• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پاپی:خط کہانیاں،بھنورے میاں اور پینٹ ہاؤس/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط7،8)

پاپی:خط کہانیاں،بھنورے میاں اور پینٹ ہاؤس/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط7،8)

خط7
ڈئیررضوانہ !

یہ تو اچھا ہوا بالآ خر آپ نے اپنے منہ سے اعتراف کر ہی لیا کہ آپ وہی رضوانہ صدیقی ہیں جن کو میں تلاش کر رہا ہوں۔۔۔یہ علیحدہ بات کہ اب آپ رضوانہ حسین بن چکی ہیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ حسین کا کیا مطلب ہے۔ کیا آپ کے شوہر شیعہ تو نہیں ؟

میں تو ایک طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہوں اور پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات سے ناواقف ہوں۔میں نے چند پاکستانی دوستوں سے سنا ہے کہ پاکستان میں شیعہ خواتین اور حضرات سے تعصب برتا جاتا ہے۔ کسی نے یہ بھی بتایا کہ شیعہ ڈاکٹروں’انجینئروں اور بزنس مینز کی ٹارگٹ کلنگز بھی ہوتی ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ شیعہ خاندان میں شادی کرنے سے آپ کی جان تو کوئی خطرہ تو نہیں۔؟ خاص طور پر جب آپ کے شوہر سیاست میں بھی ملوث ہیں۔کیا وہ سیاسی پارٹی کے ممبر ہیں یا لیڈر؟ کیا وہ پرامن ارتقا پر ایمان رکھتے ہیں یا پرتشدد انقلاب پر؟ میں ایک امن پسند انسان دوست انسان ہوں۔ میں کسی عقیدے’ کسی نظریے یا کسی آدرش کے لیے معصوم انسانوں کے خون بہانے کے حق میں نہیں ہوں۔میں تو ایک شاعر اور ایک عاشق مزاج انسان ہوں جس کا ایمان ہے

MAKE LOVE NOT WAR

میں آپ کے خط میں وہ جملہ پڑھ کر بہت مسکرایا جس میں آپ نے مجھے بھنورے میاں بنا دیا۔ محترمہ میں میاں نہیں ہوں۔۔مجرد ہوں۔اکیلا ہوں۔ سنگل ہوں ویسے آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اردو زبان کا مزاج کیسا ہے وہ خدا کو بھی اللہ میاں بنا دیتی ہے۔ میں بھی خدا کی طرح اکیلا ہوں۔ مجھے اپنی زندگی کا پہلا شعر یاد آ رہا ہے

؎میں تنہا تھا و تنہا ہوں و تنہا رہنا چاہتا ہوں

میں تنہائی کی دنیا میں ہمیشہ بسنا چاہتا ہوں

آپ نے میرے پینٹ ہاؤس کے بارے میں پوچھا ہے۔ پینٹ ہاؤس بلڈنگ کی سب سے اوپر والی منزل پر ہوتا ہے۔ آسمان کے قریب خدا کے قریب۔ اس کا منظر زبردست۔۔۔اس کی بالکونی دلکش۔۔۔اور اس میں ایک خاص جیکوزی بھی ہوتی ہے۔ عورتیں دیکھتی ہیں تو ان کے دل میں ان کی تشنہ آرزوئیں ناچنے لگتی ہیں۔ الغرض پینٹ ہاؤس کا ماحول شاعرانہ ہوتا ہے۔ میں چونکہ شاعر ہوں اس لیے سوچا پینٹ ہاؤس میں رہنا حسبِ حال ہوگا۔

آپ کا خط پڑھ کر مجھے یوں ہی خیال آیا کہ کہیں آپ میری آزادی سے جیلس تو نہیں ہو رہیں؟ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے شوہر سے بات کروں اور مشورہ دوں کہ

SUPPORT WOMEN’S LIBERATION…DIVORCE YOUR WIFE

ڈئیررضوانہ !

میں آزاد خیال بھی ہوں آزاد منش بھی اور آزاد روش بھی۔لیکن مجھے اس آزادی کی زندگی کے ہر موڑ پر قیمت ادا کرنی پڑی۔ اپنوں اور پرائیوں کی ناراضگیاں برداشت کرنی پڑیں۔میں نے اپنی آزادی کی اتنی قیمت ادا کی کہ اب وہ مجھے قیمتی محسوس ہوتی ہے۔

جب میں نے یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر لی اور پاکستان سے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا تو ایک دن میری والدہ میرے کمرے میں آئیں اور مجھ سے بڑی اپنائیت سے پوچھنے لگیں

عرفان بیٹا ! تمہارا اپنی کزن ساجدہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

میں نے کہا وہ خوبصورت ہے ذہین ہے خوش مزاج ہے

کہنے لگیں شادی کر لو ملک سے باہر جانے سے پہلے شادی کر لو پھر وہ تمہیں بار بار پاکستان لائے گی ورنہ تم واپس نہ آؤ گے گوریوں کے ہی ہو جاؤ گے۔

میں نے کہا میں شادی نہیں کرنا چاہتا اور اگر کی بھی تو کزن سے نہیں کروں گا۔

میری والدہ اداس ہو گئیں۔ وہ اپنی آزادی کی بھاری قیمت تھی۔

مجھے اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایک مرد کے لیے شادی سے انکار کرنا آسان لیکن ایک عورت کے لیے مشکل ہے۔ لیکن مجھے یہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ آپ کے ساتھ نہ صرف آپ کی پروفیسر بلکہ آپ کی ماں نے بھی زیادتی کی۔ آپ اردو میں ایم  اے کر کے پروفیسر بن جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔

کبھی کبھار عورتیں ہی عورتوں پر ظلم و ستم ڈھاتی ہیں۔

مجھے آپ سے ہمدردی ہونے لگی ہے۔

آپ کو شادی کے بعد اپنے شوہر اور سسرال کے بارے میں کیا پتہ چلا۔ مجھے بھی کچھ بتائیں۔

جہاں تک میری رومانوی زندگی کا تعلق ہے۔ میں نے پچھلے چند سالوں میں کئی عورتوں سے محبت کی’ پیار کیا’ عشق کیا۔ ان کی زلف کا اسیر ہوا لیکن ان سب کا انجام

؎عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

مجھے اب اندازہ ہو رہا ہے کہ مشرق میں نوجوانوں کو کسی خیالی محبوبہ کے بارے میں محبت بھرے شعر تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن کسی محبوبہ سےمحبت کرنا نہیں سکھایا جاتا۔۔۔کیونکہ راستے میں مذہب اور روایت کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

؎اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں

نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا

ڈئیررضوانہ!

آپ سات سمندر پار ہیں لیکن دل کے قریب محسوس ہوتی ہیں۔ ایک دوست کی طرح ایک ہمدرد کی طرح ایک ہمراز کی طرح۔

یوں لگتا ہے آپ سے ایک خاص تعلق بنتا جا رہا ہے۔

آپ کا خصوصی دوست

عرفان قمر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خط نمبر 8
برقعے والی

ڈئیرعرفان!

تم نے تو کمال ہی کردیا۔ میں دوپہر کو کڑھی بنارہی تھی۔ کڑھی کے اندر پکوڑے ڈبوتے ہوئی مجھے اچانک ایک پکوڑے میں تمہاری شبیہہ نظر آئی ۔ ایسا لگا کہ کڑھی میں پکوڑا نہیں بلکہ تمہاری تصویر ڈول رہی ہے ۔ مجھے خیال آیا کہ تم نے مجھے اپنے لمبے بالوں والی جو تصویر بھیجی تھی وہ میں نے دیکھ تو لی تھی مگر اس کا خط میں تذکرہ کرنا بھول گئی تھی۔ کیا واقعی تم نے مستقل اتنے لمبے بال رکھے ہوئے ہوئے ہیں؟ پونی ٹیل باندھتے ہو؟ تمہارے ہی جیسے لمبے بالوں والے ایک لڑکے کو جو پونی ٹیل باندھتا تھا میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک بار دیکھا تھا اور دیکھتی رہ گئی تھی ۔ اس دن میرا شوہر ساتھ تھا اور ہم عید کی شاپنگ کے لیئے نکلے تھے ۔ میرے شوہر نے مجھے اس لڑکے کو دیر تک دیکھتے دیکھا تو مجھے کندھا مار کر بولا

” کیا دیکھ رہی ہو؟ نقاب چہرے پہ ٹھیک سے ڈھانپو“ ۔ چونک گئے نا!

ہاں میں برقعہ پہنتی ہوں ۔ شادی کی رات شوہر نے مجھے دو تحفے دیے تھے ۔ ایک باریک سی ایک تولے سے بھی کم وزن کی انگوٹھی اور ایک سیاہ برقعہ۔ پہلی بار برقعہ پہنتے ہوئے میں نے شوہر سے خوب لڑائی کی تھی ۔ ”اگر تمھیں برقعے والی ہی چاہیئےتھی تو ایک آزاد خیال ، مقررہ، شاعری کی دلدادہ ، گلوکارہ لڑکی سے کیوں شادی کی؟ لےآتے کسی مذہبی خاندان کی برقعہ پوش لڑکی کو“ میرے شوہر نے یہ سن کر بلند آواز قہقہہ لگاکر کہا تھا ”کسی ماڈرن لڑکی کو بیوی بناکر برقعہ پہنانا میری آرزو تھی ۔ تمہارا تڑپنا مچلنا اور برقعے میں گھٹنا میری مردانگی کو سکون بخشتا ہے“ دیکھ لو میرا شوہر ایسا ہے ۔ مردانگی اور انا کے خول میں لپٹا ایک غیررومانی وحشی ۔اب تو میں نے اس سے لڑنا بھی چھوڑدیا ہے ۔ جو اپنی مرضی کا کرنا ہوتا ہے خاموشی سے کرلیتی ہوں ۔ وہ کونسا روز روز گھر آتا ہے ۔ اسے اپنی پارٹی سے فرصت ہو تب نا!

لو! کہاں سے کہاں نکل گئی۔ لمبے بالوں میں تمھیں دیکھ کر میں سمجھ گئی ہوں کہ تمھیں منفرد دکھائی دینے کا شوق ہے ۔ یہ تمہارے جیسے شاعروں’ مصوروں اور دانشوروں کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ وہ الگ نظر آئیں ۔ تمہاری تصویر دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آیا

؎اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر

کب پرند اڑنہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

جب تمہاری شبیہ کڑھی کے پکوڑے میں نظر آئی تو میں تمہارے یاد کے پیچھے ہی چل پڑی ۔ کڑھی کو بگھار دیا اور پتیلی پر ڈھکن ڈھانپ کر مصالحوں کے ریک پر پڑا موبائیل اٹھایا اور تمہاری تصویر دیکھنے لگی ۔ عین اسی وقت ایک بیپ بجی۔ ای میل میں تمہارا خط آچکا تھا ۔ صرف چار گھنٹے بعد جواب ۔ عرفان تمھیں کوئی کام وام ہے بھی کہ نہیں؟ میں نے باورچی خانے کا کام ختم کیا اور کمرے میں آگئی ۔ میرے دونوں بچوں کو ان کا بڑا ماموں چار دن کے لیئے اپنے گھر لےگیا ہے۔ بچوں کی چھٹیاں ہیں نا۔ اسی لیے میں بھی فرصت سے ہوں ۔ ابھی بجلی جانے میں دو گھنٹے ہیں ۔ تمھیں پتہ ہی ہوگا ہم پاکستانی لوڈشیڈنگ میں رہتے ہیں ۔ اب بستر پہ لیٹے تمہارا خط پڑھ رہی ہوں۔ اف تم نے تو ایک ہی خط میں اتنا کچھ پوچھ ڈالا کہ شاید ان کے جوابات دس خطوط میں بھی پورے نہ ہوں۔ تم نے لکھا ہے کہ تمھیں مجھ سےہمدردی ہوگئی ہے ۔ پلیز ہمدردی نہ کرنا ۔ مجھے ہمدردوں اور ہمدردی سے نفرت ہے ۔ جسے اپنا مطلب نکالنا ہو وہ ہمدردی کے نام کی تختی اٹھاکر چلا آتا ہے۔ میں تمھیں دوست سمجھتی ہوں اسی لیے اپنے برسوں کے گھٹے گھٹے جیون کی باتیں سنا کر جی ہلکا کررہی ہوں ۔ میرا اب تک کا تجربہ کہتا ہے کہ ایک عورت کبھی کسی دوسرے عورت کی رازدار دوست نہیں ہوسکتی ۔ تم نے میری کالج لائف اور میرا وہ آزاد وقت دیکھا ہے اسی لیے میں اب تمھیں اپنی داستان سنانا چاہتی ہوں ۔ تمھیں بھی تجسس ہےنا کہ میں کیونکر اپنی اردو کی پروفیسر اور والدین کے جھانسے میں آکر بیاہ دی گئی ۔ یہ قصہ اگلے خط میں

اس بار تھوڑی سی تمہاری کلاس لےلوں ۔ میں تمہاری آزاد زندگی سے جلتی نہیں اس پر رشک کرتی ہوں ۔ تم مرد کب کہیں بندھے ہو؟ بھیڑ بکریاں تو ہم عورتیں ہیں ۔ یہ تم نے پہلے خط سے تنہا تنہا کی کیا رٹ لگارکھی ہے؟ اردگرد تتلیوں کا جھمگھٹا ۔ پینٹ ہاؤس ۔ پتہ نہیں کتنی حسیناؤں کا آنا جانا پھر تنہا کیسے؟ اور خبردار جو آئندہ خود کو خدا سے ملایا۔ لگتا ہے آزاد فضاؤں نے تمھیں ملحد بھی بنادیا ہے ۔ یہ خدا ہی ہے جس نے مجھے اور تمھیں یوں برسوں بعد ملایا ہے ۔ تمھیں کینیڈا لےگیا ہے اور تمہاری زندگی میں اتنی خوشیاں بھری ہیں۔ تم مجھے کچھ خطرناک سے بھی لگتے ہو ۔ یہ تم نے کس طرح منہ کھول کر کہہ دیا کہ تم میرے شوہر سے بات کرکے اسے مشورہ دےسکتے ہو کہ عورت کی آزادی کا احترام کرے اور مجھے طلاق دےدے۔ تمھیں کہاں سے لگا کہ میں اس سے طلاق لینا چاہتی ہوں؟ یہ فضول سوچ تمھیں مبارک ہو ۔ ایک بات بتاؤں تم نے اگر اپنی ماں کی بات مان کر اپنی کزن ساجدہ سے شادی کرلی ہوتی تو آج یہ تنہائی کے روگ میں مبتلا نہ ہوتے ۔ جاؤ جاکر اپنی ماں سے معافی مانگو اور جب اس سے ملنے پاکستان آؤ تو چند گھڑی کے لیے مجھ سے بھی مل لینا۔ مگر میں تمھیں اپنے شوہر سے کبھی نہیں ملواؤں گی نہ ہی تمھیں اپنے گھر کا ایڈریس دوں گی ۔ تم پر اعتبار آتے آتے تمہارے اس بار کے خط کی باتیں پڑھ کر کم ہوگیا ہے ۔ تم پکے بھنورے ہو ، پھولوں کا رس چوس کر اڑجانے والے ۔ تم نے مجھے بھی نیا روگ لگادیا ہے ۔ تمہارے خط پڑھنے اور جواب دینے کا روگ ۔ ہاں میرا شوہر شیعہ ہے اور میں سنّی ۔ عموماً شیعہ سنی گھرانوں میں شادیاں نہیں ہوتیں مگر اس کے باوجود میری اردو کی پروفیسر مجھے اپنے بھائی سے اتنی جلدی کیوں بیاہ کرلےگئی تھی اس کا اندازہ مجھے شادی کے کئی سالوں بعد ہوا۔ ہم پاکستانی درحقیقت ایران اور سعودی عرب کی جنگ اپنے ملک کے اندر لڑرہے ہیں ۔ اس میں امریکہ بھی شامل ہے اور ہماری سیاسی پارٹیاں اور فوج بھی ۔ میں اپنی شوہر کی پارٹی کے اجلاس کی کارروائی بھی سنتی ہوں اور دیگر لیڈران کی پرائیویٹ مجلسوں کی گفتگو بھی ۔ ان سبھوں نے مل کر عوام کو الو بنایا ہوا ہے ۔ ان کے اندر فرقوں کا زہر بھرکر ان کی جذباتیت سے اپنی سیاست چلاتے ہیں ۔ ایک خانہ جنگی سی کیفیت ہے ۔ کبھی تفصیل سے بات ہوگی اس پر آنکھوں دیکھے واقعات کے ساتھ ۔ یہ سچ ہے کہ اس میں ہمارے پاکستانی شیعوں کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے ۔ اگر دیکھیں تو یہ اصل میں پاکستان اور اس کے وجود کا نقصان ہے اور اسی نقصان سے مذہبی رہنما فائدہ اٹھارہے ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں سنی بریلوی وہابی یا کوئی اور ۔ ویسے کیا تمہارا ہر معاملے میں جھانکنا ضروری ہے؟

لگتا ہے تمہارے دل کے کسی کونے میں اب بھی پاکستان بستا ہے ۔ میرا خیال ہے اب اتنا کافی ہے ۔ شام کی ایک چھوٹی سی نیند لےلوں۔

کیا خبر خواب میں ہی تم چلے آؤ۔

رضوانہ

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply