ مشن اُن کے سب خواب چکنا چُور کردے گا، یہ سب سننا آسان ہے مگر ایساکر گزرنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ مشکل فیصلے کرنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ فلکیات کو دیوانگی کی آخری حد تک چاہیں، یہی وجہ ہے جب مریخ کی جانب ون سائیڈڈ مشنز کا اعلان کیا گیا تو لاکھوں درخواستیں موصول ہوئیں۔مریخ پر کالونیاں بنا لینے کے بعد اس انوکھے سفر کی اگلی منزل پورے مریخ کو زمین جیسا بنانا ہوگا۔ اِس سیریز کے اگلے اور آخری حصے میں ہم اِسی طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیسے یہ انسان اپنے ننھے سے دماغ سے اتنے وسیع سیارے کو زمین جیسا بنانے کی معصومانہ کوشش کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply