تلخیاں/ آدھا تیتر، آدھا بٹیر۔۔محمد اسلم خان کھچی

پچھلے چند کالمز میں سابقہ وزیر اعظم مفرور اشتہاری مجرم نواز شریف کے لندن یاترا پہ کی گئی سازش سے پردہ اٹھایا تو کچھ لوگ ناراض ہو گئے اس لیئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اب انکے دورحکومت کے دوران کی گئی تمام سازشوں سے پردہ اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔نوازشریف کی کرپشن سے لیکر افواج پاکستان اور ملکی سلامتی کے ساتھ غداری تک کے جرائم کی فہرست بہت طویل ھے جو قابل معافی نہیں۔ اگر صرف کرپشن ہی انکا جرم ہوتا تو انہیں معاف کیا جا سکتا تھا لیکن وہ 1990 سے لیکر 2017 تک بار بار ملکی غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہودی ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے انہوں نے ہمیشہ ملکی افواج کو بدنام اور کمزور کرنے کی سازش کی اور اب مسلسل تین سال سے وہ ملکی افواج کی سالمیت اور عزت پہ کاری ضربیں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ ہی کبھی ہو سکیں گے کیونکہ پاکستانی قوم جتنی بھی اخلاق باختہ جائے وہ پاک افواج کے خلاف کسی مہم جوئی میں شریک نہیں ہو گی۔ البتہ کچھ عناصر ضرور ہیں جو مریم صفدر کے پے رول پہ کام کرتے ہیں اور ان میں چند نام نہاد صحافی بھی شامل ہیں۔
میاں نوازشریف پانامہ رسوائی کے بعد نیلسن منیڈیلا بننے کی کوشش میں جیل گئے اور صرف 15 دن میں ھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے منڈیلا بننے سے تائب ہو گئے ۔محترمہ کلثوم صاحبہ کی وفات پہ رھائی ملی تو شکل دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ اب پاؤں پڑنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
عدالت سے مجرم ٹھہرا کے سزا یافتہ ہوئے تو ساتھ ھی ہائیکورٹ نے ریلیف دیتے ہوئے شرط رکھ دی کہ نیلسن منیڈیلا کو لاہور جیل میں رکھا جائے۔ یہ سازش کی طرف پہلا قدم تھا۔ بیمار ہونا شروع ہوئے تو پلیٹلیٹس 2000 تک پہنچا دیئے جبکہ 20000 پہ انسان کی باڈی سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ سات ہارٹ اٹیک ہوئے لیکن دل کی روحانی طاقت سے انکا کچھ بھی نہ بگڑا۔ ایسا کھیل رچایا گیا کہ بڑے بڑے ذہین ڈاکٹرز کو مات دے دی گئی۔
میں تو کہتا ہوں کہ محترمہ یاسمین راشد کو اس سازش کا مورد الزام ٹھہرا کے سزا دی جائے کہ اتنا بڑا قومی مجرم انکی آنکھوں میں دھول جھونک کے فرار کیسے ہوا ؟
لندن پہنچتے ہی کچھ عرصہ ڈیل کی کوشش ہوتی رہی جسکا اعتراف مریم صفدر اپنے انٹرویو میں کر چکی ہیں لیکن جب بات نہ بنی تو غیرملکی یہودی حکومتوں سے رابطے شروع کر دیئے۔ قومی راز افشا کرنے کی دھمکی دی گئی۔ فوجی اداروں کو براہ راست دھمکیاں دی گئیں۔
اس وقت انڈیا, برطانیہ, اسرائیل اور عرب ممالک کی طرف سے نوازشریف کو مکمل گارنٹی دی گئی ھے کہ آپ اپنے ملک کے خلاف کچھ بھی بولیں۔۔۔ چاھے عالمی جنگ لگ جائے۔۔۔ لیکن آپ کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
یہودیوں اور کافروں سے طاقت ملنے کے بعد وہ میدان میں اترے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پہ پاکستان میں مریم صفدر کو برسراقتدار دیکھنا چاہتے ہیں چاھے اس کیلئے پاکستان کی سلامتی کی قیمت بھی چکانی پڑے۔۔۔
شریف خاندان دس سالہ جلاوطنی میں سعودی شہنشاہوں کے ساتھ رہتے رہتے خود کو شہنشاہ سمجھنے لگ گئے ۔ مریم صفدر خود کو پاکستان کا مالک سمجھتی ہیں وہ کسی صورت تسلیم ہی نہیں کر سکتیں کہ پاکستان میں کسی اور پارٹی کی حکومت ہو۔ یہی حال میاں نوازشریف کا تھا کہ ہر مخالف حکومت کے خلاف سازش کر کے چلتا کرتے اور خود اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہوتے۔ اپوزیشن کو اس برے انداز سے کچلنے کی کوشش کی جاتی کہ لوگ پناہ مانگتے رہ  جاتے۔۔۔
بینظیر صاحبہ کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے ہیلی کاپٹر سے ننگی تصویریں پھینکی گئیں۔ مقدمات بنائے گئے اور حالت یہ کر دی گئی کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں میں بیک وقت پیشیاں لگائی جاتیں تاکہ وہ پہنچ نہ سکیں اور اشتہاری قرار پائیں۔ شریف برادران کے خوف کا یہ عالم تھا کہ بینظیر صاحبہ شدید گرمی میں بلاول, آصفہ, بختاور کی انگلیاں تھامے پورا دن عدالتوں کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کے گزارتیں۔ خوف کے مارے کوئی پانی پوچھنے والا تک نہ ہوتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ آپ پرانے اخبار اٹھا کے دیکھ لیجیے۔ آپکو سینکڑوں تصویریں مل جائیں گیں۔ جسٹس قیوم جیسے بدبودار درندے انکے رکھیل تھے۔ پنجاب پولیس میں 20000 غنڈہ نما لوگ بھرتی کیئے گئے۔ زرداری پہ بے پناہ تشدد کیا گیا۔ زرادری صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا بینظیر صاحبہ سے کنارہ کشی اختیار کر کے دور جا چکا ہوتا۔ بہادر آدمی تھا۔ ان کی مہربانیوں سے 11 سال جیل میں رہا لیکن ٹس سے مس نہ ہوا۔
لیکن کبھی کبھی وقت کا پہیہ الٹا بھی چل پڑتا ہے۔
خود کو شہنشاہ سمجھنے والے آج سڑکوں پہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔کسی کو اشتہاری قرار دلوانے والے آج خود سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری ہیں۔ اسی کو ھی مکافات عمل کہتے ہیں ۔ فرسٹریشن کا شکار مریم صفدر جو خود کو پرائم منسٹر کا حقیقی حقدار سمجھتی ہیں۔ وہ اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
موجودہ گرینڈ اپوزیشن جو بڑے طمطراق سے گورنمنٹ گرانے نکلی تھی۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گے تتر بتر ہوتی نظر آرھی ھے۔ نوازشریف کے فوجی حملے کے بعد سارے لوگ جان چھڑانے کے چکر میں ہیں اور اپنے اپنے بلوں میں گھسنے کو بیتاب نظر آتے ہیں۔
محترم آصف علی زرداری صاحب بیمار ہو کے گھر جا چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نواز شریف کے غداری کے بیانیے سے خود کو الگ کر چکے ہیں۔ خواجہ آصف صاحب کی زرداری صاحب پہ تنقید سے صاف نظر آتا ہے کہ خواجہ آصف صاحب نے کسی طاقت کے کہنے پہ یہ بیان دیا ہے اور زرداری صاحب کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
اعتزاز احسن صاحب پیپلز پارٹی کو ن لیگ پہ اعتبار نہ کرنے اور ن لیگ سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
لیکن فیس سیونگ کیلئے مسٹر بلاول زرداری 1400 لوگوں کے ساتھ گوجرانوالہ جلسے میں ضرور شامل ہوں کیونکہ انکے گوجرانوالہ اور لالہ موسی میں 1400 لوگ ہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن صاحب سے امید تھی لیکن سمجھانے والوں نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا ہے بلکہ یوں کہ سکتے ہیں کہ فوج سے جنگ کے اعلان کے بعد انکا سوفٹ ویئر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اگلے دس دن میں آپ ان کی گھن گرج میں بڑی تبدیلی دیکھیں گے ۔وہ عمران خان صاحب پہ ضرور گرجیں برسیں گے لیکن اداروں کے بارے انکی زبان بڑی مہذب اور مذہبی ہو گی۔
مریم صفدر کو اب بھی امید ہے کہ جنوری میں حکومت گر جائے گی۔ کچھ لوگ یقین بھی دلا رہے ہیں اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا خود کو پرائم منسٹر دیکھتے ہوئے زمینی حقائق سے آنکھیں چرا رہی ہیں کیونکہ بادشاہت اور دولت کی ہوس انسان کو اندھا کر دیتی ہے ایسا ہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ڈیموکریٹک گرینڈ الائنس آدھا تیتر آدھا بٹیر بن چکا ہے۔
نہ جنوری میں کچھ ہونے والا اور نہ مارچ میں۔
عمران خان کو کچھ دوست نما دشمنوں نے مشورہ دیا تھا کہ اس تحریک کو کچل دیا جائے جیسا کہ شریف برادران ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ گرفتاریاں, جیلیں, پولیس تشدد ,روڈ بلاک سے تحریکیں کچل دی جاتی تھیں لیکن عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ کرپشن زدہ اپوزیشن کو بھرپور موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنے دل کی حسرت نکال لے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ مریم صفدر کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ شہزادی صاحبہ کتنی مقبول ہیں ۔کیونکہ پاکستان صرف گوجرانوالہ نہیں۔ پاکستان خیبر سے کراچی تک کے علاقے پہ مشتمل ہے۔
لاکھ مہنگائی سہی, ملک کے حالات برے سہی لیکن میرا ذاتی خیال یہ ھے کہ ن لیگ چند ہزار لوگ ھی اکٹھے کر سکے گی اور چند ہزار لوگوں سے حکومتیں نہیں گرا کرتیں۔
ن لیگ کا گڑھ لاہور پہلے ہی مریم صفدر کو مسترد کر چکا ہے۔
جاگ پنجابی جاگ کے متعصب نعرے کے بعد ” پگڑی سنبھال جٹا ” کا نعرہ بھی لگ چکا ھے۔لیکن میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے لیڈر بیوقوف ہیں یا ہم بیوقوف ہیں۔ پنجابی, سندھی, بلوچی, پٹھان کے نعرے بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ 35 سالہ دور اقتدار میں دو نئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں جو سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں۔ 18 سالہ جوان آن لائن بزنس کر کے لاکھوں کماتے ہیں۔ 4 سالہ بچہ ڈائریکٹ آن لائن گیم کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کا آئی کیو لیول بہت اپر لیول پہ ہے لیکن سیاسی جماعتیں مردوں اور عورتوں کو پگڑیاں پہنا کے خود کو تماشا بنا رہی ہیں۔
نئی نسل بہت سمجھ دار ہے۔ وہ ڈالرز میں بزنس کر کے پاکستان میں بیٹھے بیٹھے اپنے پیسے وصول کر لیتے ہیں۔ اب وہ کسی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔
لاہور نے ٹھکرا دیا۔ جنوبی پنجاب انہیں گھاس نہیں ڈالے گا۔
اگلے ہفتے جناب کیپٹن صفدر بھی نیب یاترا پہ جا رہے ہیں کیونکہ انکی اربوں کی جائیداد کے حساب کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مجھے میاں شریف صاحب 1500 ریال ماہانہ دیا کرتے تھے۔ انکی بھی اربوں کی جائیدادیں نکل آئی ہیں۔
عمران خان ڈٹ کے کھڑا ہے۔ وہ اس ملک کی اندرونی اور بیرونی جنگ کیلئے کمر بستہ ہو چکا ہے۔
آپ کی جنگ لڑ رھا ہے۔ لوگوں سے گالیاں کھا رہا ہے۔
آپ کیلئے, آپ کے مستقبل کیلئے۔۔۔۔ آپ کے بچوں کے مستقبل کیلئے۔۔۔ آپ کا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے۔
اللہ رب العالمین آپ کو حق اور سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply