• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹریفک جام کی روداد۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ٹریفک جام کی روداد۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ٹریفک نہیں ایک آزار ہے، ایک مسلسل عذاب، ایک مستقل سر درد۔۔ کسی نے ہماری قوم کی بے ہودگی، بے سمتی اور بے ہنگم پن دیکھنا ہو تو ہماری بے ہودہ، بے سمت، بے ہنگم اور پُرشور ٹریفک کے حالات دیکھ لے۔ کوئی سال بھر پہلے ڈائیلاگ ٹائمز کے لیے قوم کے ٹریفک کے حوالے سے مجموعی عمومی رویے پر ایک آرٹیکل لکھا تھا “Road    Sense    or    Non-Sense” تو ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ بھائی جن کے لیے لکھا ہے انہیں کیا خاک سمجھ آئے گی، تب سے سوچ رہا تھا کہ یہ مسئلہ اردو میں تحریر کروں، کئی موقعوں پر لکھنا چاہا لیکن آج تو حد ہی ہو گئی اور ٹریفک کے اس مسئلے نے دماغ میں شور مچا دیا کہ آج تو لکھ ہی ڈالو۔
اپنی لاء فرم کے دفتر سے آتے ہوئے آئی نائن میں ایک کام تھا، وہاں سے گھر کا راستہ زیادہ سے زیادہ دس منٹ کا ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں رہنے والے جانتے ہیں کہ آئی نائن سے خیابانِ سرسید کا راستہ بمشکل چار کلومیٹر ہے جسے میں ڈیڑھ گھنٹے میں طے کر کے گھر پہنچا۔ آئی نائن میں بھی ٹریفک جام تھی، کس وجہ سے تھی، معلوم نہیں ہو سکا کیونکہ جب ٹریفک کھلی تو آگے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ نائنتھ ایونیو سے آئی جے پی روڈ پر آیا تو تقریباً گھر تک ٹریفک مسلسل جام تھی۔ گھر کے قریب پہنچا تو ٹریفک ایک دم رواں ہو گئی، جام کیوں تھی، بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ نہ تو راستے میں کوئی حادثہ تھا اور نہ ہی بیچ سڑک کوئی ٹرک ہی خراب تھا اور نہ سڑک پر کوئی احتجاج ہو رہا تھا۔ خدا معلوم کوئی نہ نظر آنے والی مخلوق تھی جس نے ٹریفک میں رکاوٹ ڈال رکھی تھی۔
کوئی جڑواں شہروں میں رہتا ہو اور آئی جے پی روڈ سے اُس کا واسطہ نہ پڑے، یہ تو ممکن ہی نہیں اور اگر بدقسمتی سے آپ رہتے ہی برلبِ سڑک ہوں تو پھر تو جائے فرار ممکن ہی نہیں۔ روڈ تو شاید کسی زمانے میں تھی، اب تو آثارِقدیمہ کا کوئی خستہ حال نمونہ معلوم ہوتی ہے۔ آئی جے پی روڈ جڑواں شہروں میں حد فاصل کا کام دیتی ہے۔ اِس کے ایک جانب راولپنڈی ہے اور سڑک پار کریں تو آپ خود کو اسلام آباد میں پائیں گے۔ اِس سڑک کی اہمیت کو بھی سمجھ لیجیے۔ پنجاب اور کشمیر سے آنی والی ٹریفک اسی روڈ سے گزرتے ہوئے براستہ ٹیکسلا حسن ابدال خیبر پختونخواہ تک جاتی ہے۔ فیض آباد سے لے کر پیرودھائی موڑ تک اِس سڑک کے کنارے کئی بس اور ویگن اڈے ہیں جہاں سے گلگت سے کراچی تک اور پشاور سے گوادر تک ملک کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں کی گاڑی آپ کو باآسانی مل جاتی ہے۔ پیرودھائی اڈہ غالباً ملک کا سب سے پڑا بس/ویگن سٹینڈ ہے۔ پیرودھائی سے متصل آئی الیون میں جڑواں شہروں کی سبزی اور فروٹ منڈی واقع ہے جو پاکستان کی سب سے بڑی نہیں تو تین چار بڑی منڈیوں میں سے ایک ضرور ہے۔ آئی الیون میں ہی اِسی سڑک کے کنارے ریلوے کیرج فیکٹری واقع ہے اور اس کے علاوہ کئی رہائشی آبادیاں اور تعلیمی و صنعتی ادارے اِس روڈ کے کنارے واقع ہیں۔ اِسی وجہ سے ہیوی ٹریفک کا رش اِس روڈ پر ہونا معمول کی بات ہے۔ یہ تو اِس سڑک کی اہمیت ہو گئی لیکن اتنی اہم سڑک کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ سڑک کم اور گڑھے زیادہ ہیں۔ کئی گڑھے تو ڈیڑھ دو فٹ گہرے ہو چکے ہیں۔ ایک گڑھے سے گاڑی بچائیں تو اگلے میں جا لگتی ہے۔ منیر نیازی مرحوم سے معذرت کے ساتھ

ایک اور کھڈے کا سامنا تھا مجھے

ایک کھڈے سے گاڑی بچائی تو میں نے دیکھا

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں گڑھے نہیں ہیں وہاں سے سڑک ایسی اُدھڑی اور ٹوٹی پھوٹی ہے کہ اچھی بھلی گاڑیوں کا باآسانی ستیاناس کر دینے کے لیے کافی ہے۔ دھول مٹی اِس سے الگ ہے۔
سڑک پر ٹریفک جام ہونا ایک معمول ہے۔ پانچ دس منٹ کا راستہ گھنٹہ بھر میں طے ہونا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ سڑک پر کوئی حادثہ نہ بھی ہوا ہو، کوئی ٹرک یا بڑا لوڈر بھی کہیں بیچ راستے خراب نہ ہوا ہو تب بھی سڑک پر بڑے اور گہرے گڑھوں کے باعث ٹریفک کی رفتار اتنی سُست ہو جاتی ہے کہ پیچھے کئی کلومیٹر تک ٹریفک جام کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اوپر سے بڑی مصیبت یہ کہ سبزی اور فروٹ منڈی اور کئی صنعتی اداروں کی وجہ سے یہ سڑک ہیوی ٹریفک سے بھری رہتی ہے۔ ویسے تو روڈ پر چوبیس گھنٹے ہی ٹرک دندناتے پھرتے ہیں لیکن شام ہوتے ہی اچانک سینکڑوں کی تعداد میں ٹرک ایک دم سڑک پر آ جاتے ہیں جنہیں ٹریفک پولیس سٹیڈیم روڈ والے اشارے سے قبل سڑک کنارے قطار لگوا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ ٹرکوں کی تعداد کا اندازہ اِس بات سے بھی لگائیے کہ کہیں سے چار اور کہیں سے پانچ رویا سڑک پر تین روؤں پر ٹرک کھڑے کر دیئے جاتے ہیں اور باقی ساری ٹریفک کے لیے ایک یا دو رویں کھلی رکھی جاتی ہیں جس سے ٹریفک کے بہاؤ میں بے انتہا سُستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپ کی گاڑی کو آگے پیچھے دائیں بائیں سے ٹرک ایسے گھیر لیتے ہیں جیسے کسی رضیہ کو غنڈے گھیر لیں، ایسی صورت میں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق آپ کی بے بسی قابلِ دید ہوتی ہے۔ اور ایسے میں کوئی ٹرک عین بیچ سڑک خراب ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ اب تو پورا دن کوئی کتنی بھی کوشش کر لے ٹریفک کی روانی کو معمول پر نہیں لا سکتا۔
ٹریفک جام ہو جائے تو ایک نئی مصیبت کسی یوٹرن پر مڑنے والی گاڑیاں ڈال دیتی ہیں۔ ٹریفک جام نہ ہو تب بھی عمومی رویہ یہی ہے اور ٹریفک جام ہو تو پھر تو یہ اور بھی زیادہ ہو جا تا ہے کہ آپ نے یوٹرن سے مڑنا ہے تو گاڑی کو انتہائی دائیں رکھیے تا کہ جب آپ گاڑی موڑیں تو پیچھے آنے والی ٹریفک کے لیے رکاوٹ نہ بنے لیکن اتنی عقل کہاں سے لائی جائے۔ مڑنا ہے لیکن گاڑی انتہائی بائیں پر رکھیں گے اور یوٹرن آئے گا تو ایک دم دائیں مڑنے لگیں گے، پیچھے سے آنے والی پہلے  سے ہی عذاب جھیلتی ٹریفک کے لیے ایک  اور عذاب بنا دیں گے۔ پھر جانا آگے ہو گا لیکن تھوڑا سا راستہ بچانے کے لیے اگلے یوٹرن کی بجائے پچھلے یوٹرن پہ مڑیں گے اور انتہائی خطرناک طریقے سے غلط سمت کی طرف گاڑی ڈال دیں گے۔ ٹریفک قوانین گئے تیل لینے۔۔۔ یہ حرکت پہلے سے جام ہوئی ٹریفک کی سنگینی کو اور بڑھا دیتی ہے۔
موٹر سائیکل سواروں پر تو جیسے ٹریفک کا کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ کہیں سے بھی آئیں گے اور بیچ میں گھسیں گے۔ ٹریفک جام ہو یا نہ ہو، یہ کبھی سیدھے راستے سے نہیں جائیں گے۔ چند قدم پر یوٹرن ہے لیکن وہ موٹرسائیکل سواروں کے لیے تھوڑی ہے۔ وہ تو کہیں سے بھی سڑک کے درمیان گرین بیلٹ پر چڑھیں گے اور ایک دم سڑک پر آ دھمکیں گے۔ اشاروں پر رکنا اِن کے لیے سب سے زیادہ محال ہوتا ہے۔ ذرا موقع ملا نہیں اور یہ موٹرسائیکل لے کر اڑے نہیں۔ نہ اپنی جان کی پرواہ اور نہ سڑک پر کسی اور کی جان کی فکر، کئی حادثات صرف اِن کی اِنہی لاپرواہیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جن میں نقصان بھی زیادہ انہی کا ہوتا ہے لیکن سمجھتے پھر بھی نہیں۔
ٹریفک جام کے دوران ایک اور بدتہذیبی یہ ہوتی ہے کہ سڑک کے انتہائی بائیں چلتی ٹریفک کو کوئی پٹرول پمپ یا کوئی کچا راستہ نظر آ جائے تو فوراً گاڑی اُس راستے پر ڈال دیں گے اور جہاں وہ راستہ ختم ہو گا وہاں دوبارہ ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش میں سب کے لیے پریشانی کا باعث بنیں گے۔ اِن سب بدتہذیبیوں میں پڑھے لکھوں اور اَن پڑھ ڈرائیوروں کی کوئی قید نہیں ہے، کھوتا گھوڑا سب برابر ہیں۔
اور ٹریفک جام کی یہ کہانی صرف آئی جے پی روڈ کی نہیں ہے، ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ ہم نے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کو پاگل پن کی حد تک بڑھا لیا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیاں اس بے ہنگم طریقے سے آپس میں گتھم گتھا نظر آتی ہیں کہ اِ س کا حل بھی کوئی نہیں سوجھتا۔ چچھلی دو دھائیوں میں ہم نے گاڑیوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کر لیا ہے اور کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کیا ہماری سڑکیں اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں؟ اسلام آباد کی چھے رویا کشمیر ہائی وے (جس کا نام کشمیر کو آزاد کروانے کی عظیم جدوجہدمیں سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے) پر آپ پچاس سے زیادہ رفتار پہ گاڑی چلا کر دکھا دیجئے۔
میں کئی سال واہ کینٹ سے روزانہ اسلام آباد آتا رہا ہوں۔ میں نے جی ٹی روڈ کو ہمیشہ نامکمل ہی پایا ہے۔ روڈ بنتی ہے اور ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ نہ ٹھیکہ دینے والوں پر کوئی گرفت کرتا ہے اور نہ ٹھیکہ لینے والوں کو کوئی پوچھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی جنگل ہے جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کرتا ہے۔ روات سے لے کر حسن ابدال تک روڈ پر گاڑیاں بمپر ٹو بمپر چلتی ہیں۔ آبادی اُبل اُبل کر سڑک کے کناروں تک آ رہی ہے، ٹریفک حادثات روز کا معمول ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ اِن مسائل کا کوئی حل نکالا جائے۔ شہروں کی اندرونی سڑکیں ہوں یا جی ٹی روڈ جیسی مرکزی شاہراہ، ٹرک دن رات دندناتے پھرتے ہیں۔ ریلوے کی مال گاڑیوں کا نظام تباہ حال ہے اور اِس کا آغاز بھی ایک آمر ضیاءالحق کے دور سے ہوا تھا، جب نیشنل لاجسٹک سیل کے ٹرک سڑکوں پر لائے گئے اور تب سے اب تک نہ تو ریل کی مال گاڑیوں کا نظام بحال ہو سکا اور نہ ہی سڑکوں کی حالت بحال ہو سکی البتہ این ایل سی کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ٹرانسپورٹروں کی چاندی ہو گئی ۔ یہی حالات رہے تو چند سالوں میں سڑکوں پر گاڑی چلانا عملاً ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن ارباب اختیار کو  غدار غدار کھیلنے سے فرصت ملے تو عوام کے ان مسائل  پر بھی کچھ گفتگو ہو۔لیکن انہیں اس ساری صورتحال کا ادراک بھی کب ہے، وہ جب چلتے ہیں تو ان کے اعزاز میں روٹ لگائے جاتے ہیں اور وہ آگے پیچھے سائرن بجاتی گاڑیوں کے درمیان ایسے دندناتے ہوئے گزرتے ہیں جیسے یہ سڑکیں ان کے ابا دادا ان کے لیے بنا کر گئے ہوں۔ کبھی ٹریفک جام میں پھنسیں تو خلق خدا کی اذیت کا اندازہ بھی ہو۔
ٹریفک اور سڑکوں کی زبوں حالی ایسے مسئلے ہیں کہ میں اِن پر صفحوں کے صفحے کالے کر سکتا ہوں لیکن کہیں تو اختتام کرنا ہے۔ شروع میں جس ٹریفک جام کا ذکر کر رہا تھا وہ کہانی ابھی ادھوری ہے۔ روڈ سے کالونی میں مڑا تو آگے سڑک بند تھی اور پولیس اہلکار کھڑے تھے کیونکہ اہل تشیع بھائی چہلم منا رہے تھے۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے پولیس اہلکار سے عرض کی کہ حضور یہ ساتھ میرا گھر ہے اور آپ نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ جواب آیا سر جلوس کی وجہ سے راستہ بند ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی یہ دو قدم پر میرا گھر ہے۔ پھر جواب ملا کہ سر جب تک جلوس ہے تب تک راستہ نہیں کھول سکتے، آپ گاڑی یہاں سائیڈ پر لگا کر انتظار کر لیں۔ میں نے پوچھا جلوس کب تک ہے؟ جواب آیا سر گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ گاڑی یہاں کھڑی کر کے پیدل تو جا سکتا ہوں یا نہیں؟ جواب ملا سر پیدل بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلے سے اُبلا ہوا دماغ اور اُبل گیا۔ لمبا راستہ کاٹ کر گھر کی طرف گیا۔ ایک طبقے کے Right of Demonstration کے لیے باقی سب کا Right of Movement سلب کر لیا گیا حتیٰ کہ میرا گھر جانے کا راستہ بھی بند کر دیا گیا۔ اِس اکیسویں صدی میں بھی کیا ہم کوئی ایسی راہ نہیں نکال سکتے کہ رائٹ آف ڈیمانسٹریشن کے ساتھ باقیوں کا رائٹ آف موومنٹ بھی برقرار رہ سکے؟ گھر کی طرف دوسرا لمبا راستہ لیا، دماغ پہلے ہی خراب تھا کہ ایک راہگیر کے ساتھ گاڑی کا شیشہ ٹکرا گیا۔ خدا معلوم حالات کا مارا کون تھا کہ ذرا سا شیشہ لگا، نہ اُسے کچھ ہوا نہ شیشے کو کچھ ہوا لیکن برا بھلا کہنے لگا۔ لڑنے کی نہ عادت ہے اور نہ اُس وقت ہمت تھی اور  الحمدللہ سڑک پر لڑنے کی جہالت سے اللہ نے ہمیشہ محفوظ رکھاہے۔   میں نے اُس بندے سے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ ہلا کر معذرت کر لی۔
یہ تو صرف ٹریفک کی مسائل اور بدتہذیبیوں کا ذکر تھا۔ میرے خیال میں یہ ابھی بھی نامکمل ہے۔ اس موضوع پر میں کتاب بھی لکھ سکتا ہوں۔ لیکن ہماری ٹریفک کی یہ بھیانک تصویر کھینچتی تحریر اتنی ہی کافی ہے۔ رہ گئی بات کہ ٹریفک مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے، یہ موضوع کسی اگلی تحریر کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں