وحشتناک ظلم۔۔۔۔۔شاد مردانوی

یہ ایک وحشت ناک ظلم تھا
جس پر یقیناً مجھے اجر ملا ۔۔۔

آج اپنی بیٹی عبیر کا سی ٹی سکین کروانے گیا تھا چار سال پہلے فٹس کے جھٹکوں کی وجہ سے اس کے دماغ میں کوئی مسئلہ ہے ابھی عبیر کا سکین ہونے میں وقت تھا ہم وہیں لیب میں بیٹھ گئے ۔۔

کچھ دیر فیس بک واٹس اپ گیم وغیرہ میں گزارا اس کے بعد لیب میں موجود لوگوں کا جائزہ لینے لگا ایک فارسی بولنے والا گھرانہ تھا ان کی فارسی سمجھنے کی کوشش کرنے لگا ایک سندھی ملازم تھا وہ بات کرتا تو اس کے دبے لہجے میں بھی ایک طمطراق اور طنطنہ کی ہمک مخاطب کو گڑبڑانے کو کافی ہوتی

کراچی میں موجود سندھیوں کے لہجے میں موجود اکڑ اور احساس ملکیت کو انسان اور زمین کے لاکھوں برسوں کے ساتھ جوڑا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیات پر غور کرنے لگا ۔۔

ایک لڑکی کو دیکھا جو شباب کی پختگی تک پہنچ چکی تھی ۔ اس کے تیز ترشے ہوئے ہونٹ اور اس کی ناک کی نوک دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بلوچ ہے لیکن بلوچ لڑکیاں شہروں میں بھی اپنی ثقافت سے گہرا جوڑ رکھتی ہیں اس کے کانوں کی طرف نگاہ کی جن میں سونے کے نفیس سے رنگ تھے اس کے لباس کو دیکھا جو جدت کی طرف میل رکھتا شہری لباس تھا اس کے سینڈل سے قیاس لگانے کی کوشش کی کہ اس کے بدن پر کہیں بھی بلوچ ثقافت کا کوئی نشان نہ تھا وہ خوبصورت سے پاپوش زیب قدم کئے ہوئے تھی لیکن میں ابھی تذبذب میں تھا پھر وہ کاؤنٹر کے قریب آئی جہاں میں اس کی آواز سن سکتا تھا۔۔

اور جب اس نے بات کی تو دو جملوں میں پتہ چلا کہ نہیں وہ اردو بولنے والی سلجھی ہوئی خاتون ہیں اس کے بات کرنے کا سلیقہ الفاظ کا چناؤ ،نشست و برخاست اس کو ایک اچھے گھرانے کی سلجھی ہوئی لڑکی ثابت کر رہا تھا ۔

جب وہ اپنی نشست پر جاکر بیٹھی تو باہر سے ایک میلا کچیلا درمیانی عمر کا شخص آیا شیو بڑھی ہوئی چال میں ارد گرد سے بے پروائی اور طور نا آشنائی اور اچھے لیکن گندے جوتے اس پر دوسری نگاہ ڈالنے سے روکتے تھے ۔

اس کی گود میں تین سال کی عمر کا صاف ستھرا بچہ تھا جو اس نے خاتون کو تھمایا ۔ خاتون نے بچے کو ماں کی طرح گود لیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ تین سال کا بچہ اتنی دیر اس نے ملازم کے پاس کیوں چھوڑا ۔۔۔

دس بارہ منٹ گزرے تو خاتون نے بچی مرد کو دی اور خود واش رومز کی طرف چلی گئی قدرے طویل وقفے کے بعد آئی تو مرد نے لیب میں موجود افراد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلند آواز میں خاتون کو ڈانٹا ۔

” اگر ڈاکٹر بلاتا اور تم لیٹرین میں ہوتی تو ڈاکٹر تیرے باپ کا نوکر ہے جو تمہارا انتظار کرتا ۔ “

خاتون کا گندمی چہرہ بے عزتی ، تضحیک ، بے بسی اور غصے سے سرخ انار ہوا

نظریں جھکائیں اور چپ کرکے بیٹھ گئی اور وہ جانور باہر چلا گیا جو یقینا اس کا ملازم نہیں تھا اس کا شوہر تھا وہ میرے سامنے ہی کچھ فاصلے سے بیٹھی تھی میں دیکھ رہا تھا کہ کافی دیر تک اس کی آنکھوں میں شبنمی قطرے جھلملاتے رہے ۔۔۔

لڑکی کے اندر کا طوفان جب تھم گیا بلکہ شائد تھما نہ ہو بلکہ اس کی زندگی انہی طوفانوں کی عادی ہو اور وہ ان پر قابو پانا سیکھ چکی ہو خیر کچھ دیر بعد وہ خاتون اردگرد کا جائزہ لینے لگی مجھے دیکھا ، میری بیگم کو دیکھا ، عبیر کو دیکھا ۔ میری بیگم نے عبیر کو سنبھالتے ہوئے اپنا پرس مجھے پکڑایا کچھ دیر پرس میرے پاس رہا پھر میں نے بیگم کو لوٹا دیا تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بیگم نے کہا آپ عبیر کو ذرا گود میں لے لیں میں تھک چکی ہوں ۔

اور میں نے قدرے بلند آواز میں ترش روئی سے بیگم کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔

اتنی نازک نہیں ہو تم کہ چھوٹی بچی نہیں سنبھال سکو میں ملازم نہیں ہوں تیرا کہ تمہیں لے کر اسپتالوں کے چکر بھی کاٹتا رہوں اور بچے بھی سنبھالتا پھروں ۔۔۔۔

اور یہ میرا بیگم پر اجنبیوں کے سامنے چیخنا اس کی عزت نفس یوں پارہ پارہ کرنا ایک وحشت ناک ظلم تھا جو میں نے شعوری طور پر کیا ۔۔

کچھ وقفہ دے کر میں بیگم کو لیب سے باہر لے آیا اور اس کو بات سمجھانے لگا کہ آپ نے وہ سامنے والی خاتون کے ساتھ جو اس کے شوہر نے کیا وہ دیکھا ۔ ؟
کہنے لگی خوب غور سے دیکھا اور دل ہی دل میں خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوئی کہ تم ایسے نہیں ہو اور پھر تم نے جب مجھے ڈانٹا اور اب باہر لائے ہو تو یہ سب بھی سمجھتی ہوں ، جانتی ہوں تم کو کہ کیوں تم نے مجھے ڈانٹا اور اب باہر مجھے معذرت کرنے کے لیے لائے ہو تم معذرت مت کرو تم جب مجھے ڈانٹ رہے تھے تو مجھے اچھا لگ رہا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

میں سمجھ رہی تھی کہ تم اس خاتون کو اپنے روئیے سے سمجھانا چاہ رہے تھے کہ ایسے طوفان ہر جگہ ہوتے ہیں جو بپتا خود پر بیت رہی ہو کسی اور پر بیت رہی ہو تو درد کم تو نہیں ہوتا صبر ضرور آجاتا ہے ۔

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply