• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ(تیسرا حصہ)۔۔محمد شاہزیب صدیقی

نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ(تیسرا حصہ)۔۔محمد شاہزیب صدیقی

مریخ ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے خوبصورت سیارہ ہے،اس کو دیکھنے میں اپنائیت کا احساس اُبھرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قدیم اور جدید دونوں زمانوں میں یہ حضرتِ انسان کو اپنی جانب کھینچتا دکھائی دیتا ہے، ہم مریخ کے متعلق بات کرتے ہوئے انتہائی انہماک سے سنتے ہیں، کیونکہ یہ ہمیں اپنے جیسا لگتا ہے، جیسے ہمارا دوسرا گھر ہو۔ہم نے پچھلی اقساط میں سمجھا کہ کیسے مریخ پر پانی کے وسیع ذخائر کی موجودگی کے واضح شواہد مل چکے ہیں جس وجہ سے ہمیں شک گزرتا ہے کہ زندگی کی کوئی قسم شاید مریخ کی سطح کے نیچے بھی موجود ہوکیونکہ جدید تحقیق یہ بھی بتاتی ہیں کہ مریخ پر وہ عناصر موجود ہیں جو زندگی کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ چونکہ انسان فطرتاً متجسس ہے،نئے جہانوں کو کھوجنے کا عادی ہے،لہٰذا یہ ممکن نہیں تھا کہ اتنا سب جان لینے کے بعد بھی انسان زمین پر پُرسکون ہوکر ٹِکا رہتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنی علمی پیاس بھُجانے کی خاطر حضرتِ انسان نے مریخ پر ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ جہاں ایک گروہ کے مطابق خودکشی کے مترادف ہے تو وہیں دوسرا گروہ کائناتی اندھیرے میں امید کی کرن کے طور پہ اس opportunity کو دیکھتا ہے۔
مریخ پر انسانی آبادکاری کے منصوبوں کی بازگشت کئی دہائیوں سے سنائی دے رہی ہے لیکن اس خواب کے شرمندہ تعبیر نہ ہوپانے کی ایک بڑی وجہ اس مشن کا مہنگا ہوناہے! اب تک کے اندازوں کے مطابق انسان کو مریخ پر پہنچانے کے لئے 500 ارب ڈالرز کا خرچہ آئے گا(یاد رہے کہ پاکستان کا کُل بجٹ صرف 40 ارب ڈالر ہے)، چلیں بالفرض اگر 500 ارب ڈالر خرچ بھی دئیے جائیں تو مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسان کو صرف مریخ پر پہنچانے کی قیمت ہے، آبادکاری اور مریخ کے باسیوں کی مکمل دیکھ بھال کے لئے ہمیں مزید فنڈز درکارہونگے، اسی خاطر آج سے 50 سال پہلے چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد امریکی حکومت نے ناسا کے فنڈز معطل کردئیے تھے کیونکہ اُس وقت چاند پر مشن بھیجنا بھی امریکا کو کچھ اِتناہی مہنگا پڑا تھا۔تمام تر مشکلات کو جاننے کے باوجوداس کٹھن منزل کی جانب پُختہ قدم Space-X نامی پرائیوٹ کمپنی نے اُٹھائےاوراعلان کیا کہ 2024ء تک انسان کو مریخ پر پہنچا دیا جائے گا لیکن اس سے قبل 2022ء تک کچھ ربورٹس کو مختلف مشنز کے تحت مریخ کی سطح پر اتارا جائے گا جو وہاں پرمستقبل میں آنے والے انسانوں کے لئے بیس کیمپس (گھر)تعمیر کریں گے۔2015ء میں ناسا نےاعلان کیا کہ 2030ء تک انسان کو مریخ پر پہنچا دیا جائے گا، اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ 20 کی دہائی میں چندربورٹس کو مریخ کی جانب بھیج کر بیس کیمپس تعمیر کرلیے جائیں گے۔ اسپیس ایکس اور ناسا نے جہاں یہ اعلان کیا وہاں بقیہ ممالک پیچھے رہنے والے کہاں تھے؟ چین نے 2060ء تک انسانوں کو مریخ پر آباد کرنےکا اعلان کیا جبکہ روس نے 2045ء تک انسان کو مریخ پر بھیجنے کا ٹارگٹ سیٹ کیا۔
شروع میں ہم مریخ کی جانب سفر کو آسان سمجھتے تھے لیکن اب ہمیں احساس ہوچکا ہےکہ یہ سفر پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔اس ضمن شاکنگ صورتحال تب بنی جب ہمیں علم ہوا یہ سفر نہ صرف انتہائی مشکل ہوگا بلکہ مریخ کی شدید کشش ثقل کے باعث one-sided بھی ہوگا کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ کسی کو مریخ پر پہنچا کر واپس لاسکیں، اگر ایسا کرنا ہے تو ہمیں مریخ پر مکمل لانچنگ پیڈ بنا نا پڑے گا، اس کے لئے فیول کا انتظام الگ سے کرنا پڑے گا جس وجہ سے امکان ہے کہ اِس صدی میں جانے والے مریخی مشنز ون سائیڈڈ ہی ہونگے۔
موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مطابقت کے لحاظ سے سیارہ زہرہ بالکل ہماری زمین جیسا ہے اورقریب ترین بھی ہے ،زمین سے ہجرت کرکے کہیں اور آباد ہونے کےلئے سیارہ زہرہ ہماری بہترین چوائس ہوسکتا تھا مگر چونکہ وہ سورج کے انتہائی قریب ہے، گرین ہاؤس گیسز کے غلاف میں بھی گھِرا ہوا ہے جس وجہ سے اس کی سطح پر ہر وقت سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رہتا ہے ، لہٰذا وہاں انسانوں کا بس پانا ممکن نہیں ،سو کائنات میں معدوم ہوتی اس زندگی کو اپنی بقا کی جنگ کے لئے دوبارہ مریخ کا ہی رُخ کرنا پڑا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مریخ پر جہاں زندگی گزارنے کی امید اور ضروری عناصر موجود ہیں ،وہیں کئی مشکلات بھی ہمارے استقبال کو تیار کھڑی ہونگی۔مریخ کی ہم سے دوری کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہےکہ اگر جدید ٹیکنالوجی سے لیس کوئی انسانی مشن چاند کی جانب روانہ ہوتو اسے تقریباً 2 دن لگیں گے مگر اگر وہی مشن مریخ کی جانب روانہ ہوگاتو اسےمنزل تک پہنچنے میں 9 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا، اسی طرح مریخ سے اگر کوئی شخص کو آپ کو بذریعہ انٹرنیٹ ویڈیو کال پر “السلام علیکم”بولتا ہے تو تقریباً 23 منٹ بعد آپ تک یہ پیغام پہنچے گا اور آپ اس کے جواب میں جب “وعلیکم السلام” بولیں گے تو آپ کا جواب بھی اس تک تقریباً 23 منٹ بعد پہنچے گا، یعنی صرف علیک سلیک ہی چھیالیس منٹ طویل ہوگی، کیسا غضبناک اکیلاپن ہوگا کہ مریخ پر رہتے ہوئے اگر آپ بیمار ہو کر ایمرجنسی situation میں پہنچ جاتے ہیں تو زمین کے باسیوں کو آپ تک “فرسٹ ایڈ” پہنچانے کے لئے 9 ماہ لگ جائیں گے، اگر فرسٹ ایڈ سے کام نہ چلے اور ڈاکٹر “اچھے ہسپتال” میں داخل ہونے کا مشورہ لکھتے ہوئے کہہ دے کہ “اینے نئی بچنا اینوں لہور لے جاؤں” تو آپ کو زمین پر واپس لانے کے لئے مزید 9 ماہ لگ جائیں گے، یعنی یہ “ایمرجنسی سروس” 18 ماہ طویل ہوگی! اسی خاطر مریخ کی آبادکاری کے منصوبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی ٹیم کے شامل ہونے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے، اِن highly qualified doctors کو اگر ایمرجنسی کے دوران زمینی ڈاکٹرز سے کوئی مشورہ طلب کرنا پڑا تو ہر سوال کے جواب کےلئے چھیالیس منٹ کا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔
اب جب ہم مریخ پر ہجرت کرنا چاہ ہی رہے ہیں تو یہ “ناز نخرے “بہرحال ہمیں اٹھانے پڑیں گے کیونکہ کائناتی اصولوں کے تحت کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتی اور یہ 46 منٹ کی communication روشنی کی رفتار سے ہی ہوگی۔
ایسے ایمرجنسی حالات سے نپٹنے کے لئے ہی یہ تجویز بھی سامنے لائی گئی کہ مریخ کے دونوں چاندوں پر بھی بیس کیمپس قائم کیے جائیں تاکہ کسی ہنگامی حالت میں ان دونوں چاندوں پر موجود انسان فوری طور پر مریخ کے باسیوں کی مدد کےلئے پہنچ جائیں کیونکہ مریخ پر آوارہ پتھروں کے گرنے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے کسی وقت کہیں بھی ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے۔اگر ہم مریخ اور زمین کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ زمین پر ایک دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے جبکہ مریخ پہ ایک دن 24 گھنٹے اور40 منٹ پرمشتمل ہوتا ہے، اس کا فائدہ ہمیں یہ حاصل ہوگا کہ طبعی طور پر سونے ، اٹھنے اور کام کرنے کے لحاظ سے انسانوں پرمریخ کے شب و روز کوئی خاص اثر نہیں ڈالیں گے، کیونکہ انسان ایسی جگہ پر بآسانی adjustکرسکتا ہے جہاں دن کا دورانیہ23سے25گھنٹے کاہو۔مریخ پر نائیٹروجن، ہائیڈروجن، آکسیجن ، فاسفورس اور کاربن جیسے بیش قیمت عناصر موجود ہیں جو زندگی کےلئے بہت اہم ہیں، انسان جب بھی مریخ پر پڑاؤ ڈالے گا تو یہ عناصر وہاں بطور تحفہ قدرت کی جانب سے پہلے سے موجود ہونگے۔
ہمیں معلوم ہے کہ سائنسدان جب بھی کسی سیارے کو دریافت کرتے ہیں تو اس کی خصوصیات اور ستارے سے دُوری کودیکھتے ہوئے معلوم کرتے ہیں کہ یہ کس علاقے(zone) میں موجودہے، اگر یہ اپنے ستارے سے بہت دُوریا بہت قریب موجود ہوتو یہ ڈیکلئیر کردیا جاتا ہے کہ یہ سیارہ habitable zoneمیں واقع نہیں سو یہاں پر زندگی پھل پھُول نہیں سکتی،ایسا علاقہ جہاں زندگی بآسانی نشونما پاسکے اسےہم Goldilocks zone کہتے ہیں، ہمارے نظام شمسی میں 2 ہی سیارے اس زون میں واقع ہیں، ایک زمین اور دوسرامریخ، زمین تو بالکل عین Goldilocks Zoneمیں واقع ہے،
جبکہ مریخ اس کےکنارے پر واقع ہے جس کا مطلب ہے کہ مشکلات میں سہی مگر زندگی یہاں بھی پنپ سکتی ہے،یہی وجہ تھی کہ زمین سے باہر آبادکاری کے لئے مریخ ہماری اولین ترجیح بن گیا۔آج بھی مریخ پر اس حد تک پانی موجود ہے کہ اگر تمام پانی کو پگھلا کر لیکیوڈ حالت میں لےآئیں تو مریخ پر پانی کی 30 فٹ اونچی تہہ بن سکتی ہے،چونکہ مریخ پر آکسیجن موجود نہیں لہٰذا مریخی انسان وہاں موجود پانی سے آکسیجن کو الگ کرکے استعمال کرسکیں گے۔مریخ کا سائز ہماری زمین کے مقابلے میں 28فیصد ہے، ہم جانتے ہیں زمین پر 71فیصد حصہ پانی نے جبکہ 29فیصد حصہ خشکی نے coverکیا ہواہے جس کا مطلب ہے کہ ہم جب مریخ پر جاکر رہیں گے تو ہمیں چہل قدمی کرنے کے لئے زمین جتنا وسیع خشک خطہ ہی میسر ہوگا لہٰذا مریخ پر پہنچنے والے انسانوں کے لئے مریخ زمین جتنا ہی ہوگا۔
ایک اور خاصیت جو مریخ کو زمین سے مشابہہ بناتی ہے وہ اس کا اپنے محور پر 25 ڈگری تک جھُکا ہوناہے،ہماری زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری تک جھُکی ہوئی ہے،کسی بھی سیارے پر موسم اُس سیارے کے جھکاؤ کے باعث ہی بنتے ہیں،جس کا مطلب ہے کہ زمین اور مریخ کے موسموں میں کافی حد تک مطابقت موجود ہے ،جیسے یہاں پر گرمی اور سردی کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں ویسے مریخ کے باسیوں کے لئے بھی گرمی اور سردی اپنے رنگ دِکھاتی رہے گی مگر چونکہ مریخ زمین کی نسبت سورج سےزیادہ دور ہے جس وجہ سے وہاں ان موسموں کی durationدُگنی ہوگی یعنی اگر زمین پر گرمی 6 ماہ رہتی ہے تو مریخ پر ایک سال تک گرمی اور ایک سال تک سردی رہے گی۔
جیسے زمین کے شمالی قطب پہUrsa Minorنامی ستاروں کا جھرمٹ موجود ہے ، ویسے ہی مریخ کے شمالی قطب پر سائیگنس نامی ستاروں کا جھرمٹ موجود ہے جو ہمیں وہاں پرمقناطیسی فیلڈ نہ ہونے کےباوجود سمت معلوم کرنے میں مدد فراہم کرتا رہے گا، زمین اور مریخ میں جہاں پر یہ یکسانیت ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہیں، وہیں پر یہ بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ مریخ ایک بےرحم اور پُرخطر سیارہ ہے۔مریخ مطابقت سے زیادہ خطرات اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے۔یہ سچ ہے کہ انسان اس حد تک ذہین ہے کہ مریخ جیسے کسی بھی سیارے کو اپنے ماحول میں ڈھال سکتا ہےمگرمریخ پرآبادکاری کے دوران مسائل اور خطرات کو نظرانداز کرنا نسل انسانی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے،لہٰذا مریخ پر ہمیں قدم پھُونک پھُونک کر رکھنے پڑیں گے، ہر لمحہ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہم زمین سے کوسوں دور ہیں، کروڑوں کلومیٹر دور، اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو زمین کے باسیوں کو 45 منٹ تک تو کانوں کان خبر بھی نہ ہوپائے گی، کہ ہم پر کیا قیامت گزر چکی ہے ۔مریخ سے دوستی کرکے اِسے اپنا بنانے کے سفر میں کیا خطرات آسکتے ہیں اور ان کے ممکنہ حل کیا سوچے گئے ہیں، انسان مریخ کو زمین جیسا کیسے بنائے گا ، مارشین انسانوں کو مستقبل میں کن جسمانی اور نفسیاتی چیلنجز کا سامنا ہوگا؟اِس سیریز کے اگلے حصے میں ہم ان باتوں کو تفصیلی ڈسکس کریں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply