دہلی سے کوٹلہ تک۔۔۔عامر عثمان عادل

ایک عظیم معلمہ کی داستان حیات !
ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی اس لڑکی کا بچپن دہلی کے سکول میں گذرا۔ دادا اپنے وقت کے نامور عالم و طبیب اباجان جامعہ ملیہ دہلی کے پہلے متعلم پھر معلم ، زمانہ طالب علمی میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملنے کا شرف حاصل ہوا قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی کٹھنائیوں کی چشم دید گواہ۔۔
وطن واپسی پر لالہ موسی کے تاریخی ٹیچرز ٹریننگ سکول سے جے وی ( آج کے پی ٹی سی کے مترادف ) کا امتحان پاس کیا دم آخر تک اس کورس کے سمعی و بصری معاونات سنبھال رکھے تھے
بطور معلمہ لالہ موسی کے نواحی گاوں میں پوسٹنگ ہوئی
ماں باپ کی لاڈلی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی، جب مدرسے جاتی تو اس شان سے کہ سالم تانگہ اس کا منتظر ہوتا ( جس کی وجہ اس زمانے میں بھی عورت کا گھر سے نکلنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ آج )
بیاہ کر کوٹلہ آئی تو ایسے گھرانے میں جسے منشیوں کا خاندان کہتے ۔ سسر اپنے وقت کے نامور استاد جو گھوڑی پر سوار سکول جایا کرتے اور خاوند پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ کے سند یافتہ
شادی ہوئی تو اس کو سروس کرتے 7 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ مگر مجازی خدا کا حکم تھا کہ میں نہیں پسند کرتا گھر آؤں تو دروازے پہ تالہ پڑا ہو اس نے چوں کی نہ چراں، سروس کو خیر باد کہہ دیا اور جی جان سے گھر داری میں جت گئی۔
جلد ہی سلیقے سگھڑاپے سے نہ صرف سسرال بلکہ گاؤں بھر میں اس کا چرچا ہونے لگا ۔ پردے کی پابند ، گھر داری میں ماہر کفایت شعار
اس کی زندگی ایک کڑی آزمائش سے کم نہ تھی سسرال کے مجبور کرنے پر اپنی نازک سی چھوٹی بہن کو اپنے دیور سے بیاہ کر اپنے گھر لے آئی۔ جو ایک برس بعد ہی اچانک داغ مفارقت دے گئی
ساس سسر بڑھاپے کو پہنچے بیمار ہوئے تو ان کی خدمت کا حق ادا کر کے دکھا دیا، صاف اجلے لباس میں ملبوس بہترین بستروں پہ تکیہ لگائے بے بے جی اور بابا جی کو لوگ دیکھتے تو حیران رہ جاتے
دادا کا اصرار بڑھا تو ابا بھینس خرید لائے ۔ ساری زندگی علمی و ادبی گھرانے میں گذارنے والی یہ بندی اس امتحان میں بھی سرخرو ٹھہری پردے میں رہ کر بھینس کو سنبھال کر دکھا دیا ،اس کو نہلانے سے لے کر دودھ دوہنے تک تمام ذمہ داریاں پوری کر دکھائیں۔
اس کے ہاتھ میں دست قدرت نے کمال کا ذائقہ بھر دیا جس شے میں ہاتھ ڈالتی کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔
سلیقہ ایسا کہ اچار مربے چٹنیاں تو اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا عرق تک خود کشید کر لیتی۔
پورے محلے کی عورتیں کسی بھی ایمر جنسی کی صورت اس کا دروازہ کھٹکھٹاتیں ، اور فیض یاب ہو کر لوٹ جاتیں۔
قیامت کی گھڑی تھی جب اس کے جوان خوبرو بیٹے کا لاشہ سوئٹزر لینڈ سے آیا ہمیں دھڑکا لگا تھا کہ یہ صدمہ کیسے برداشت کر پائیں گی مگر دنیا نے دیکھا صبر و قناعت کے پیکر میں ڈھلی اس خاتون نے یہ پہاڑ سا غم اس قدر متانت وقار سے جھیلا کہ الٹا ہمیں دلاسہ دیتی نظر آئیں
خون کے سگوں نے خاوند کو بھڑکایا تو روایتی مرد ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابا نے گھر کا خرچہ بند کر دیا۔
زبان پہ ایک لفظ بھی شکوے کا لائے بنا اس نے محلے کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا رفتہ رفتہ یہ مدرسہ پھلتا پھولتا گیا پورے گاؤں کے بچے ہمارے گھر آ جاتے۔
اکثر لوگ تو اس مدرسے کا انتخاب گھر کے ماحول اور معلمہ کی شخصیت کی وجہ سے کرتے ایک لمبی فہرست ہے اس مدرسے سے کسب فیض کرنے والوں کی۔
بچے بڑے مرد عورتیں سب عقیدت و پیار سے انہیں خالہ جی کہتے
سارا دن طالب علموں کے ساتھ مغز ماری ساتھ گھر داری
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے انہیں خود سے پہلے رات کو سونے کے لئے بستر پہ دیکھا ہو اور صبح آنکھ کھلتے ہی انہیں خانہ داری میں مصروف نہ پایا ہو۔
خاوند کو برین ٹیومر لاحق ہوا بیماری طویل ہوتی گئی نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا صبر و رضا کی بندی نے خاوند کو ہتھیلی کا چھالا بنا لیا اس کی پٹی سے لگ گئی ہم پہ کوئی بوجھ نہ ڈالا، اپنے تن ناتواں پہ سب سہہ لیا، خاوند دنیا سے رخصت ہوا۔
ایک اور امتحان منتظر تھا کچھ مہربانوں نے سب سے چھوٹے بیٹے کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا ایک دو نہیں 14 پرچے
ساری ساری رات اس کی رب کے حضور گڑگڑاتے گذر جاتی
پھر ایک وقت آیا کہ اس کا ایک نالائق بیٹا اس کی دعاؤں کے طفیل ایم پی اے بن گیا۔
میں رات کو جس پہر بھی واپس آتا پاؤں دبائے بنا بستر پہ نہ جاتا مجھے کہتی رہ جاتیں کہ بیٹا تم خود تھکے ہوئے آتے ہو۔
پھر وہ دن بھی آیا جب طبیعت خراب ہونے پر میں سی ایم ایچ لے گیا جاتے ہی ای سی جی کروائی ڈاکٹر وسیم عالمگیر کے پاس پہنچا تو وہ ای سی جی دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور چیخ کر کہنے لگے آپ انہیں چلا کر کیوں لائے انہیں شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے فوری طور پر انہیں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کیا ،رات تک طبیعت کچھ سنبھلی تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں جا کر دیکھتا وہی صبر وہی حوصلہ وہی ٹھہراؤ۔۔
امی کیسی ہے طبیعت؟
دھیمے لہجے میں کہہ دیتیں میں ٹھیک ہوں اب
اگلے روز شام کو ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلایا اور کہا جائیں اماں جی کو خدا حافظ کہہ لیں ایک دم سے ان کی طبیعت بگڑ چکی ہے
خود کو گھسیٹتا ہوا اندر پہنچا
سانسیں اکھڑ چکی تھیں آکسیجن لگی تھی
آوازیں دیتا رہ گیا امی جی امی جی سن لیں ناں
جب کوئی جواب نہ ملا تو اپنی متاع عزیز اپنی جنت کے ماتھے پہ بوسہ دیا مگر الوداع نہ کہہ پایا
خدا کی بندی اپنے رب کے حضور پیش ہو چکی تھیں
اس حالت میں کہ فرشتوں نے کان میں سرگوشی کر دی ہو گی
یا ایھا النفس المطمعنہ ارجعی الی ربک راضیہ مرضیہ
فادخلی فی عبادی فادخلی جنتی۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply