کیا نام ہے تمہارا ؟۔۔ٹیبی شاہدہ

وہ صبح بالکل عام صبحوں جیسی تھی ، نرم گرم دھوپ میں لپٹی  شور مچاتی صبح ۔ چھوٹے بیٹے عدنان کے سکول جاتے ہی جیسے شور نے سکون کا سانس لے لیا ۔ سارے گھر میں بچوں کی پھیلائی ہوئی چیزون کی بے ترتیبی سے آج مجھے کوفت نہیں ہو رہی تھی۔ بے تر تیبی اور ترتیب کے درمیان ہی تو زندگی بستی ہے میں نے رسان سے  بالکل  پہلی دفعہ سوچا  ۔  اپنی اس  نئی سوچ پر خود مجھے بھی قدرے  حیرت ہوئی ۔۔ آج   میرا دل آفس جانے کو بالکل نہیں چاہ رہا تھا ۔ میں اک بے مقصد اور بے پرواہ دن گزارنے کے موڈ میں تھا ۔ گھر کا سناٹا اور میری کاہلی دونوں مجھے بہت بھلے لگ رہے تھے ۔ میں نے اک اچٹتی نگاہ اپنے ارد گرد ڈالی ۔ سامنے ٹیبل پر رحمت خان بیٹھا نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ناشتہ کرنے میں مگن تھا ۔  دس سال  قبل میرا دوست   فرید جب  رحمت خان کو  میرے پاس ملازمت کے لئے لایا تو اس وقت یہ 12 سال کا بچہ تھا اس کی کم عمری دیکھتے ہوئے میں نے اسے ملازمت دینے سے انکار کر دیا لیکن اس کی انتہائی زیرک آنکھوں نے خاموشی سے ، پل بھر میں ہی جانے مجھے کیا کچھ کہ دیا کہ میں جو گو مگو کی کیفیت میں تھا خاموش ہو گیا ۔ میرا انکار اقرار میں بدل گیا ۔ بوسیدہ لیکن صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس رحمت کے چہرے پر دیانت اور سچائی کا کھرا پرتو تھا ۔ وہ اپنی گفتگو اور حرکات و سکنات سے کافی مہذب نظر آ رہا تھا ۔ میں نے  اس کا ہاتھ تھاما اور  اسے گھر لے آیا ۔ جلد ہی اس نے ثابت کر دیا کہ اس کا ظاہر اور باطن ایک سا ہے ۔ یہ کہنا کہ وہ کیا کرتا تھا اہم نہیں تھا ۔ اہم یہ تھا کہ وہ کیا نہیں کرتا تھا ۔ یوں سمجھ لیں وہ گھریلو امور کی گنجلوں کا امرت دھارا تھا ۔  ہر رات کام سے فارغ ہو کے وہ میرے پاس آ کے بیٹھ جاتا ۔  اس کی بولتی  شور مچاتی  آنکھین چپ چاپ مجھے تکے جاتیں ۔ اک دن اس کی بولتی آنکھوں کی چبھن سے مجبور ہو کے میں نے پوچھ ہی لیا ۔

“ کیا بات ہے رحمت ؟ تم کیا چاہتے ہو ؟”
اس کی  منتظر آنکھیں یک دم مسکرا دیں

“ صاحب  میں بھی پڑھنا چاہتا ہوں “ وہ  فورا ہی لجا جت سے بولا “ رات کو میں فارغ ہوتا ہوں ، رات گئے میں پڑھوں گا اور روز صبح سویرے آٹھ جایا کروں گا ، آپ کے کام میں کوئی تاخیر نہ ہو گی “

میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس نے میرے متوقع سوال کا جواب دے دیا ۔

“ اچھا ٹھیک ہے میں تم کو کتابوں کے لئے درکار رقم دے دوں گا اور ہم میں سے جس کسی کے پاس جب بھی وقت ہو گا وہ پڑھائی میں تمھاری مدد کر ے گا “ میں نے فوراً” ہی بلا سوچے سمجھے کہ دیا

اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی  پر کہہ نہ پایا ۔ میں نے دیکھا  اس کی آنکھیں تشکر آمیز پانی سے لبریز ہو چکیں تھیں ۔ وہ دن اور آج کا دن اس کی پڑھائی کام کے ساتھ ساتھ  جاری تھی ۔

“ صاحب جی آج خانساماں چھٹی پر ہے اس لئے کھانا مجھے پکانا ہے ، سبزی گوشت کے لئے پیسے دے دیں ۔“  رحمت کی آواز پر میں چونک سا گیا“

کتنے پیسے دے دوں “؟

صاحب جی مجھے انٹر کے امتحان کی داخلہ فیس بھی جمع کروانی ہے “ وہ تھوڑا جھجھکتے ہوئے بولا ۔ “

اچھا ! واہ بھئی  واہ یہاں  تک پہنچ گئے ہو۔۔۔  “  میں نے حیرت بھری خوشی سے  کہا  اور اسے پیسے پکڑائے ۔

“  بس میں ابھی جا رہا ہوں ، زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں واپس آ جاؤں گا “ وہ جو ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتا تھا یہ کہتے ہوئے تیزی سے نکل گیا ۔

میں دور تک اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ وہ آرمی میں بھرتی ہونے کا خواہاں تھا ۔ میرے بچوں نے اس کو آرمی میں افسر بننے کے خواب دکھلا دئیے ، اب وہ اسی منزل کا راہی تھا ۔ رحمت کے جانے کے بعد میں اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گیا ٹھیک پینتالیس منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی لائن کی دوسری طرف رحمت تھا ۔

“ صاحب جی یہاں بم دھماکہ ہو گیا ہے ، بڑا رش ہے مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی آپ فکر نہ کرنا ۔“

کیا  ۔۔۔۔۔  تم   ہو کہاں ؟؟ “ میں گھبرا کے بے قراری سے بولا ۔

“ آر اے بازار میں ہوں   اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

اور اک فلک شگاف دھماکے  کی گونج میں اس کی آواز یک لخت کہیں گم ہو گئی ۔  یہ  ایک اور بم دھماکہ تھا ۔ کچھ دیر کے لئے مجھے لگا میرے کان کچھ بھی سننے سے قاصر ہیں ۔ میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن ہزاروں ان دیکھی کرچیاں  میرے گلے میں اٹک گئیں ۔ میں نے حرکت کرنا چاہی لیکن مجھ لگا میری ٹانگیں کٹ چکیں ہیں ۔ چند ثانیے بعد جب میرے حواس بحال ہوئے میں نے فلک شگاف چیخ ماری “ رحمت تت تت۔۔.“

لیکن فون کی دوسری طرف اک   گہرا سکوت تھا ۔ رحمت کا فون بالکل خاموش تھا ۔  میں دیوانہ وار باہر بھاگا اور  حواس باختگی میں  گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔

“   کیا بات ہے ؟ تم ٹھیک تو ہو ؟“  میرا دوست میرا ہمسایہ فرید میری ہیجانی کیفیت دیکھ کے تشویش سے بولا ۔ ” رحمت ، وہ جو رحمت ہے نا وہ بم دھماکے میں ہے، بم دھماکہ ….. “ میں نے پھولی سانس کے ساتھ بے ترتیب جملوں میں اسے سب بتانا چاہا ۔

“ اوہ ! چلو چلو میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں “ فرید نے آگے بڑھ کے سٹئیرنگ سنبھال لیا ۔ کچھ ہی دیر میں ہم آر اے بازار میں تھے ۔ وہاں اک حشر کا سا نہیں بلکہ مکمل حشر کا ساماں تھا ،

دھواں ، آگ ، خون ، افراتفری گویا قیامت کا سماں تھا ۔   لوگون کے بے قابو ہجوم کی دھکم پیل میں مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا  ماسوا رحمت کے ، ہر طرف بس رحمت کا چہرہ دکھائی  دے رہا تھا  میں لپک کے کبھی کسی کا ہاتھ تھام لیتا اور کبھی کسی کی پشت کو رحمت خیال کر کے اس کی جانب دوڑتا ۔ ایسے میں فرید نے میرا بازو تھاما اور مجھے اس ہال کی جانب لے گیا جہاں لاشوں کا ہولناک انبار لواحقین کا منتظر تھا ۔

” نہیں ۔ ۔ نہیں وہ یہاں نہیں  ہو سکتا ۔ یہاں کیوں لائے  ہو مجھے ؟؟ وہ زندہ ہے زندہ “ میں نے خوف اور رنج سے بھری آواز میں مدھم سا احتجاج کیا

“ پہلے یہاں دیکھ لیں پھر ہسپتال چلتے ہیں “ اس نے مری ہوئی آواز میں گویا وعدہ کیا ۔

وہاں داخل ہونے سے قبل ہی میرا دل چاہا کہ بھاگ جاؤں ، کہیں دور چلا جاؤں ۔ ۔۔۔۔ وہ منظر نہ دیکھوں کہ رحمت ۔۔۔۔، اس سے آگے میری سوچ برف کی مانند منجمد ہو گئی ۔  محض کچھ دیر پہلے سانس لیتے زندگی سے بھرپور لوگ بنا کسی خطا کے ، بنا کسی جرم کے ، بنا کسی وارننگ کے ، یک مشت ایک ہی وار میں پلک جھپکتے ہی زندہ سے مردہ کر دئیے گئے ۔ میں  نے مضبوطی سے فرید کا ہاتھ تھام لیا اور اپنی من من کی ٹانگوں کو گھسیٹتا ہوا آگے بڑھا ، کٹی پھٹی لاشوں کا انبار بے ترتیبی سے ایسے پڑا تھا کہ کسی کی بھی شناخت آسان نہ تھی ۔ میں نے سراسیمگی سے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرنے لگا ۔ یا اللہ وہ یہاں نہ ہو ، وہ زندہ سلامت کہیں اور ہو ، چاہے ہسپتال ہی میں ہو ۔ میں نے خدا تک جانے والے ہر راستے کے ذریعہ اس کی سلامتی کی دعا مانگ لی ۔ اس دوران ہم نے قریبا” آدھی لاشیں دیکھ لیں ، چلتے چلتے یکا یک فرید رک گیا  “ وہ دیکھو وہ ۔۔۔۔۔ “ اس نے سہمی ہوئی آواز میں  ایک طرف اشارہ کیا ، ” وہ رحمت لگ رہا ہے ۔ ۔۔ شاید رحمت ہے ” وہ جھجھکتے ہوئے بولا ۔

کیا ۔۔۔ ؟؟ ۔ نہیں ں ں یں..“ میری چیخ میرے گلے ہی میں رندھ گئی

لاشوں کے ڈھیر میں دبا نیچے بہت نیچے وہ رحمت ہی تھا ۔ اس کی ادھ کھلی مردہ آنکھوں میں مدھم مدھم سے سوال ابھی بھی زندہ تھے ۔ میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن میری لرزتی ٹانگوں نے میرا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا ۔ میں نے بولنا چاہا پر میری قوتِ گویائی کہیں کھو گیئ میں محض پھٹی پھٹی آنکھوں سے  ٹکٹکی باندھے سکیورٹی پر مامور لوگوں کو رحمت کی لاش لاشوں کے ڈھیر سے نکالتے ہوئے  بے بسی سے دیکھ رہا تھا ،

“ چلو !! “ لاش نکالے جانے کے بعد فرید نے گلو گیر آواز  میں مجھے مخاطب کیا ۔  ” اب گھر چلتے ہیں ”

“ اور رحمت !! ۔ ۔ کیا وہ ۔ ۔؟ “ میں نے سسکی بھری اور سرکتے ہوئے لاش کے قریب چلا گیا ۔ میں نے آگے بڑھ کے اس کو گلے لگانا چاہا کہ ۔۔ ۔دفعتاً  ہوا کا اک نازک سا گرم جھونکا میرے چہرے کو چھو کے گزر گیا ۔۔۔۔ میرے اندر امید  کی اک موہوم کرن جاگ اٹھی ۔ میں نے بے قراری سے اس کی نبض ٹٹولنی شروع کر دی ۔ یہ دیکھ کے میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کی مدھم نبض نہایت  آہستہ روی سے رک رک کے چل رہی تھی  “ یہ زندہ ہے ، زندہ ہے “ میں نے پوری طاقت سے چیختے ہوئے کہا ۔ فرید اور سرکاری اہلکار دوڑتے ہوئے آئے ۔ “ یہ زندہ ہے ، اس کی نبض چل رہی ہے “ میں نے سرکاری اہلکاروں  کو  خشمگین نگاہوں سے گھورتے ہوئے دہرایا ۔ “

“ سن رہے ہو یہ زندہ ہے ۔ ۔ ۔“ میں نے ایکبار پھر تڑپ کے دہرایا

“ بم دھماکہ میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں گر رہی ہوتی ہیں اور ہمیں آرڈر ہوتا ہے کہ فور اً” لاشیں اٹھا دی جائیں ۔ کیا پتہ چلتا ہے  گرے ہوؤں میں   کون مردہ ہے اور کون زندہ ؟ ، کون  پتہ کرے کیسے پتہ کرے۔ ۔ ؟؟“  ایک اہلکار نے سپاٹ اور سرد  لہجے میں کہا

Advertisements
julia rana solicitors

“ کیا  ؟؟ “ میں چیخ اٹھا “ وہ جنھوں نے بم پھوڑا،سینکڑو ں لوگوں کو ہلاک کر  ڈالا وہ تو دشمن ہیں قاتل ہیں  سفاک ہیں درندہ ہیں کافر ہیں ۔۔۔اور تم جو سانس لیتے زندہ لوگوں کو ,  اپنےہی لوگون کو لاشوں کے ڈھیر میں دفن کر دیتے ہو تم کون ہو ۔؟؟؟ ۔ ۔ بولو !بولو !! کیا نام ہے تمھارا ؟؟ کون ہو تم “؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply