• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • السّلام اے سیّدِ ہجویر قطب الاولیاء ۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

السّلام اے سیّدِ ہجویر قطب الاولیاء ۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لاہور‘ لاہور نہ ہوتا‘ اگر داتا کی نگری نہ ہوتا۔ داتا غریب نوازؒ نے اس شہر کو خوب نواز دیا ہے۔ باغوں کا شہر ، کالجوں کا شہر… ولیوں کا شہر بن گیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ہر ولی نے فیضِ عالمؒ سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔فیضِ عالمؒ کی گلیاں ولیوں کی گزرگاہیں ہیں۔ یہ لوگ مسجدیں آباد کرتے ہیں، شہر آباد کرتے ہیں، بلکہ انسانوں کے دل کی دنیا آباد کرتے ہیں… مُردہ دلوں کو حیات عطا کرتے ہیں… اور اَجرِ غیر ممنون کے حامل ٹھہرتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے! ایک نہ ختم ہونے والا اَجر اِن کا سرمایۂ حیات ہے۔ جس نے ایک شخص کو زندگی عطا کی ‘اُس نے گویا پوری نوعِ انسانی کو زندگی بخش دی۔ آیت میں بتصریح زندگی دینے کا ذکر ہے (محض زندگی بچانے کا ذکر مقصود نہیں)۔ جہل ‘موت ہے ، اور علم‘ زندگی ہے۔ ایک بھی روح کو علم آشنا کر کے جِلا بخش دی جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے جی اُٹھتی ہے، اُسے حیاتِ جاوداں مل جاتی ہے، وہ فنا کے دوزخ میں جلنے سے محفوظ رہتی ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ المعروف مولائے رومؒ رقم طراز ہیں کہ میں نے خدا سے کہا‘ میں تیری ذات کو جانے بغیر مرنا نہیں چاہتا، خدا نے جواب دیا ‘جو مجھے جان لیتا ہے وہ کبھی مرتا نہیں۔ بس یہی جاننا علم ہے، علم حقیقی ہے، وگرنہ علم کے نام پر تعلیمی ڈگریا ں ہیں، معاشی سرگرمیاں ہیں۔

جنہیں علم کی تلاش ہوتی ہے‘ وہ علم والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ جو علم سے بے زاری کا مظاہرہ کرتا ہے ٗوہ اپنے جہل پر مہر ثبت کرواتا ہے۔ علم ِ حقیقی ہی وہ خزانہ ہے ‘جو چُھپا ہواہے۔ جب اور جہاں ظاہر ہوتا ہے‘ ذات کی ذات تک رسائی سہل ہوجاتی ہے۔ خزانے کو گنج کہتے ہیں اور چھپے ہوئے خزانے کو گنجِ مخفی !! یہ گنجِ مخفی آشکار کرنے والے لوگ خود مخفی ہوتے ہیں… اس لیے انہیں بھی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ درحقیقت جس کی جوتلاش ہے ‘وہی اُس کی منزل ہے۔ فیضِ عالمؒ گنجِ علم و عرفان بخشتے ہیں، اس لیے انہیں گنج بخش کہتے ہیں۔ داتا ہندی کا لفظ ہے۔ دان کرنے والے کو داتا کہتے ہیں۔ یہ اللہ کے بندے کی صفت ہے۔ بندوں کی صفت سے اللہ کو موصوف کرنا شرک ضرور ہے۔ اللہ کی صفت سے بندوں کو متصف کرنے کا حکم تو قرآن میں موجود ہے… صبغۃ اللہ!! حکم ہے’’تخلقو بااخلاق اللہ‘‘۔ بندے اگر اللہ کے اخلاق سے خود کو متصف کریں تو عین حق ہے۔

اخلاقی صفات تو ایک طرف ، میرے داتا حضورؒ کی صفت ِ علم کا احاطہ بھی ممکن نہیں۔ اگر کسی کو بحرِ ذخار کی موجوں میں جولانی دیکھنی ہو تو لازم ہے کہ وہ ’’کشف المحجوب‘‘ کا مطالعہ کرے۔ ممکن ہے ‘ قاری اسے ثقیل سمجھ کر چھوڑ دے لیکن یہ ممکن نہیں کہ یہ کتاب اسے چھوڑ دے… یہ کتاب اس کی فکر کو لطیف کیے بنا نہیں چھوڑے گی۔ اس کا ہر ایک جملہ ایک مکمل مقالہ Thesis ہے۔اگر سرسری نہ گذرا جائے تو یہ گذرے ہوئے تمام علومِ الٰہیات کا احاطہ کرکے اس کا محاکمہ کرے گی۔ الٰہیات، تصوف و طریقت کے تمام رُموز اِس میں بصراحت مگر بالاختصار بیان کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہزار برس سے راہ نورادانِ شوق کے لیے یہ ایک نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔

مجھے ابھی تک یاد ہے ‘ ۱۳ جنوری ۱۹۸۵ء میں صبح دس بجے کے قریب مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سے پہلی ملاقات پر آپؒ نے جہاں اپنی کتاب ’’کرن کرن سورج” تحفے میں عطا کی ٗوہاں کشف المحجوب پڑھنے کی تاکید کی۔ تصوف کی یہ واحد کتاب ہے جو آپ ؒ پڑھنے کی اجازت دیا کرتے۔ ان دنوں یہ طالب علم مغرب کے فلسفے میں سرتاپا غرق تھا، دین سے زیادہ فلسفہ میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ راقم اُن دنوں ژاں پال سارتر کے فلسفہ لایعنیت میں الجھا ہوا تھا، لب لباب اس فلسفے کا یہ تھا کہ انسان کے پاس جو بھی علم ہے وہ حتمی اور حقیقی نہیں‘ اس لیے اس علم کی بنیاد پر وہ جو مقصد ِ حیات اخذ کرتا ہے وہ بھی قابل ِاعتبارنہیں، چنانچہ اس زندگی اور کائنات کا کوئی مقصد تلاش کرنا ایک کارِ عبث ہے۔ کشف المحجوب کے پہلے باب ’’اثباتِ علم‘‘ میں ایک جملے میں اس لایعنی فلسفے کا ایسا ردّ موجود تھا کہ یہ طالبعلم دم بخود رہ گیا۔ علم و عرفان کا فیض لٹانے والے میرے داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ علم کہ “کسی چیز کا صحیح علم حاصل نہیں ہو سکتا” درست ہے یا نہیں؟ اگر وہ کہیں کہ درست ہے تو بس علم کو انہوں نے خود ثابت کردیا اور اگر وہ کہیں کہ یہ درست نہیں ٗ تو جو بات درست نہ ہو ٗ اس کو حق کے خلاف پیش کرنا ناممکن ہے اور ایسے شخص سے گفتگو دانشمندی نہیں۔ سبحان اللہ! ایک ہی جملے میں فلسفہ لایعنیت کا بامعنی جواب موجود تھا۔ بس! پھر کیا تھا، وہ دن اور آج کا دن ‘ پینتیس برس ہو گئے ‘ مجھ سے کشف المحجوب نہ چھوٹ سکی۔ ایک ایک جملہ ایسی کیف آور دانائی سے مشکبار ہے کہ انسان ایک نشست میں چند جملوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا۔ ایسا بھی ہوا‘ کشف المحجوب کا ایک پیرا گراف پڑھنے کا بعد حاضری کی کوشش کی تو رعب ِ جلالِ علمی کے زیر اثر دربارِ اقدس کے اندر داخل ہونا بس سے باہر ہو گیا۔سیڑھیوں پر قدم رکھنے کی بجائے سر رکھنے کو دل چاہا۔ باہر ہی سے ہاتھ باندھ کر سلام کیا ‘اور واپس ہو لیا۔ جلوۂ ذات شاید جلالِ علم کی کوئی صورت ہے!!

داتا حضورؒ کی کشف المحجوب تک رسائی بھی بوسیلہ مرشدِ کامل ہی ممکن ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ہاں شاید ہی کوئی گفتگو کی نشست ایسی ہو‘جس میں کشف المحجوب یا صاحب ِ کشف المحجوب کا ذکر نہ ہو۔ “کشف المحجوب “میں درج واقعات کو آپؒ ہر بار اس انداز اور اس زاویے سے بیان کیا کرتے کہ معلوم ہوتا جیسے پہلی بار سن رہے ہیں، اور لطف یہ کہ معانی کا عطر ہر مرتبہ پہلے سے مختلف رنگ کا کشید کیا ہوتا۔ یہ ہنر‘ تبحّرِ علمی سے زیادہ تمسّکِ ذات کا آئینہ دار تھا۔ عُرس کے موقع پر آپؒ اکثر یہ بیان کرتے ، اور یہ بیان درحقیقت آپ بیتی ہی ہوا کرتی ۔۔۔ لیکن اَز راہِ اخفائے راز آپؒ اسے ’’اگر‘‘ کے پردے میں چُھپا جاتے… آپؒ بیان فرماتے کہ اگر تم کبھی عُرس کے موقع پر داتا صاحبؒ سے ملاقات کرو تو وہ تمہیں بتائیں گے کہ اِس عُرس پر بھی لاکھوں زائرین آئے لیکن مجھ سے ملنے کوئی نہیں آیا، یعنی جو مشن اور مقصد میں لے کر آیا ہوں‘ اسے لینے کیلئے کوئی نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دامان ِ طلب تو اپنا ہی تنگ ہے۔۔۔۔ وگرنہ اِس مشن میں حصہ پانے اور ڈالنے والوں کے قافلے میں بہت نامی ہستیاں گزری ہیں۔۔۔ یہاں سے بابا فریدؒ مقامِ فردیت کا جام لے کر گئے ، خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی ؒ غریب نوازی کا دسترخوان لے کر گئے،اور یہیں سے ہمارے حضرت واصف علی واصفؒ نے قلندری لی ، قطب ِ ارشاد کی مسند لی۔ میرے داتا حضورؒ کی اس یوینورسٹی سے فارغ التحصیل اَولیا کی فہرست اتنی طویل ہے کہ نام گنوانے پہ آئیں تو دامن ِ عبارت تنگ پڑ جائے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فیضِ عالمؒ سے اپنے اکتسابِ فیض کا اعلان یوں کیا:
کر گئی مجھ کو قلندر آپؒ کی شانِ عطا
بارگاہِ حُسن میں واصفؔ ہے راقم السلام!

ہمارے مرشد نے حضور فیض عالم ؒکی شان میں ایک سے بڑھ کر ایک منقبت تحریر کی، عرس کے موقع پر نعت خوانوں اور قوالوں کو اُن کی فرمائش پر فی البدیہہ لکھ دیا کرتے۔ استاد نصرت فتح علی خان کو استاد بنانے والی منقبت اُسےآپؒ کے قلم سے عطا ہوئی ۔ یہ اُس کی کیسٹ کا سب سے پہلا والیم تھا ’’داتاؒ کے غلاموں کو اب عید منانے دو‘‘ اس منقبت کے ایک شعر میں از راہِ التفات نصرت کا نام بھی لکھ دیا گیا ’’سہرا یہ حقیقت کا نصرت کو سنانے دو‘‘ اُس نے یہ منقبت عرس کے موقع پر پڑھی اور پھر…باقی اُس کی کامیابیوں کی داستان ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے معروف شعر کی زمین میں لکھی ہوئی یہ ہفت آسمان منقبت ایک قدِ آدم لوحِ سفید پر دربار کے مشرقی برآمدے میں نصب ہے۔ تئیس 23 اشعار پر مشتمل اس منقبت کا مطلعِ پُر انوار ہے:
السّلام اے سّید ہجویر قطب ِ اولیا
السّلام اے مرکزِ توحید انوارِ الٰہ

Advertisements
julia rana solicitors london

بحمدللہ! اِس منقبت کو درگاہِ اقدس میں نصب کروانے کی سعادت اس فقیر کے حصے میں آئی۔اپنے ماموں ابنِ نادرالقلم کی مشاورت سے اِس کی خطاطی معروف خطاط حافظ اصغرالقادری سے کروائی (اِن کے اُستاد محمد علی زاہد ہیں ٗ جن کی خطاطی کے نمونے مسجدِ نبویؐ میں اُن کے لیے باعثِ سعادت بن رہے ہیں) حافظ صاحب فقیر آدمی ہیں‘ اِنہوں نے لوحِ منقبت کے کسی کونے میں اپنا نام نہیں لکھا ( جو بحیثیت ِخطاط اِن کا حق تھا)۔ یہ فقیر ناقص ہے ‘ اِس نے اپنا نام تو نہیں لکھوایا‘ لیکن نیچے منحنی سے خط میں اپنے زیرِ ادارت رسالے ’’واصفؒ خیال‘‘ کا نام کندہ کروا دیا۔ فنائے کُلّی ہر کسی کا یوں نصیب نہیں۔درگاہِ فیضِ عالمؒ میں نصب حضرت واصف علی واصفؒ کی اِس منقبت کا ہرشعر اپنے ذی فہم قاری کو دریائے حیرت و انبساط میں لے جاتا ہے۔ مقطع ملاحظہ فرمائیں:
واصفؔ ِمسکیں چہ گوید ایں مقامِ حیرت است
خواجۂ من قبلۂ من گفت قولِ حق بجا
’’گنج بخش فیض ِ عالمؒ مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply