آخر کیوں؟۔۔سانول عباسی

اکثر بچے ایسے چونکا دینے والے سوال پوچھتے ہیں کہ بروقت جواب دینا تو درکنار سوچ بچار کے بعد بھی آپ خو کو اس قابل نہیں پاتے کہ بچوں کو ان کے معصومانہ سوالوں کا جواب دے سکیں یہ تو بھلا ہو بچوں کے سوچنے کی رفتار کا کہ اگلے لمحے وہ کسی اور سوچ پہ بات کر رہے ہوتے ہیں اور مجھے اکثر اپنا علمی بھرم خاک میں ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ میرے پاس ایسے بہت سے معصوم سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا اور بس اتنی اخلاقی جرآت ہے کہ اظہار کر دیتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم دیکھ کے بتا دوں گا اور بچوں سے دل کھول کے معذرت بھی کر لیتا ہوں کہ وہ خود ہی سوچنے لگتے ہیں کہ ابو سے سوال پوچھ کہ ابو کو ہم نے شرمندہ کیا ہے اس طرح جان بخشی بھی ہو جاتی ہے اور بچوں کا بہت سا پیار بھی سمیٹ لیتا ہوں۔

سونے سے پہلے ہم نے روٹین بنائی ہوئی ہے کہ کم سے کم آدھا گھنٹہ باتیں ضرور کرنی ہیں اسمیں کوئی کہانی سنانی ہوتی ہے کوئی کتاب پڑھنی ہوتی ہے یا سارا دن میں جو روٹین گزری وہ بتانی ہوتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بچے زیادہ سے زیادہ باتیں کریں اور میں سنوں اور روز رات کو لڑائی بھی ہوتی ہے وہ اس بات پہ کہ کبھی چھوٹی کہتی ہے ابو آپ آپی کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور کبھی آپی کو غصہ آیا ہوتا ہے کہ آپ چھوٹی کے بہت لاڈ اٹھاتے ہیں اس سب کا اپنا ایک انجانا سکون و والہانہ خوشی کا احساس ہے جو ناقابل بیان ہے۔

آج جب ہم بیڈروم میں آئے تو آپی نے باتیں کرنا شروع کیں آپی بہت ہی سیریس ہو کے کہتی ابو یار مجھے ایسے لگتا ہے یہ سب کچھ ایک خواب ہے اور میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں اس کے اس خیال پہ میں چونکا اور اٹھ کے بیٹھ گیا تو وہ گھبرا گئی کہ نہ جانے میں نے کیا کہہ دیا میں نے کہا بیٹا میں اس لئے اٹھ کے بیٹھا ہوں تاکہ آپ کی بات کو توجہ سے سن سکوں آپ اپنی بات جاری رکھیں تو دوبارہ کہتی ابو یار آپ کو بھی ایسا لگتا ہے کیا کہ جیسے یہ سب ایک خواب ہو میں نے کہا ہاں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے اچھا ابو ایک اور بات بتاؤں میں نے متجسس ہو کہ پوچھا ہاں ہاں بتائیں تو کہتی ابو ہم جہاں کہیں بھی جاتے ہیں نا تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی یہاں آ چکے ہیں کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے میں نے کہا ہاں کبھی کبھی مجھے بھی ایسے ہی محسوس ہوتا ہے اور ابھی میں سوچ رہا تھا کہ اس سے پوچھوں ایسا کیوں ہوتا ہے اس نے مجھ سے ہی پوچھ اچھا ابو ایسا کیوں ہوتا ہے ہمیں یہ دن رات خواب کیوں محسوس ہوتے ہیں اور جب کہیں جاتے ہیں تو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی وہاں آئے ہیں۔

ہماری بولتی بند اتنے میں بھلا ہو بھاگوان کا انہوں نے ٹہوکا دیا چلو چلو سارے فلسفی اب سو جاؤ صبح آپی نے سکول جانا ہے بہت ہو گئی باتیں اور پتہ نہیں سارے فلسفیوں نے یہاں جوگ لینا تھا یک نہ شد دو شد چلو اب سارے سو جاؤ کسی کی آواز نہ آئے ہم نے اپنی خیر منائی آرام سے بستر پہ دراز ہوئے آپی نے سونے کی دعا خود بھی پڑھی چھوٹی کو بھی پڑھائی مجھے بھی یاد کرائی اور سو گئی مگر میں کافی دیر سوچتا رہا کہ آخر ایسا کیوں ہے یہ زندگی ہمیں ایک خواب کیوں محسوس ہوتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ ہمیں گزرا ہوا کیوں محسوس ہوتا ہے ۔

آخر کیوں؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

ساؔنول عباسی

Facebook Comments