ٹک ٹاک پر پابندی۔۔ذیشان نور خلجی

یہی کوئی پندرہ برس گزر چکے، ہمارے ایک انکل ہوا کرتے تھے۔ عمر عزیز کی ساٹھ بہاریں دیکھ رکھی تھیں سو انتہائی پرہیز گار اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ مگر ریسلنگ دیکھنے کا انہیں جنون کی حد تک شوق تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈبلیو ڈبلیو ایف کا پرواگرام تو بند ہو چکا تھا لیکن ڈبلیو ڈبلیو ای نے ابھی اس کی جگہ نہیں لی تھی۔ لہذا سطحی قسم کی کشتیاں دیکھنے کو ملتی تھیں جس میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے داؤ پیچ سے زیادہ عریانیت کا سہارا لیا جاتا تھا۔
ایک دن کی بات ہے میں ان کے ساتھ بیٹھا اسی قبیل کی ایک کشتی دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک ان کی بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔ جب انکل کی نظر اپنی زوجہ ماجدہ پر پڑی تو اونچی آواز سے دہائی دینے لگے، ” کتنی بے حیاء اور بے غیرت ہیں یہ گوری چمڑی والیاں، انہیں ذرا شرم نہیں، ننگی ہو کے لڑنے آگئی ہیں۔”
آپس کی بات ہے میرا ٹک ٹاک سے واسطہ صرف اسی حد تک ہے کہ کسی جاننے والے نے دس پندرہ سیکنڈز کی کوئی ویڈیو وٹس ایپ کر دی کہ جس کے کونے میں ٹک ٹاک کا نشان ثبت ہوتا ہے۔ بس اس سے زیادہ نہ کبھی کچھ دیکھنے کو ملا اور نہ ہی کبھی جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سو ٹک ٹاک پر چاہے بے حیائی بال کھولے ناچے یا پھر شریف زادیاں مجرا فرمانے لگیں، ہم اس سے دور ہی رہے۔ جب کہ کچھ لوگ تسلی کے ساتھ راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ ایپلیکیشن بے حیائی کا گڑھ تھی لہذا بہت اچھا ہوا کہ اسے بند کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مزے کی بات ہے ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے اپنے انکل یاد آگئے جو ریسلنگ دیکھتے ہوئے خواتین ریسلرز کو صلواتیں سنانا بھی اپنا فرض سمجھتے تھے۔
قرآن پاک میں بے حیائی پھیلانے والوں پر سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اور اس کے علاوہ عورتوں کو بھی اپنی زینت چھپانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن کیا مردوں کے لئے یہ حکم نہیں آیا کہ تم اپنی نگاہیں بھی نیچی رکھو۔ صاحبو ! سیدھی سی بات ہے اگر آپ کے لئے اس میں فحاشی کا عنصر موجود ہے تو آپ اسے استعمال ہی نہ کریں۔
بات دراصل یہ ہے کہ نہ تو میں ٹک ٹاک کے حق میں ہوں اور نہ ہی اس کے خلاف کیوں کہ میرا تو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن آپ کی طرح میں بھی بے حیائی کا مخالف ضرور ہوں۔
یہاں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ٹک ٹاک پر بے حیائی کی وجہ سے پابندی لگائی ہے اور ہم اس حکومتی اقدام کی تائید کر کے اسے اخلاقی جواز فراہم کر رہے ہیں کہ کل کو وہ کوئی دوسرا پلیٹ فارم بھی فحاشی کا ناٹک رچا کر بند کر سکتی ہے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے وہ فیس بک ہو، ٹوئٹر ہو یا پھر گوگل، ہر جگہ پر ایسا مواد موجود ہے جسے ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ اور یہاں تو ایسے ایسے نابغے بھی موجود ہیں کہ جنہیں خبریں سناتی اک لڑکی میں بے حیائی نظر آنے لگتی ہے تو گمان غالب ہے کل کو کسی ایسے پلیٹ فارم کو بھی بے حیائی کا ٹھپا لگا کر بند کر دیا جائے جو حکومت وقت کی نکمی پالیسیوں کو ایکسپوز کر رہا ہو۔ اور ویسے بھی حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ وہ ٹک ٹاک پر پابندی لگاتی۔ کیوں کہ جب وہ تفریح کے ذرائع دینے سے قاصر ہے تو پھر اس کو واپس لینے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتی۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی سوچنے کے لائق ہے۔ ٹک ٹاک چونکہ ایک چائنہ میڈ ایپ ہے جو کہ دوسری ایپس کے مقابلے میں متعارف کروائی گئی تھی اور چین کے بدترین مخالف بھارت اور امریکہ نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے جب کہ اب ہم بھی اس بلاک کا حصہ بن چکے ہیں۔ تو کہیں ہماری حکومت بھی امریکہ بہادر کے ساتھ وعدہ ایفاء تو نہیں کر رہی؟ بے شک مجھے اندازہ ہے کہ ہماری حکومت اتنی گہری سوچ نہیں رکھتی کہ اس طرح کی ریشہ دوانیوں کا حصہ بنے۔ لیکن دوسری طرف انجان کی دوستی کی طرح ان سیانوں سے کچھ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply