آئن سٹائن اور ریلیٹیویٹی (61)۔۔وہاراامباکر

تھیوریٹیکل فزکس کے سائنسدان کا نیا آئیڈیا ہماری سوچ پر بہت اثر ڈال سکتا ہے۔ اس مضمون کو، اس کی تکنیک اور مسائل کو سمجھنے میں برسوں لگتے ہیں۔ اور بہت سے مسائل حل نہیں ہو پاتے۔ نئے خیالات میں سے بہت سے بے تکے ہی نکلتے ہیں اور چھوٹی سی نئی کنٹریبیوشن بھی مہینوں لے جاتی ہے۔ اس لیے ضدی اور مستقل مزاج ہونا تھیوریٹیکل فزسٹ کے لئے مفید خاصیت ہے۔ چھوٹی سی دریافت، جس کی ریاضی کام کر جائے اور فطرت کا نیا بھید کھول دے اور آپ کچھ نیا پبلش کر دیں۔ یہ اس شعبے میں کام کرنے کی کشش ہے۔ لیکن ایک اور چیز کا امکان بھی ہے۔ کہ کوئی ایسا نیا آئیڈیا مل جائے جو کہ معمول کی دریافتوں سے ہٹ کر اور کہیں بڑھ کر طاقتور ہو۔ وہ آپ کے ہم عصر سائنسدانوں کا، بلکہ پوری انسانیت کے لیئے کائنات کو دیکھنے کا طریقہ ہی بدل دے۔ ایسا کم ہی کوئی کر سکتا ہے اور کبھی شاذ ہی ہوتا ہے۔ اور آئن سٹائن نے 1905 میں یہ کام تین بار کیا۔ اس وقت جب وہ پیٹنٹ آفس میں کام کر رہے تھے۔ ان کا ایک کام ریلیٹیویٹی پر تھا، ایک ایٹم پر اور ایک کوانٹم پر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئن سٹائن جن تھیوریوں کی وجہ سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں، وہ ریلیٹیویٹی کی ہیں۔ اس میں کئے گئے ان کے کام نے وقت اور جگہ کے بارے میں ہمارے تصورات یکسر بدل کر رکھ دئیے۔ یہ دکھایا کہ وقت اور جگہ کے تصورات آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی بندھے ہوئے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی پیمائشیں ایبسولیوٹ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ کرنے والی کی حالت پر منحصر ہیں۔

آئن سٹائن جو مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ ایک تضاد تھا جو میکسویل کی الیکٹرومیگنیٹزم کی تھیوری کے نتیجے میں سامنے آیا تھا۔ ان سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ روشنی کی رفتار کی پیمائش جو بھی کرے، اس ایک ہی جواب ملے گا، خواہ اس کی اپنی رفتار اس روشنی کے منبع کے مقابلے میں کچھ بھی ہو۔

جس طرح گلیلیو نے سوچ کا تجربہ کیا تھا، ویسا ہی کام ہم بھی کرتے ہیں تا کہ یہ سمجھ سکیں کہ پچھلی سٹیٹمنٹ ہمارے روزمرہ کے تجربے سے تضاد کیوں رکھتی ہے۔ تصور کریں کہ ایک چائے والا ٹرین سٹیشن پر کھڑا ہے اور ساتھ سے ٹرین تیزی سے گزرتی ہے۔ ٹرین کا ایک مسافر گیند آگے کی طرف پھینکتا ہے۔ چائے والے کے نقطہ نظر سے اس گیند کی رفتار مسافر کے نقطہ نظر کے مقابلے میں بہت تیز ہے۔ جس رفتار سے مسافر نے گیند پھینکی ہے جمع ٹرین کی رفتار کے برابر ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن میکسویل کی مساوات یہ کہتی ہیں کہ اگر مسافر ٹارچ جلائے گا تو اس کی روشنی کی رفتار چائے والے کے لئے اور مسافر کے لئے برابر ہو گی۔ گیند کی رفتار اور ٹارچ کی روشنی کی رفتار کے لئے یہ تضاد تھا۔ فزکس میں ہم ایسے بیانات خاموشی سے ہضم نہیں کر لیتے۔ اس سے اگلا سوال کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اصول کیا ہے؟ فزکس وضاحت کا تقاضا کرتی ہے۔

روشنی اور مادے کے لئے یہاں پر اصول میں فرق کیا ہے؟ سالوں تک فزسٹ اس سوال کی وضاحت کی کوشش کرتے رہے۔ سب سے مقبول اپروچ یہ رہی کہ کوئی نامعلوم میڈیم ہے جس میں روشنی کی لہر سفر کرتی ہے۔ لیکن آئن سٹائن کے پاس کچھ اور ہی خیال تھا۔ “وضاحت روشنی کی کسی نامعلوم خاصیت میں نہیں چھپی ہوئی۔ مسئلہ رفتار کے بارے میں ہماری سمجھ کا ہے”۔ رفتار کو ہم فاصلے کو وقت سے تقسیم کر کے معلوم کرتے ہیں۔ آئن سٹائن نے توجیہہ پیش کی کہ جب روشنی کی رفتار فکسڈ ہے تو میکسویل کی مساوات بتا رہی ہیں کہ فاصلے اور وقت کی پیمائش میں کوئی یونیورسل اتفاق نہیں ہو سکتا۔ کوئی یونیورسل گھڑی یا فاصلے کی پیمائش کا آلہ نہیں ہو سکتا۔ ان پیمائشوں کا انحصار مشاہدہ کرنے والے کی حرکت پر ہے۔ اس طریقے سے کہ روشنی کی رفتار سب مشاہدہ کرنے والوں کے لئے برابر ہو جائے۔ جو مشاہدہ اور پیمائش ہم کرتے ہیں، وہ خالصتاً ہمارا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ کوئی ایسی آفاقی حقیقت نہیں جس پر ہر کوئی اتفاق کر لے۔ یہ آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کا مرکزی خیال تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریلیٹیویٹی نیوٹن کی تھیوری کو تبدیل نہیں کرتی تھی۔ نیوٹن کے حرکت کے قوانین میں کچھ تبدیلیاں تھیں لیکن آئن سٹائن کے تھیوریٹیکل فریم ورک سے ہی نیوٹن کے قوانین برآمد ہو جاتے تھے۔ ایسے آبجیکٹ یا مشاہدہ کرنے والے جن کی آپس میں ریلیٹو رفتار روشنی کے مقابلے میں بہت کم ہو، وہاں پر آئن سٹائن اور نیوٹن کی تھیوریاں ایک ہی ہیں۔

چونکہ ریلیٹیویٹی کے انوکھے اثرات انتہا کی حالت پر ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، اس لئے روزمرہ کی زندگی میں ان کی اہمیت کوانٹم تھیوری کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ کوانٹم تھیوری تو اس ایٹم کے استحکام کی وضاحت کرتی ہے جس سے تمام اشیا، بشمول ہمارے، بنی ہیں۔ لیکن کوانٹم تھیوری کے دوررس اثرات سے ابھی اتنی آشنائی نہیں تھی۔ جبکہ ریلیٹیویٹی نے فزکس کی کمیونیٹی میں زلزلہ برپا کر دیا۔ نیوٹن کے ورلڈویو نے دو سو سال سے سائنس کو شکل دی تھی اور اب اس کے سٹرکچر میں پڑنے والی یہ پہلی دراڑ تھی۔

نیوٹن کی تھیوری اس بنیاد پر تھی کہ ایک ہی بیرونی معروضی حقیقت ہے۔ وقت اور جگہ ایک فکسڈ فریم ورک دیتے ہیں۔ سپیس ٹائم وہ سٹیج ہے جس پر دنیا کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مشاہدہ کرنے والے، خواہ کسی بھی حالت میں ہوں، اس سٹیج پر ایک ہی کھیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

نیوٹن کی دنیا میں رفتار، فاصلہ، وقت وغیرہ ہر ایک کے لئے یکساں ہیں۔ ریلیٹیویٹی اس نکتہ نظر سے اختلاف رکھتی ہے۔ اس کے مطابق کوئی ایک ڈرامہ نہیں چل رہا اور حقیقت کا انحصار ہماری جگہ اور حرکت کے ساتھ ہے۔ مثلاً، جب آپ کائنات سے پوچھتے ہیں کہ وقت کیا ہے؟ تو گویا کائنات پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ پوچھ کون رہا ہے؟

جس طرح گلیلیو نے ارسطو کی دنیا گرانا شروع کی تھی، ویسا ہی اب نیوٹن کی دنیا کے ساتھ ہونے لگا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply