اتصال ۔۔ مختار پارس

قاصد نے آ کر بتایا کہ آج کسی نے کسی اور جہاں سے آپ کے پاس آنا ہے۔ طبیعت منتشر ہو گئی۔ مقناطیسی لہروں کے پاس واپسی کا رستہ نہیں ہوتا۔ عناصر کا ان لہروں سے نبٹنا ضروری ہے۔ تصوف کے میدان میں کششِ انجماد صرف اسی صورت ممکن ہے جب انکار ہو جاۓ۔ وگرنہ شدتِ طلب کا منتقی انجام کششِ اتصال ہی ہے۔ زندگی کا بار زمین کی قوتِ جاذبہ میں پنہاں ہے۔ کبھی دل کشی کا فشارسراٹھا لیتا ہے اور کبھی روح کے انابیب چھلک جاتے ہیں۔

شام ڈھلے ایک سپید رنگ فاختہ صحن میں درخت کی ٹہنی پر آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے تعاقب میں لمبی سرخ چونچوں اور پیلی آنکھوں والے کالے سیاہ دو پرندے تھے جنہوں نے آتے ہی اس طائرِ خفتہ پر حملہ کر دیا۔ ایک نے اس کے سر پر ٹھونگیں ماریں اور دوسرے نے اس کے بال نوچے۔ میں نے درخت کی جانب قدم بڑھاۓ، وہ دونوں حملہ آور پرندے اڑ گئے،سفید فاختہ وہیں بیٹھی رہی۔ زمین پر کچھ دانہ دنکا رکھا تو اس نے وہ آ کر کھا لیا اور پھر جا کر اسی ٹہنی پر بیٹھ گئی۔ تین دن تک وہ اس شاخِ شجر پر بیٹھی رہی۔ میں کئی بار اس کے پاس سے گزرتا رہا، صحن میں بیٹھ کر تماشاۓ اسرارِ طیور کو دیدہ ور مہیا کیے رکھا مگر گتھی نہ سلجھ سکی۔ وہ فاختہ کچھ اظہار کرتی تھی کہ اس کی نگاہ میں کچھ لکھا تھا۔ وہ بھوکی نہیں تھی کہ دانہ اس نے ان تین دنوں میں حسبِ ضرورت ہی اٹھایا۔ وہ ڈری ہوئی نہیں تھی ورنہ مجھ سے بھی خوف ضرور کھاتی۔ وہ وہاں رہنا نہیں چاہتی تھی ورنہ رہنے کو کوئی جگہ تلاش کرتی۔ وہ اکیلا پرندہ تھا۔ یقیناً  اس جیسا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہو گا مگر اس وقت وہ اس کے ساتھ نہیں تھا۔ یہ تو بس ٹہنی پر بیٹھے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اور کچھ کہہ رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اگر اسے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لوں تو وہ آرام سے میرے ہاتھ آ جاۓ گی اور نہیں اڑے گی۔ مگر میں نے اعتماد کی بجاۓ صیاد کے ہنر کو آزمانے کا سوچا۔ جس درخت پر وہ تین دن سے بیٹھی تھی، اسی کے نیچے اس کو پکڑنے کا سامان بچھایا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ سفید فاختہ نے میری طرف معنی خیز آنکھوں سے دیکھا اور اڑ گئی۔ اس کے اڑنے کی آواز کی سرسراہٹ کافی دیر میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ وہ فاختہ جو اس دنیا کی لگتی ہی نہیں تھی، تین دن تک میرے در پر بیٹھی رہی۔ آخر میں نے اسے اڑا دیا۔

محبت کو جال بچھا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وصل، محتاجِ دامِ صیاد نہیں۔ عقیدت زمانے سے لڑ کر قدم بوس ہو جاتی ہے۔ ارادت کو غلط سمجھ لیا جاۓ تو بھروسے زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ زندگی میں ایک بار یہ دستک ضرور ہوتی ہے۔ قدموں کی چاپ پہ ہوا کے جھونکے کا گمان ہو تو دل کی کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے کا امکان کم رہتا ہے۔ ہدایت کی ردا یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے تقدس کو سمجھا جاۓ۔ جس سر پر اسے رہنا ہے، اسے آنچل کو سنبھالنے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ تلاشِ ذات میں نفی اثبات ہو سکتا ہے، انتظار کی گنجائش بھی یقیناً ہے، مگر وارفتگی میں شکستگی کی اجازت نہیں۔ آئینہ صرف اس صورت میں ٹوٹتا ہے جب اس میں اپنے علاوہ کوئی اور نظر نہ آۓ۔ خود پرستی کسی اور کو دیکھنے ہی نہیں دیتی۔

انسان جب اپنے گرد و پیش سے تعلق رکھتا ہے تو پھر سارے جز اس سے کلام کرتے ہیں اور اس کے بیانِ حیات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عدم توجہ انہیں سچ سے دور کر دیتی ہے۔ حقیقت سے باخبر رہنے کےلیے اپنے گھر کے آنگن میں اترنے والے پرندوں کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر نہیں دیکھیں گے تو کسی کو پروا نہیں کہ کوئی تین روز تک کسی ٹہنی پر بیٹھا رہے۔ جب حکم ہوتا ہے تو پھر ہی کسی کے در پر دستک ہوتی ہے۔ انسان کا نباتات اور حیوانات سے رابطہ ٹوٹ رہا ہے۔ عہدِ سلیمانؑ میں تو جہانبانی میں میسر ہی یہی تھے جو خدا اور انسان کے درمیان پیغام رسانی پر مامور تھے۔ اس دنیا کی تو تہذیبوں کی بنیاد انسان کی دوسری مخلوق سے تعلق ہے۔ پہلے تو بات سمجھنا ہوتی تھی تو ان کی حکایات میں جانور بطور کردار آتے تھے۔ اب ہم ان سے آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں۔ اس جہانِ خرد افروز سے تجدید کی ضرورت ہے۔

بیشتر حیوان انسان کے اپنے اندر چھپے ہیں۔ کسی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کو خاموش رکھنے کی۔ یہ سب جاندار انسانی رویوں کی علامتیں ہیں۔ انسان حیوانی جبلتوں پر قابو پا کر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔ جب تک وہ اس درجے تک نہیں پہنچ پاتا، وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ حیوان چاہے باہر ہو یا اندر، اس کی خصلت ہے کہ وہ نطق نہیں رکھتا۔ خدا نے اسے اظہار سے محروم رکھا ہے۔ یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا میں چرند اور پرند کا حساب رکھے کہ کون کیا ہے اور کیا چاہتا ہےاگر یہ تجدیدِ تعلق نہ ہو سکا تو نباتات سوکھ جائیں گے اور درندے سب کچھ کھا جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

روح کی چراہ گاہ کا سرسبز رہنا فطرت کا تقاضا ہے۔ فیض حاصل کرنے کےلیے آنے والوں کا رستہ نہیں روکا جاتا۔ جو لوگ دنیا سے لڑ کر کسی کے آنگن میں آ بیٹھتے ہیں، تو تلاشِ حیات میں انسان کا ایک آفاقی ذمہ داری میں ساتھ دینے آتے ہیں۔ کبھی کوئی کوا حابیل کو مردہ دفن کرنے کا طریقہ بتانے آتا ہے کبھی اژدھا موسیٰ کا عصا بن جاتا ہے۔ مچھلی اور مگرمچھ کی بھی منطق ہوتی ہے۔ یہ سمندر کی ذمہ داری ہے کہ اس کی پہلو بدلتی لہریں اس حیات کا خیال رکھیں جو اس کے اندر رہتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کے اندر کے سمندر میں کیا ہے۔

Facebook Comments