کوانٹم کی دریافت (59)۔۔وہاراامباکر

پلانک نے بلیک باڈی ریڈی ایشن کا مسئلہ ایٹم کے تصور کی مدد کے بغیر حل کرنے کی تھیوری پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور انہوں نے اس کو حاصل کر لیا تھا۔ لیکن ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ فارمولا ایک تکا لگایا گیا تھا جو کام کر گیا تھا۔ ان کی کامیابی ان کے لئے بہت خوشی کا باعث بھی تھی اور بہت ہی فرسٹریشن کا بھی۔ اب ان کا اگلا مسئلہ یہ تھا کہ“یہ فارمولا کام کیوں کرتا ہے؟”۔

پلانک نے اس کے لئے ایک اور سائنسدان کی مدد حاصل کی۔ یہ سائنسدان بولٹزمین تھے جو ایٹم کے تصور کے بڑے وکیل تھے اور دہائیوں سے اُس چیز کے لئے لڑ رہے تھے جو پلانک غلط ثابت کرنا چاہ رہے تھے (بولٹزمین کو اس دوران خاص کامیابی نہیں ہوئی تھی)۔

اور یہاں پر ہمیں رک کر پلانک کے اس قدم کو ایک بار پھر دیکھنا چاہیے۔ پلانک کا بڑا آئیڈیا ایٹم کی مخالفت تھا۔ بولٹزمین کا بڑا آئیڈیا ایٹم کی حمایت تھا۔ پلانک کا بولٹزمین کی تحقیق کی طرف رخ کرنا ایک ایسا کام ہے جسے سراہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ فکری طور پر اپنے بالکل متضاد کی طرف جانا اور ایسے خیالات کو کشادہ ذہنی سے ذہن میں جگہ دینا جو آپ کے تصورات کے الٹ ہیں۔ یہ پلانک کی جرات تھی۔ اور یہ وہ بات تھی جس وجہ سے آئن سٹائن پلانک کا بہت احترام کرتے تھے۔

سائنس کو ایسے ہی کیا جانا چاہیے، لیکن سائنس عمومی طور پر ایسے کی نہیں جاتی۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ سائنسدان کوئی دوسری مخلوق نہیں، انسان ہیں اور انسانی ذہن ایسے کام نہیں کرتا۔ بزنس ہو یا سیاست، پرانے خیالات ہوں یا ادارے۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ یہ بدل جائیں یا بدل بھی سکیں۔ نئے آنے والے انہیں پچھاڑ دیتے ہیں۔ ان کو نئے عہد میں غیرمتعلقہ کر دیتے ہیں۔

جیسا کہ پلانک نے بعد میں کہا، “نئے سچ اپنے مخالفین کو قائل کرنے سے نہیں جیتتے۔ بلکہ اس لئے کہ ان کے مخالفین بالآخر فوت ہو جاتے ہیں اور نئی نسل نئے سچ کے ساتھ بڑی ہوتی ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بولٹزمین کے تھرموڈائنامکس کی شماریاتی وضاحت کے کام میں پلانک نے نوٹ کیا کہ اس وضاحت کے لئے ریاضی کا ایک کرتب استعمال کئے جانا ضروری تھا۔ اس حربے میں ایسا تصور کیا جائے کہ گویا توانائی پیکٹ کی شکل میں آ رہی ہے۔ بولٹزمین اس درمیانہ سٹیپ کو کر لینے کے بعد اس پیکٹ کا سائز صفر کے قریب لے جاتے تھے یعنی یہ مسلسل ہو جاتی تھی۔ لیکن پلانک نے دریافت کیا کہ بولٹزمین کے طریقے کا اگر بلیک باڈی پر اطلاق کیا جائے تو پلانک کا فارمولا مل جاتا ہے۔ صرف یہ کہ انہیں آخری سٹیپ چھوڑ دینا پڑتا ہے یعنی توانائی کو پیکٹ کی صورت میں رہنے دینا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ بہت چھوٹے پیکٹ تھے۔ پلانک نے توانائی کے اس بنیادی پورشن کو کوانٹم کا نام دیا (جس کا مطلب لاطینی میں “کتنا” کے تھے)۔

اور یوں سائنس میں کوانٹم کے تصور نے جنم لیا۔

کوانٹم تھیوری کسی سائنسدان کی کسی گہرے اصول تک پہنچنے کی انتھک محنت کے ذریعے منطقی کیلکولیشن تک پہنچنے کا نتیجہ نہیں تھی یا کسی کی نئی فلاسفی آف فزکس بنانے کی کاوش کے نتیجے میں نہیں شروع ہوئی بلکہ ویسے تھی جیسے کوئی باورچی آٹے کو مائیکروسکوپ سے دیکھ رہا ہو اور یہ دیکھے کہ آٹا بھی انڈوں کی طرح ناقابلِ تقسیم یونٹ میں آتا ہے۔

پلانک نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ اس پورشن کا سائز روشنی کی مختلف فریکوئنسی کے لئے مختلف ہے۔ ہر رنگ کی روشنی کا اپنا سائز ہے۔ اور پھر یہ کہ روشنی کی توانائی کے کوانٹم کا تناسب روشنی کی فریکونسی سے ہے۔ اور اس کو ہم آج پلانک کانسٹنٹ کہتے ہیں۔ اگر پلانک بولٹزمین کا آخری سٹیپ استعمال کر لیتے اور اس کو صفر کر دیتے تو توانائی مسلسل ہو جاتی لیکن تجرباتی نتائج اس کا ساتھ نہ دیتے۔ پلانک کا فارمولا یہ بتا رہا تھا کہ کم از کم جہاں تک بلیک باڈی کا تعلق ہے ۔۔۔ توانائی چھوٹے اور بنیادی پیکٹوں کی صورت میں تصور کی جائے تو ہی اس کی وضاحت ممکن ہو سکتی ہے۔

پلانک کا ایک مسئلہ تو حل ہو گیا تھا۔ اب اس سے اگلا شروع ہو گیا۔ آخر اس تھیوری کا مطلب کیا ہے؟ پلانک کو اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ناسمجھ آنے والے اندازے کی وضاحت ایک نہ سمجھ آنے والی تھیوری سے کر دی تھی۔ دسمبر 1900 میں انہوں نے اسے برلن فزیکل سوسائٹی کے سامنے پیش کر دیا۔ آج اس کو کوانٹم تھیوری کی پیدائش کا وقت کہا جاتا ہے اور اس پر پلانک کو 1918 میں نوبل پرائز ملا۔ اس نے فزکس کے فیلڈ کو الٹا کر رکھ دیا لیکن جب یہ پیش کی جا رہی تھی تو نہ ہی پیش کرنے والے کو اور نہ ہی اسے سننے والوں کو اس کا کوئی اندازہ تھا۔

زیادہ تر سائنسدانوں کی نظر میں پلانک کی بلیک باڈی پر کی گئی طویل سٹڈی اور نکالے گئے حل نے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا تھا۔ اور یہ پہلے سے زیادہ پرسرار ہو گئی تھی۔ ایسی تھیوری کا کیا فائدہ؟ پلانک نے اپنے تجربے سے ایک اہم بات سیکھی تھی۔ انہوں نے بلیک باڈی ری ایشن کو جس تصور کے ذریعے سمجھا تھا اس میں سیاہ میٹیریل ننھے سے oscillators سے بنا تھا۔ اور اس سے پلانک آخرکار اس کے قائل ہو گئے تھے کہ ایٹم اور مالیکیول اصل ہیں، فرضی نہیں۔ لیکن اس وقت کوئی بھی یہ تصور بھی نہیں کر سکا تھا کہ ان کے بیان کردہ کوانٹا بھی نیچر کی بنیادی خاصیت ہیں۔

پلان کے کچھ ہم عصروں کا خیال تھا کہ پلانک کے بلیک باڈی فارمولا کا ایسا حل مل جائے گا جس کے لئے کوانٹم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کچھ کا خیال تھا کہ کوانٹم کی وضاحت کسی روز ہو جائے گی کہ یہ نیچر کا بنیادی اصول نہیں ہے بلکہ میٹیریل کی کسی ایسی خاصیت سے نکلنے والا نتیجہ ہے جو نامعلوم ہے لیکن اس کی وضاحت فزکس کے مروجہ تصور کے تحت ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر ایٹم کے اندرونی سٹرکچر کی کوئی مکینیکل پراپرٹی ہے یا ایٹموں کے آپس میں تعامل کے طریقے کی وجہ سے ہے۔ اور کچھ فزسٹ ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ پلانک کا کیا گیا کام تُک بازی ہے جس کا سائنس سے تعلق نہیں، خواہ اس کا تجرباتی ڈیٹا سے اتفاق ہو۔

ایک مشہور فزسٹ سر جیمز جینز اس پرابلم پر کام کرتے رہے تھے لیکن فارمولا نہ نکال سکے تھے۔ ان کا کہنا تھا، “جی ہاں، مجھے معلوم ہے کہ پلانک کا قانون تجرباتی ڈیٹا سے اچھی طرح اتفاق رکھتا ہے جبکہ تجرباتی ڈیٹا میرے قانون سے متفق نہیں، جس میں اس کانسٹینٹ کو صفر رکھا گیا ہے، ۔ لیکن میں اس پر قائل نہیں ہو سکتا۔ اس کی ویلیو صفر کے سوا کچھ اور ہونا ممکن نہیں ہے”۔ دوسرے الفاط میں یہ کہ تجرباتی مشاہدات ایک مسئلہ ہیں، لیکن بہتر یہ ہو گا کہ ان کو نظرانداز کر دیا جائے۔ یا کہ جیسا رابرٹ فراسٹ نے 1914 میں لکھا تھا کہ “آخر کسی یقین کو ترک کیوں کیا جائے۔ محض اس لئے کہ یہ اب سچ نہیں رہا؟”۔

خلاصہ یہ کہ جیمز جینز کو تنگ کرنے کے علاوہ، پلانک کے کام نے کوئی خاص تہلکہ نہیں مچایا۔ اس کو نظرانداز کر دیا۔ خواہ غلط سمجھ کر، یا غیراہم سمجھ کر۔ اگلے پانچ سال تک کسی نے بھی ان کی تحقیق کو آگے نہیں بڑھایا، نہ خود انہوں نے اور نہ ہی کسی اور نے۔

کوانٹم دریافت ہونے کے بعد پس منظر میں چلا گیا۔ اگلے پانچ سال تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ سال آ گیا جو فزکس کی تاریخ کا اہم ترین سال کہا جا سکتا ہے۔ 1905، جو آئن سٹائن کا سال تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply