• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی/سائیں سُچّا کی کتاب “بھٰیڑی نزر” پر ایک تبصرہ۔۔۔شاہد اختر

جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی/سائیں سُچّا کی کتاب “بھٰیڑی نزر” پر ایک تبصرہ۔۔۔شاہد اختر

زبانیں عام طور پر ارتقا کے طویل اور بتدریج مرحلہ وار اقدامات کے بعد کہیں جا کر اہم تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ ان میں شعوری طور پر فیصلہ کُن تغیر کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ یا شاید میں نے غلط صیغہ استعمال کیا ہے۔ کہنا چاہیے  تھا کہ” ہوتے تھے”۔ سائیں سُچا کے افسانوں کی نئی کتاب کی اشاعت تک۔
سائیں سُچا کو انگریزی، اردو ، پنجابی اور سویڈش میں عبور حاصل ہے اور ان چاروں زبانوں میں مہارت سے لکھتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پنجابی میں اپنے افسانوں کا مجموعہ “بٰھیڑی نزر”شائع کیا ہے۔

اس کتاب میں پنجابی ادب میں ارتقائی تبدیلیوں کا انتظار کرنے کی بجائے سائیں سُچّا نے بیک جنبش قلم کئی معنی خیز تبدیلیوں کو پنجابی کے قارئین سے متعارف کرایا گیا ہے۔
پنجابی اگرچہ ایک قدیم زبان ہے، اردو سے بہت پہلے ہندوستان میں بولی جاتی تھی لیکن اس کا تحریری ادب وہ مقبولیت نہ حاصل کر سکا جس کی یہ مستحق تھی۔

میں اس کتاب کو شاہ مکھی رسم الخط میں لکھی جانے والی پنجابی کی ایک انقلابی کتاب سمجھتا ہوں۔ اس میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو سٹروک آف جینئس ہی کہا جا سکتا ہے۔

ایک تو یہ کہ پنجابی میں چند خاص آوازیں ہیں جن کی ادائیگی فارسی اور اردو رسم الخط میں لکھے جانے کی وجہ سے محدود ہو گئی اور بر صغیر کی اس قدیم زبان کی صوتی خوبصورتی پوری طرح سے اجاگر نہ ہو سکی ۔

لیکن جہاں مسئلہ ہوتا ہے وہاں مسئلے کا حل بھی ہوتا ہے ۔ ایک تو مسئلہ یہ تھا کہ ایسے الفاط کو کیسے ادا کیا جائے جن میں دو حروف کے مابین کی ادائیگی ہوتی ہے۔ مصنف یہاں ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتا ہے کہ پنجابی، پنج آبی، یعنی پانچ دریاؤں سے دھلی زبان تو تھی ہی، یہ زبان پنج صوتی استثنا سے بھی مالا مال ہے۔ پنجابی میں پانچ آوازیں ایسی ہیں جن کی ادائیگی دنیا کی اور زبانوں میں ممکن نہیں۔ ان مابین الصوت حروف کی ادائیگی کے لئے مصنف نے چار اعراب یعنی زیر ِ ، زَبر، پیش ُ، اور شد ّ میں ایک اور وچ ٰ کا اضافہ ایجاد کر کے اس تحدید کو دور کر دیا ہے۔
جیسے بھ اور پھ کی درمیانی آواز ،جس کی ادائیگی نہ بھرا کہنے سے ہو سکتی ہے نہ پھرا، تو اس کی ادائیگی کے لیے بھٰرا کہہ کر یہ حق ادا ہو سکتا ہے۔ برٰنا، بھٰین، بھٰاری۔۔
یا مثال کے طور پر مستند، مصدقہ اور معتبر پنجابی “ٹڈھ” اور” ڈھڈ” کے تلفظ کو شکمی آلودگی کر دانتے ہیں۔ یہاں ٹ اور ڈ کی درمیانی آواز کو ٹھٰ سے ادا کیا گیا ہے۔
ت اور د کے مابین آواز کی ادائیگی دھٰ جیسے دھٰیان یا دھٰرم۔
ج اور چ کی درمیانی آواز اعراب میں اضافے کی بنا پر جھٰاڑو اور جھٰانجر
جیسے الفاظ کو صحیح طریقے سے ادا کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔

ک اور گ کو ایک یا دوسرے پر ترجیح دینے کی بجائے گھ ٰ کی آواز سے گھٰوڑا اور گھٰمیار جیسے الفاظ کو اہل لکھنؤ بھی آسانی سے ادا کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ کو میرے اس دعوے میں ذرا بھی شک و شبہ ہے تو ثبوت کے لئے رجوع کیجئے سائیں سُچاّ صاحب کی طرف جن کی اپنی مادری زبان لکھنؤی اردو ہے چونکہ ان کی والدہ لکھنؤ سے تھیں۔ سویڈن کے باسی سائیں سُچاّ ، کا تعلق لاہور سے ، اور لاہور میں بھی مزنگ سے ہے۔ پنجابی ادب کے حالیہ لکھنے والوں میں سائیں سُچّا ایک سند مانے جاتے ہیں۔

جیسا کہ افسانوں کے اس مجموعے کے عنوان ہی سے ظاہر ہے بٰھیڑی نزر کو ” ز ” سے لکھا گیا ہے۔ اردو ابجد کے باقی تمام حروف جن میں اس آواز کا عندیہ ہوتا ہے اس کتاب میں املا سے خارج کر دئے گئے ہیں۔ ان میں “ذ” ” ژ” ” ض” اور” ظ” شامل ہیں۔

اسی طرح “س” کی آواز کو اپنا کر “ص “اور “ث “کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ “ت “رکھ کر” ط “کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد فہرست کو مکمل کرتے ہوئے سائیں سچا اپنے پیش لفظ میں خود ہی کہتے ہیں کہ” ک رکھ کر ق ہٹا دتی اے”۔

یہاں مجھے صرف اعتراض اتنا ہے کہ حروف اور الفاظ بھی اشیا ء کی طرح تزکیر و تانیث کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ جیسے اگر الف کو مذکر کہا جائے تو “ی” چاہے چھوٹی ہو یا بڑی “ے” اس کو مونث گردانا جائے گا۔ اسی طرح دال اور ڈال مونث لیکن سین اور شین مذکر سمجھے جائیں گے۔ لیکن قاف کو مونث کہنا کچھ عجیب سا لگا۔ یقیناً  اس کی کوئی  ایسی وجہ ہو گی جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا لیکن اتنا ضرور ہے کہ کتاب میں صرف وہی حروف برتے گئے ہیں جن سے ان کی صحیح ادائیگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ تحریر میں فالتو حروف شامل کر کے اس کو بوجھل نہیں بنایا گیا بلکہ ان حروف کی غیر موجودگی نے قارئین کے لئے بہت سہولت پیدا کر دی گئی ہے۔

افسانوں کے اس مجموعے میں چیدہ چیدہ الفاظ کی شرح کے لئے صفحات کے متن کے نیچے فٹ نوٹس بھی استعمال ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ان میں سے زیادہ تر الفاظ کی شرح کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ کلوننگ اور ناپالم کے علاوہ اکثر اتنے ہی آسان یا مشکل ہیں جتنے وہ الفاظ جن کی تشریح نہیں کی گئی۔ جیسے تبسرا، جواز، ارتکاء، تشکیکیت ، زوم لینز، معیاد یا جاز۔ یہ تشریحات روانی کی بجائے بعض مرتبہ کہانی کی جاذبیت سے توجہ ہٹا دینے کی مرتکب بھی ہو جاتی ہیں۔

اردو پڑھنے کے عادی قارئین کے لئے اس کتاب کا پڑھنا اگرچہ خاصا آسان بنا دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ الفاظ پر اس لئے ذرا زور ڈالنا پڑتا ہے کہ ان میں اعراب استعمال نہیں ہوئیں۔ شاہ مکھی پنجابی لکھنے کے لئے اعراب کا استعمال اردوکی تحریر سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ مثلا ً ایک جگہ “سوکھی” شاہ مکھی میں لکھا ہے ۔میں نے شروع میں اس کو سُوکھی بمعنی خشک پڑھا، لیکن پھر اس سوچ میں پڑ گیا کہ اگر یہ خشک ہے تو اس کا متضاد کیا ہوگا؟دلچسپ؟ مزاحیہ؟ ترو تازہ؟ کافی غور و خوض کے بعد عیاں ہوا کہ یہ لفظ سُوکھی نہیں ، سَوکھی یعنی سہل کے معنوں میں لکھا گیا ہے ۔ اسی بات کو ” س” پر زبر ڈال کر خاصی” سَوکھی” بنایا جا سکتا تھا۔

چونکہ یہ کتاب کاغذ کی بجائے ای بُک اور پی ڈی ایف کی وضع میں چھپی ہے اس لئے اگلے ایڈیشن کا انتظار کرنےکی بجائے اعراب کا پورا پورا استعمال اور دیگر تبدیلیوں کو جاریہ طریقے پر اپنا سکتا ہے۔ سائیں سُچّا کو ادب ہی میں نہیں جدید ٹکنالوجی میں بھی مہارت حاصل ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ ان کو بطور پبلشر ہونے کی بجائے ان کے قارئین کو ہوا ہے۔ انہوں اپنی تمام کتابیں،
ع۔ “پڑھو” کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی “کتاب “کے مصداق اپنی ویب سائٹ پر لگا دی ہیں۔ اور
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔
جو چاہے فیض حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت تبدیلیاں بھی فوری طور پر بروئے کار لائی جا سکتی ہیں۔
کچھ الفاظ کا املا تلفظ پڑھنے میں ذرا مشکل پیدا کرتا ہے۔ جیسے سویڈن کا دارلخلافہ سٹاک ہوم۔ سچی بات یہ ہے کہ” ستو کہو لم “کی نسبت سویڈن سے جوڑنے میں خاصی دیر لگی۔ حالانکہ زیادہ تر کتاب نہائت سلیس پنجابی میں لکھی گئی ہے اور اگر آپ اردو پڑھ سکتے ہیں تو اس کتاب کی پنجابی پڑھنے میں بالکل دقت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کسی شخص، جگہ ،یا چیز کے نام کے لئے ہِجّے وہی ہونے چاہئیں تو عام بولی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر رواں کہانی میں اس لئے کوئی رکاوٹ آ جائے کہ ایک خاص لفظ سمجھ نہیں آرہا ہے تو مزہ کچھ کرکرا سا ہو جاتا ہے۔

یہ مجموعہ دس کہانیوں پر مشتمل ہے۔
کتاب کا پہلا افسانہ “چار سیانے “ہے جس میں افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے علامتی اور حقیقی صورت حال کا امتزاج پیدا کیا ہے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور تین “سیانوں” کی سواری اٹھاتا ہے جن سے گفتگو کے دوران علامتی مسیح موعود اور خیالی نجات دہندہ کی آمد کے ساتھ ساتھ ٹیکسی کا کرایہ اور میکڈانلڈ کے برگر جیسے غیر روحانی حقیقی عوامل ایک دوسرے سے بر سر پیکار نظر آتے ہیں۔ بائیبل کے حوالے سے تین سیانوں کا اکیسویں صدی میں ذکر زمان و مکان کی حدود کو اچانک پھلانگ جاتا ہے۔ ذہنی کلوننگ پر مبنی یہ بڑا دلچسپ لیکن عمیق افسانہ ہے۔ میکڈانلڈ اور ٹیکسی کے میٹر سے مریم کو عیسٰی کی نوید کے تعلق کوجوڑنا اس افسانے کی جان بھی اور ابراہیمی مذاہب اور اصراف کاری کی تہذیب اور تحریک پر ایک سبق آموز تبصرہ بھی ہے۔ درمیان میں بابا بلہے شاہ کے حوالے سے پنجابی ثقافت کو بھی افسانے کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جیسے کہ سیانوں کی ٹیکسی ڈرائیور کی گفتگو میں علم کی عقل سے غیر مطابقت۔
علموں بس کریں او یار۔
اکو الف تیرے درکار۔

یہ افسانہ اس مجموعے میں شامل تمام افسانوں میں میرا پسندیدہ ترین افسانہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس افسانے میں مصنف کا روحانیت ، تصوف، طنز، منافقت سے حقارت کی حد تک نفرت اور جراَت سے وہ بات کہ دینا جو لوگ سوچتے تو ہیں لیکن ان کے اظہار کی ہمت نہیں رکھتے، ایسے عناصر ہیں جنہوں نے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے سائیں سُچّا کو ممتاز کہا ہے ۔یہ افسانہ ان تمام خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہے۔

افسانے کی آخر ی سطر میں ایک منٹویانہ اور چیخوفانہ پنچ لائن کا انداز ہے، “میرا بِل دینے کے بعد”۔

ایک اور مختصر افسانے “راہ” میں انسانی فطرت کے ایک بدنما پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فوج کے اعلیٰ افسران ترقی کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ ایک جنرل کی بیٹی کو اپنے نوجوان شوہر کی ترقی کے لئے ایک خرانٹ جنرل سے ہمبستری کرنی پڑتی ہے۔ جب وہ اخلاق کی بنیاد پر بوڑھے جنرل سے مضاحمت کرتی ہے تو اس پر یہ بات کھلتی ہے کہ لڑکی کے باپ نے ترقی کے لئے بہت عرصہ پہلے اسی جنر ل کی نوجوان بیوی سے یہی قیمت مانگی تھی جو اب اس کی بیٹی کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ گویا ،
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے۔
بھٰیڑی نزر

اس کہانی کا عنوان کتاب کا عنوان بھی ہے۔ میاں فراخ کے دیسی دوست ان سے ملنے آتے ہیں تو ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا جاتا ہے اور ساتھ والے کمرے سے پردہ دار اہل خانہ کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں۔ اگلے دن جب مہمان ایک ٹرین میں بیٹھتا ہے تو اس کی ملاقات ایک نوجوان لڑکی سے ہوتی ہے جو اس کو انکل کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ پتہ چلتا ہے یہ تو وہی لڑکی ہے جس کی آواز کل رات فراخ میاں کے ہاں ڈنر پر دوسرے کمرے سے آ رہی تھی۔ پردے کے موضوع پر لمبی گفتگو کے بعد صرف دیسی لوگوں سے پردہ کرنے کےدوہرے معیار کو مدلل طریقے سے صحیح ثابت کرتے ہوئے لڑکی کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ بری نظر (بھٰیڑی نزر) سے تو ہر ایک کو بچنا چاہیے نا۔

ایک اور کہانی “تسبیح” میں گوموضوع بہت سنجیدہ ہے لیکن سائیں سُچٗا کی طبعی شوخی اور بے باک پن کےمظاہروں سے بھرپور بھی ہے۔ اس میں وہ کہیں تو بہاولپور والو ں کو ان کے دقیانوسی پن پر رگڑا لگا جاتے ہیں اور کہیں ایسے کھل جاتے ہیں اگر پاکستان کے سنسر بورڈ کا بس چلے تو وہ اس کی اشاعت کو ممنوع قرار دے دے کیونکہ اس میں کچھ سہاگ رات اور ما ورائے رشتہ ازدواج کی باتیں ذرا “بالغانہ” انداز میں کی گئی ہیں۔ جیسے بجلی کی روشنی کے بہت ہی پتلے لباس میں دودھ کی پہاڑیوں کی دونوں چوٹیوں پر جوانی کی لشکار وغیرہ۔
لیکن افسانے کے مرکزی کردار نے اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر جذباتی خود کشی کرنے کی بجائے اپنی سود مندی کا خیال رکھا اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس میں اس کے خاندان کے قرضے ادا نہ ہو سکیں۔ گھاٹے کا کوئی سودا نہیں کیا۔

اس افسانے میں مشرق اور مغرب کے معاشروں میں زندگی گزارنے والوں کی پیجیدگیاں ہی نہیں بلکہ ان انسانی عوامل کو بھی حالات کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہے جن سے مجبور ہو کر لوگ اپنی زندگی میں ایسے فیصلے کرڈالتے ہیں جن کا وہ دوسرے حالات میں شائد تصور بھی نہ کر سکیں۔

انگوٹھی۔
یہ بھی ایک دلچسپ لیکن شریر افسانہ ہے ۔ سائیں سُچٗا کی تخالیق میں جو لہر مسلسل ہر افسانے سے گزرتی ہے وہ منافقت کے پردے چاک کرنے کی ہے۔ تمام شوخیوں کے باوجود زیر سطح آب کچھ پیغامات ایسے ہیں جوکسی نہ کسی انداز میں اجاگر ہو جاتے ہیں۔ ان میں مذہبی پیشہ وروں میں اقدار کے فقدان کا اظہار نمایاں ہے۔ مُاّن، چاہے وہ کسی مذہب کے ہوں ،سائیں سُچا کے نشتروں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اسلامی رسوم کے مطابق میت کے نہلانے کا ذکر ہو یا جنت کی حوروں کا مذاق ، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
چھیویں حس۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ افسانہ سچے واقعے پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ جس انداز سے یہ کہانی اپنے عروج کو پہنچتی ہے اس میں تجسس کا وہی عالم ہے جو کرسی کے سرے پر بیٹھے ایسی پر اسرار فلم کے ناظرین کا ہوتا ہے جو راز کے فاش ہونے کے انتظار میں بے تاب ہوتے ہیں۔ اور افسانے کے آخری فقرے میں سائیں سُچٗا اپنے قارئین کو مایوس نہیں کرتے۔
امید ہے کہ پنجابی کے ادیب سائیں سُچّا کی اس کامیاب کاوش کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے اور ان کی صوتی املا اور اعراب کی تجدید کو اپنا کر پنجابی ادب کو وہ مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے جس کی یہ خوبصورت زبان مستحق ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی/سائیں سُچّا کی کتاب “بھٰیڑی نزر” پر ایک تبصرہ۔۔۔شاہد اختر

  1. ” اس کے بعد فہرست کو مکمل کرتے ہوئے سائیں سچا اپنے پیش لفظ میں خود ہی کہتے ہیں کہ” ک رکھ کر ق ہٹا دتی اے”۔
    یہاں مجھے صرف اعتراض اتنا ہے کہ حروف اور الفاظ بھی اشیا ء کی طرح تزکیر و تانیث کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ جیسے اگر الف کو مذکر کہا جائے تو “ی” چاہے چھوٹی ہو یا بڑی “ے” اس کو مونث گردانا جائے گا۔ اسی طرح دال اور ڈال مونث لیکن سین اور شین مذکر سمجھے جائیں گے۔ لیکن قاف کو مونث کہنا کچھ عجیب سا لگا۔ یقیناً اس کی کوئی ایسی وجہ ہو گی جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہے.” شاہد اختر۔ مبصر
    بچپن میں “ک” کو بڑا ک، اور “ق” کو چھوٹی ک سکھایا گیا تھا۔ میرا استاد خود ک اور ق کا صوتی امتیاز کرنے سے قاصر تھا۔ اس لئے میں نے “ق” کو چھوٹی ک ہی لکھا ہے۔
    — سائیں سُچّا

Leave a Reply to Sain Sucha Cancel reply