شعور و آگہی کا پیامبر ڈاکٹر بلند اقبال۔۔عبدالستار

نیٹ ورکنگ اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں بک ریڈنگ کا رجحان ماندسا پڑتا جا رہا ہے اور ای بک کلچر بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے اور آج کا انسان اس تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کیونکہ یہ انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ اس سارے پراسس میں انسان کا کاغذ کے ساتھ جو ابتدائی رشتہ تھا وہ کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ای بک کلچر جہاں ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑا انقلاب لے کر آیا ہے وہیں اس نے ہمیں ایک طرح سے سہل پسند بھی بنا دیاہے ۔کتاب کلچر کے ساتھ جڑے ہوئے لوازمات یعنی کتاب ریڈنگ کے دوران اہم موضوعات کو ہائی لائٹ کرنا ،نوٹس بنانا اور مشکل لائنوں کی گہرائیوں میں اترنے کے لیے مددگار کتابوں کو بروئے کار لاکر معنی کی گہرائی میں اترنے کا عمل کتنا دلکش اور دلفریب ہوتا ہے اس کی چاشنی کو صرف ایک کتاب پڑھنے والاہی محسوس کر سکتا ہے۔شعوری طور پر سیکھنے اور جاننے کا عمل بہت مشکل اور کٹھن ہوتا ہے اسی وجہ سے اس طرح کے سر پھرے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ان لوگوں کی زندگی کا محور اپنی ذات کے حقیقی سچ کو جاننا ہوتا ہے ۔حقیقی ذہانت کا تعلق نصابی کتب سے بالکل بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق غیر نصابی سرگرمیوں سے ہوتا ہے ۔نصابی سوچ فکر کے آگے طے شدہ جوابات کی صورت میں ایک رکاوٹی دیوار تعمیر کردیتی ہے اور اس دیوار کے پار جھانکنا ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے ۔آج کے دور میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو غیر نصابی سوچ کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور نئی نسل کو زندگی کے مختلف رنگوں سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے “کینڈا راول ٹی وی ” پر ایک غیر روایتی پروگرام “پاس ورڈ “کے نام سے نشر ہوتا تھا ۔یہ پروگرام کیا تھا بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک جہانِ دانش تھا جس میں بڑی علمی قدآور شخصیات مہمان بنتی تھیں اور علم و آگہی کے قمقمے ٹمٹمانے لگتے تھے۔اس پروگرام کی خاص بات میزبان کے تیکھے اور چبھتے سوالات ہوا کرتے تھے جن کا سامنا اس پروگرام کی مہمان علمی شخصیات کو کرنا پڑتا تھا اور گفتگو کا پیٹرن بہت ہی بے باک اور اوپن ہوتا تھا ۔اس پروگرام کے روح رواں ایک مشہور افسانہ نگار ،ناول نگار ،ادیب اور فزیشن ڈاکٹر بلند اقبال تھے جوکہ ترقی پسند دانشور حمایت علی شاعر کے فرمانبردار بیٹے ہیں اور کینڈا میں مقیم ہیں ۔ان پروگرام کے ذریعے سے بلند اقبال نے شعور وآگہی کی وہ شمع جلائی کہ جس سے ہمارے جیسے معاشرے کے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ان پروگرامز میں ایسے ایسے موضوع ڈسکس کیے گئے کہ جن کی ہمارے سماج میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔پاس ورڈ کے پروگرامز میں مذہب ،سیاست ،پردے کا تصور ،تصور خدا ،طلاق کا تصور ،رہبانیت اور وحی کا تصور ،فائن آرٹ کا تصور ،روحانیت کا تصور،عورت کی آزادی کا تصور اور اس کے علاوہ الحاد ،دہریت اور اگناسٹک جیسے بڑے بڑے موضوعات کو ڈسکس کیا گیا ۔میری آشنائی ڈاکٹر بلند اقبال کے ساتھ انہی پروگرامز کی مناسبت سے ہوئی۔اس علمی پروگرام کی وجہ سے ہمارا تعارف ایسی ایسی علمی شخصیات سے ہوا جو کہ اپنے میدانوں کے شہ سوار تھے۔ان علمی شخصیات میں ڈاکٹر خالدسہیل ،منیر پرویز سامی ،پرویز ہودبھائی ،ڈاکٹر مبارک علی ،جاوید دانش ،سائیں سُچا،حمید بھاشانی ،ستیہ پال آنند ،سعید ابراہیم ،مرزا یاسین بیگ اور ارشد محمود جیسی شخصیات شامل تھیں۔پاس ورڈ پروگرامز کی لگ بھگ 200اقساط یوٹیوب پر موجود ہیں اور جو صاحبانِ علم اپنی فکر کو جلا بخشنے کے شائق ہیں وہ ان سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ڈاکٹر بلند اقبال آج کل ایک اور شاہکار پروگرام کینیڈا ون ٹی وی پر “دی لائبریری ودِ ڈاکٹر بلند اقبال”کے نام سے کر رہے ہیں ۔اس پروگرام کا فارمیٹ بہت ہی دلچسپ اور منفرد ہے ۔اس پروگرام میں وہ کسی بھی شاہکار تصنیف کا مطالعہ کر کے آتے ہیں اور اس کتاب کا نچوڑ اور خلاصہ تقریباََ 20منٹ میں پیش کر دیتے ہیں ۔اس پروگرام میں ایسی شاہکارکتابیں ڈسکس ہو چکی ہیں کہ جن کاشاید ہم نے صرف نام ہی سنا تھا پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ہمارے اس گھٹن زدہ سماج میں کچھ ایسے دانشور بھی ہیں جو ہمیں ادب کی غیر ملکی شخصیات کا حوالہ صرف رعب ڈالنے کے لیے دیتے ہیں مگر ان شخصیات کو ڈسکس کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ۔ڈاکٹر بلنداقبال نے اس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور مشکل سے مشکل کتاب کا نچوڑ کچھ ایسے انداز میں پیش کردیتے ہیں کہ نئے سیکھنے اور جاننے والوں کے لیے بڑی آسانی ہو جاتی ہے ۔اس پروگرام میں لگ بھگ 23کتابیں ڈسکس ہوچکی ہیں ۔ان کتابوں میں ورجینیا وولف کی کتاب “ٹو دی وائٹ ہاؤس”،شہزاد احمد کی کتاب “آپ سوچتے کیوں نہیں “،مبارک حیدر کی کتاب “تہذیبی نرگسیت “،یووال نوح حراری کی کتاب “اکیسویں صدی کے لیےاکیس اسباق”،دوستووسکی کی کتاب “کرائم اینڈپنشمِنٹ”اور اس کے علاوہ نطشے ،برٹرینڈرسل اور رچرڈڈاکنز کی کتاب بھی ڈسکس ہوچکی ہیں ۔بلنداقبال کے سنگ دانائی کا یہ سفر جاری ہے اور شعور و آگہی کے طالب علموں کو بھی اس سفر کا حصہ بن جانا چاہیے۔اس پروگرام کا اہم مقصد کتاب کلچر کو فروغ دینا ہے اور نصابی سوچ سے باہر نکل کر خود کو جاننا اور پہچاننا ہے ۔تجسس ،جستجو،حیرت ،کیا ،کیوں اور کیسے کی گردان اور ہر روز نیا جاننے کی خواہش یہ ایک طالب علم کے دانائی کے اوزار ہوتے ہیں ۔اس کے بغیر دانائی و شعور کے در وانہیں ہوسکتے مگر ہمارے سماج میں ایسے کوئی ادارے موجود نہیں ہیں جو ایک طالب علم کی سوال کرنے کی جستجو کو پالش کر سکیں اور اس کی حیرت کو بڑھاوا دے سکیں۔بلنداقبال نے اپنے پروگرام کے ذریعے سے اس بات کی کوشش کی ہے کہ لوگ سوچنے پر آمادہ ہوں اور اپنے اندازِفکر میں کریٹیکل تھنکنگ کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھائیں۔ان کا ماننا ہے کہ ریشنیلٹی اور تشکیک کو ساتھ ساتھ چلنا چاہیے ۔سوچنے کی نئی سے نئی راہیں ڈھونڈنے والے یہ لوگ انسانیت کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ہمارے گھٹن زدہ سماج کے لیے “دِی لائبریری وِدڈاکٹر بلنداقبال”کے نام سے علم و شعور کا دیا جلانے پر ڈاکٹر بلند اقبال مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply