آذربائیجان مسئلہ کیا ہے؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

آذربائیجان اور آرمینا کا تنازع کافی پرانا ہوا ہے اور اس پر کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ اس پورے تنازعے کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا بہت ضروری ہوگا، تاکہ ہم اس کے نتیجے میں موجودہ صورتحال کو درست میں سمجھ سکیں۔ آذربائیجان ساسانیوں کے ماتحت تھا اور وہاں کے حکمران کو مرزوبان کہتے تھے۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نہاوند کی فتح کے بعد آذربائیجان کی طرف متوجہ ہوئے، یہاں کے حکمرانوں نے آٹھ لاکھ درہم کے بدلے صلح کر لی اور بدلے میں جان کا تحفظ، آزادی اور مذہب کی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ عرب بھی یہاں آباد ہوگئے، جو یہاں کی مقامی تہذیب میں ڈھل گئے۔ عباسی دور میں حالات خراب ہوئے، جس سے مقامی لوگ طاقتور ہوگئے۔ پھر یہاں منگولوں نے قبضہ کیا، جن کے بعد جلائر اور ان کے بعد ترک آگئے۔ 1502ء میں یہاں صفویوں کی حکومت آگئی۔ اس وقت تشیع بھی آیا، اس کے بعد یہ پھر سے ایران کے تحت ہی ایک حصے کے طور پر رہا، یہاں تک کہ انیسویں صدی میں روس نے یہاں دلچسپی لینا شروع کی۔

پیٹر کے زمانے سے روس گرم پانیوں کی بندرگاہ کی تلاش میں تھا، ان کی نظریں ایران اور آذربائیجان کی طرف تھیں۔ اٹھارہ سو چار سے اٹھارہ سو تیرہ تک ایران اور روس میں ایک لمبی جنگ رہی۔ معاہدہ گلستان سے جنگ تو ختم ہوگئی مگر آذربائیجان، داغستان اور جارجیا سمیت کئی خطے روس کے قبضے میں چلے گئے۔ ایران کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا، اٹھارہ سو چھبیس میں دوبارہ جنگ ہوئی، جس کا اختتام ترکمانچی ایگریمنٹ پر ہوا۔ اس میں روس کا اس علاقے پر قبضہ مضبوط ہوگیا، ایران نے اسے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ اٹھارہ سو سترہ میں روس میں انقلاب آیا، روس ان انقلابیوں سے نمٹنے میں مصروف ہوگیا۔ انیس سو اٹھارہ میں روس کے جاتے ہی آذربائیجان کی ریاست قائم ہو جاتی ہے، جو محمد امین رسول زادہ نے قائم کی، جنہیں آج آذری بابائے قوم کہتے ہیں۔ ان کی مساوات پارٹی تھی، مگر اس دوران روس نے مقامی مسائل پر قابو پا کر انیس سو بیس میں آذربائیجان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ آرمینیا پر بھی اسی کے ساتھ قبضہ کر لیا۔ آذریوں نے بھرپور مزاحمت کی تھی، مگر سرخ فوج کامیاب رہی۔ اس جنگ آزادی میں بیس ہزار آذری مارے گئے۔

روس نے ایک فرنٹ بنا کر تمام ریاستوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1936ء میں ایک آئینی تبدیلی کی گئی اور اس فرنٹ کی ریاستوں کو الگ الگ ریاست بنا دیا گیا۔ آرمینیا، جارجیا اور آذربائیجان وغیرہ۔ افغان روس دس سالہ جنگ کے نتیجے میں انیس اکیانوے میں روس ٹوٹ گیا، یہ ریاستیں اس انتظار میں تھی، انہوں نے اگست میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ آرمینیا کی بات کی جائے تو یہ ایشیاء کا بلند ترین ملک ہے، جنوب میں ایران ہے، یہ ساسانیوں کے زیراہتمام تھا۔ 645ء میں یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بنا دیا گیا۔ یزید یلدرم اور محمد فاتح کے زمانے تک پورا آرمینیا ترکوں کے قبضے میں چلا گیا۔ آرمینین آرتھورڈک مسیحی تھے، جن کا سربراہ روس میں تھا، اس نے روس کو آرمینیوں کا محافظ قرار دیا۔ اس سے ترکوں کو تشویش ہوئی، 1915ء میں ترکوں نے سارے آرمینین باشندوں کو شام منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بیس لاکھ کی آبادی تھی، ترکوں نے روس سے تحفظ کے لیے ایسا کیا۔ طلعت پاشا یہاں کا وزیر داخلہ تھا، اس کی نگرانی میں یہ نقل مکانی کرائی گئی۔ پانچ سے چھ لاکھ لوگ اس میں مارے گئے، اسے نسل کشی کہا جاتا ہے، انگریز تاریخ دانوں کے مطابق بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔

عثمانیوں کے ہارنے سے کئی ممالک بن گئے، یہیں سے آرمینیا وجود میں آیا، پھر بیس میں روس آگیا، انیس سو اکیانویں میں یہ بھی آزاد ہوگیا۔ ان کے درمیان نکورنو قرہ باخ کے علاقہ میں تنازع پیدا ہوگیا۔ بین الاقوامی طور پر یہ علاقہ تو آج بھی آذربائیجان کا ہے اور یہ آذربائیجان کے کل رقبے کا بیس فیصد ہے۔ انیس سو اکیاسی میں یہاں کے لوگوں نے جو کہ زیادہ آرمینین ہیں، ایک تحریک چلائی اور مطالبہ کیا کہ یہاں آرمینین زیادہ ہیں، اس لیے ہمیں آرمینا میں شامل کیا جائے، یہیں سے تنازع پیدا ہوا۔ نکورنو قرہ باخ کے سات ڈسٹرکٹ ہیں، اسے الگ مملکت بنانے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جو کہ بہت ہی چھوٹی ریاست ہے۔ اس لیے یہاں بار بار جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ اکیانوے میں جنگ ہوئی، اسی طرح بیانوے اور چورانے میں جنگیں ہوئی، دو ہزار سولہ میں پھر جنگ ہوئی اور اب پھر 27 ستمبر سے جنگ دوبارہ جاری ہے، اس جنگ میں بظاہر آرمینیا کمزور پڑ رہا ہے۔ امریکہ، روس اور فرانس کو ثالث بنایا جائے۔ آذربائیجان یہ کہتا ہے کہ پہلے آرمینیا اس علاقے سے پیچھے جائے کیونکہ یہ ہمارا علاقہ ہے۔

روس دونوں کو دیکھ رہا ہے اور ثالثی کی کوشش کر رہا ہے، مگر اس کے تعلقات آرمینیا سے زیادہ اچھے ہیں۔ ایران نے آذربائیجان کا ہر طرح سے تحفظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ باکو میں ان ایرانی شہداء کی قبریں موجود ہیں، جو آذربائیجان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ ہمارا میڈیا یکطرفہ پروپنگنڈا کر رہا ہے کہ ایران آرمینیا کے ساتھ ہے، یہ بات درست ہے کہ ایران کے آذربائیجان سے اختلافات ہیں اور اس کی سکیورٹی وجوہات ہیں۔ آذربائیجان کے اسرائیل سے تعلقات ہیں، اسی طرح وہ نیٹو کو سپلائی فراہم کرتا ہے اور خطے میں اس کو اڈرے فراہم کرتا ہے۔ ایران کا آذربائیجان سے اختلاف صرف اسرائیل اور امریکی اتحادی ہونے اور ان کو سرگرمیوں کے لیے سرزمین فراہم کرنے سے ہے۔ جہاں تک نکورنو قرہ باخ پر آذربائیجان کے موقف کا تعلق تو ایران کے شہداء کا خون اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ ایران اسے آذربائیجان کا حصہ سمجھتا ہے اور اسے عملی طور پر ان کا حصہ بنانے کے عمل کا بھی حصہ رہا ہے۔ حسن روحانی کے ترجمان محمد واعظی نے آذربائیجان کے ڈپٹی وزیراعظم سے فون پر بات کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قبضے کا خاتمہ ہی خطے میں استحکام لائے گا۔ آذربائیجان کے لیے سب اہم سپورٹ یہی ہے اور اسی سے اس کا کیس مضبوط ہوتا ہے۔

ترکی پوری طرح سے آذربائیجان کے ساتھ ہے، ترکوں اور آذریوں کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ ایک قوم دو ممالک، بین الاقوامی میڈیا بار بار یہ خبر دے رہا ہے کہ ترکی جہادیوں کو آذربائیجان بھیج رہا ہے، روس نے آفیشل طور پر یہ کہا ہے۔ فرانس نے بھی تحفظ کا اظہار کیا ہے کہ ہماری اطلاعات ہیں کہ ترکی نے تین سو جہادی بھیجے ہیں۔ آذربائیجان کے صدر محترم نے اسے پروپیگنڈا قرار دیا ہے، جنگ میں ایسے پروپیگنڈے بطور ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ جہادی جہاں بھی گئے، فساد کا پورا سامان لے کر گئے ہیں۔ ان لوگوں کا مذہب اور مقامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ فقط قتل و غارت اور بدامنی پھیلانا جانتے ہیں۔ فرقہ فرقہ کی سیاست کرنے والوں سے عرض کرنا چاہوں گا۔ تم لوگ آذربائیجان کی جنگ کو اپنا دماغ کھولنے کے لیے استعمال کرو، تمہیں ہر جگہ شیعہ نظر آجاتا ہے۔ آذربائیجان کی پچاسی فیصد سے زائد آبادی شیعہ ہے اور علی الاعلان شیعہ ہیں اور آذری شیعہ ایران میں ہوں یا آذربائیجان میں، مولای شیعہ ہیں۔

اسرائیل جس نے تمہارے دعویٰ کے مطابق ایک عرب اور سنی ملک فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے، ایران کو تو اس جنگ میں آذربائیجان کے حمایت میں ہنسی خوشی شریک ہونا چاہیئے تھا، مگر ایران فلسطین کی حمایت میں ایک شیعہ ملک آذربائیجان کے ساتھ اپنے تعلقات کو فلسطین کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہاں اسرائیل کے کردار کی مخالفت کرتا ہے۔ اسرائیل اور اس کی ہمنوا قوتیں ایران کے اس بارڈر کو بدامن کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ایران بہت حکمت سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے آذربائیجان اور آرمینیا سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بات کی ہے۔ اسرائیل اور ترکی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں اور ماحول کو جذباتی بنا رہے ہیں، جب آذربائیجان پوری طرح اس جنگ میں پھنس جائے گا تو یہ لوگ اس کی مجبوریوں کو استعمال کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان نے آذربائیجان کی وجہ سے آرمینیا کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ہم اس جنگ میں مکمل طور پر آذربائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور ہمارے عوام جس کا اظہار ٹویٹر ٹرینڈز کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے، کے مطابق عوام کی واضح اکثریت آذربائیجان کے ساتھ ہے۔ باکو میں بھی پاکستان اور ترکی کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں، جو دونوں ممالک کی گہری دوستی کے عکاس ہیں، اس کا اعتراف آذربائیجان کے صدر نے اپنی تقریر میں کیا کہ پاکستان مکمل طور پر ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ علاقہ اقوام متحدہ کے مطابق آذربائیجان کا حصہ ہے، اس لیے اس موقع پر ان کے ساتھ کھڑا ہونا بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply