جسے اللہ رکھے(آخری قسط)۔۔عزیز اللہ خان

میاں عرفان اللہ ڈی ایس پی کے دفتر میں لیڈی کانسٹیبل نے حمیدہ فوجی کا مشکوک نمبر ملایا۔تھوڑی دیر گھنٹی ہونے پر کسی شخص نے فون اُٹھا کر ہیلو کیا تو میرے علاوہ میاں عرفان اُللہ بھی چونک اُٹھے اور ہم دونوں نے فون پر موجود شخص کی آواز پہچان لی یہ حمیدہ فوجی کی آواز تھی جو ہیلو ہیلو کررہا تھا۔ ہدایت کے مطابق لیڈی کانسٹیبل نے اپنی سریلی آواز میں ہیلو کرکے فون بند کردیا۔تھوڑی دیر بعد حمیدہ فوجی کے نمبر سے لیڈی کانسٹیبل کے نمبر پر کالز آنا شروع ہوگئیں۔یہ مرد کی فطرت ہے اور خاص طور پہ وہ مرد جو خواتین سے باتیں کرنے کے شوقین ہیں ان کا ردعمل ہمیشہ ایسا ہی ہوتاہے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد میں نے لیڈی کانسٹیبل کو اشارہ کیا کہ کال اٹینڈ کرے اس دوران ہم اسے سمجھا چُکے تھے کہ اس نے کیا بات کرنی ہے۔ فون اٹینڈ کرنے پر حمیدہ فوجی نے لیڈی کانسٹیبل سے پوچھا کہ وہ کون بول رہی ہیں، جواب میں اس نے بتایا کہ وہ احمد پور شرقیہ سے بول رہی ہے غلطی سے آپکا نمبر مل گیا تھا، معذرت چاہتی ہوں؟ مگر حمیدہ فوجی کے لہجے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ فون کا ل لمبی کرکے مزید بات کرنا چاہتا ہے۔ہدایت کے مطابق لیڈی کانسٹیبل نے فون بند کردیا مگر حمیدہ فوجی کی کالز مسلسل آتی رہیں۔ہم نے فون سیٹ لیڈی کانسٹیبل کے حوالے کرکے اسے ہدایت کردی کہ وہ مناسب طریقہ سے حمیدہ فوجی کو باتوں کے ذریعے پھنسائے اور کچھ دنوں بعد اس سے ملنے کا پروگرام بنا نے کی کوشش کرے تاکہ اسے گرفتار کیا جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو دن بعد لیڈی کانسٹیبل نے مجھے فون پر بتایا کہ حمیدہ فوجی سے اسکی بات چیت شروع ہوگئی ہے وہ رات کو کافی دیر تک اُس سے باتیں کرتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو ملتان کا ایک کاروباری شخص بتاتا ہے
پلان کے مطابق لیڈی کانسٹیبل حمیدہ فوجی سے مسلسل بات کرتی رہی۔پندرہ دن گزرنے کے بعد آخر کار اس نے حمیدہ فوجی سے ملاقات کا پروگرام بنا لیا مگر ملنے کے لیے حمیدہ فوجی کی ایک شرط تھی کہ وہ اسے “دربار حضرت سلطان باہو”پر ملے گا اور اپنی محبت سے ملنے کا آغاز اسی دربار عالیہ سے کرے گا کیونکہ وہ خود کو اس دربار کا مرید بتاتا ہے -حمیدہ فوجی کی یہ عادت بھی بڑی عجیب تھی وہ کسی سے بھی ملنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتا تھا جہاں زیادہ لوگ ہوں اور اسکی یہ وجہ ہماری سمجھ سے باہر تھی۔ مگر کیونکہ ہم نے اسے گرفتار کرنا تھا اس لیے لیڈی کانسٹیبل کو کہا گیا کہ وہ حمیدہ فوجی سے ملنے کا وعدہ کر لے اور اُس کہے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ دربار حضرت سلطان باہو پر ضرور آئے گی اس طرح وہاں وہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے۔ 2006میں موبائل فون پرواٹس ایپ اور دیگرسماجی رابطے کی اپپلی کیشنز ابھی متعارف نہیں ہوئی اور تصویر بھی نہیں بھجوائی جا سکتی تھی – حمیدہ فوجی لیڈی کانسٹیبل کو دیکھنے کے لیے بے قرار تھا اُس نے لیڈی کانسٹیبل کو اپنے بارے میں بتایا تھا کہ وہ 6فٹ کا خوبصورت گورا چٹا جوان ہے۔ حالانکہ دیکھنے میں حمیدہ فوجی کہ نین نقش واجبی تھے اور رنگ بھی کالا تھا۔
حمیدہ فوجی نے جمعرات کے دن ملنے کا پروگرام بنایا جیسے ہی مجھے میاں عرفان نے اس بارے میں بتایا تو میں اپنے تھانہ کے کچھ ملازمین کے ساتھ الصُبح ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کے دفتر پہنچ گیا۔ حمیدہ فوجی نے دوپہر دو بجے دربار حضرت سلطان باہو پر ملنے کا وقت دیا تھا۔لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ ایک اور خاتون کو تیار کیا گیا جس نے اس کی ماں کا کردار ادا کرنا تھا۔ان دونوں کے لیے ایک علیحدہ کار کا انتظام کیا گیا اور سفید پارچات میں ملبوس کانسٹیبل بھی اُن کے ساتھ بطور ڈرائیور رکھا گیا کا تاکہ وہ ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ لیڈی کانسٹیبل اور ہمراہی خاتون کی حفاظت کر سکے -لیڈی کانسٹیبل نے حمیدہ فوجی کو بتایا تھاکہ اسکا باپ سعودی عرب میں اپنا کاروبار کرتا ہے اس کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اسے پیسوں کی کوئی کمی نہ ہے اور وہ ڈرائیور کے ساتھ اپنی کار پر آرہی ہے –
ہم سب احمدپور شرقیہ سے روانہ ہوگئے۔ہم نے اوچشرف ،علی پور ،مظفر گڑھ والا راستہ اختیار کیا دربار حضرت سلطان باہو ضلع جھنگ کے قصبہ گڑھ مہاراجہ میں واقع ہے اور دربار پر ہر وقت زائرین کا رش ہوتا ہے
ہم سب پرائیویٹ گاڑیوں میں سوار تھے مظفر گڑھ سے لیڈی کانسٹیبل اور اسکی والدہ کا کردار ادا کرنے والی خاتون کو ڈرائیور کے ساتھ آدھا گھنٹہ پہلے دربار حضرت سلطان باہو روانہ کر دیا گیا تھا تاکہ یہ لوگ ہم سے پہلے پُنہچ جائیں ایک ساتھ دربار پر تین گاڑیوں کو دیکھ کر حمیدہ فوجی کوشک ہوسکتا تھا -میں اور ڈی ایس پی میاں عرفان صاحب ایک ہی کار میں سوار تھے ہمارا لیڈی کانسٹیبل سے اُس کے ذاتی نمبر پر مسلسل رابطہ تھا اور وہ ہمیں ایک ایک پل کی خبر سُنا رہی تھی دوسرے فون ہر حمیدہ فوجی بار بار لیڈی کانسٹیبل کو فون کر کے پوچھ رہا تھا کہ اب وہ کہاں پُنہچی ہیں ؟ ہمارے ساتھ ایک پرائیویٹ ویگن بھی تھی جس میں سوار پولیس ملازمین کو دیہاتی طرز کے کپڑے پہنائے گئے تھے تاکہ وہ زائرین معلوم ہوں اور اُن پر کسی کو شک نہ ہو-
لیڈی کانسٹیبل نے دربار پر پُنہچ کر مجھے بذریعہ فون مطلع کردیا جسے ہدایت کی گئی کہ وہ کار میں انتظار کرے اور جونہی ہماری گاڑیاں اُسے نظر آئیں تو کار سے اُتر کر اپنی ساتھی خاتون کے ہمراہ دربار کے اندر چلی جائے-جیسے ہماری گاڑیاں اُن کی کار کے پاس سے گزریں تو میں نے دیکھا لیڈی کانسٹیبل جو سفید پارچات میں ملبوس تھی اور کالی چادر اُوڑھ رکھی تھی اتر کر دربار کی طرف چلی گئی اُس کی ساتھی خاتون بھی ساتھ تھی -میں اور میاں عرفان صاحب اپنی کار سے اُتر کر دربار شریف کے منتظم کے کمرہ میں چلے گئے ہمارے ساتھ آئے ملازمین بھی آہستہ آہستہ دربار کے اندر چلے گئے یہ تمام ملازمین مسلحہ تھے اور اُنہوں نے اپنے ہتھیار چھپا رکھے تھے-منتظم کے کمرہ سے دربار حضرت سُلطان باہو کا صحن صاف نظر آتا تھا منتظم صاحب سے ہمارا تعارف کروا دیا گیا تھا جنہوں نے تعارف کے بعد ہماری خاطر مدارت شروع کر دی اُنہیں صرف یہ بتایا گیا کہ ایک مشکوک دہشت گرد کی تلاش میں آئے ہیں -لیڈی کانسٹیبل اپنے ساتھی خاتون کے ساتھ دربار کے سلام کے بعد باہر صحن ایک چھوٹے درخت کے نیچے بیٹھ گئی ہم سب کی نظریں اُن پر مرکوز تھیں کہ کب حمیدہ فوجی آکر لیڈی کانسٹیبل سے بات کرے گا اور ہم لپک جھپک کر اُسے قابو کر لیں گے-حمیدہ فوجی موبائل فون پر بار بار لیڈی کانسٹیبل کو یقین دہانی کر رہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر میں دربار پر پُنہچ جائے گا اور ہم سب اس فون کال کے بعد مزید الرٹ ہو جاتے تھے
اب شام ہونے والی تھی مگر حمیدہ فوجی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا مغرب سے تھوڑا پہلے حمیدہ کی کال آئی کہ اُسکی کار راستے میں خراب ہو گئی ہے وہ اب نہیں آسکتا یہ سُن کر ہم سب کے مُنہ لٹک گئے ایک بار پھر حمیدہ فوجی ہمیں چکر دے گیا تھا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اگر اُس نے نہیں آنا تھا تو لیڈی کانسٹیبل کو اتنی دور دربار پر کیوں بلایا اُس سے پیار محبت کی پینگیں کیوں بڑھائیں مگر ان تمام باتوں کا بس ایک ہی جواب تھا کہ حمیدہ فوجی پکڑا نہیں گیا تھا۔
ہم سب مایوس تھے ہمارے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر میاں عرفان اُللہ نے ہماری ڈھارس بندھائی اور ہم سب واپس احمد پور شرقیہ روانہ ہو گئے راستے میں لیڈی کانسٹیبل کو دیے گئے موبائل پر حمیدہ فوجی کی کوئی کال نہیں آئی رات کو ہم احمد پور شرقیہ پُنہچ گئے میاں میاں عرفان صاحب کو اُن کی رہائشگاہ پر چھوڑنے کے بعد اپنے ساتھی ملازمین کے ساتھ تھانہ نوشہرہ جدید واپس آگیا مگر پریشان بہت تھا کہ آخر یہ کیا ہو گیا ہے حمیدہ فوجی کیوں نہیں پکڑا جا رہا؟
اگلے دن میں دیر تک سوتا رہا میرا موبائل فون بھی سائلنٹ پر لگا ہوا تھا میں سو رہا تھا کہ میرے ملازم فدا نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے وقت دیکھا تو دن کے دس بج رہے تھے دروازہ کھولا تو فدا نے بتایا ڈی ایس پی صاحب آپ کو موبائل نمبر پر کالیں کر رہے ہیں اور آپ فون نہیں اٹینڈ کر رہے اُن سے بات کر لیں- میں نے اپنا موبائل دیکھا تو میاں عرفان صاحب کی دس کالز آئی ہوئی تھیں-میں نے فوری اُنہیں کال کی تو اُن کا موڈ بڑا خوشگوار تھا میں حیران تھا کہ کل تو ہم حمیدہ فوجی کو پکڑنے میں ناکام ہو کر آئے ہیں اور میاں صاحب اتنے خوش ہیں مگر اُن کی خوشی کی وجہ سُن کر میری بھی خوشی کی انتہا نہ رہی- خبر یہ تھی کہ حمید فوجی پوری رات لیڈی کانسٹیبل کی منتیں کرتا رہا ہے اور اپنے نہ آنے کی معافی مانگتا رہا ہے اُس نے کہا ہے کہ وہ کاروباری سلسلہ میں لاہور جارہا ہے پانچ چھ دن وہاں رہے گا اب لیڈی کانسٹیبل کو بھی لاہور کی دعوت دے رہا ہے کیونکہ وہ ازب اس کے بغیر نہیں رہ سکتا-مگر کیونکہ لیڈی کانسٹیبل کو ایسی کوئی ہدایت نہ تھی کہ وہ لاہور جانے کی حامی بھرتی تو اُس نے آج بارہ بجے دوبارہ فون کرنے کا بولا ہے اور حمیدہ فوجی کو بتانا ہے کہ وہ لاہور آرہی ہے یا نہیں؟
میاں عرفان صاحب نے میرے رائے پوچھی تو میں نے فوری حامی بھر لی کیونکہ حمیدہ فوجی کو گرفتار کرنا میری عزت کا مسلہ بن چکا تھا-پڑھنے والے دوستوں سے میں ایک بات ضرور شئیر کرنا چاہوں گا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوششوں پر جتا بھی خرچہ ہوتا ہے وہ متعلقہ ایس ایچ او اپنی جیب سے ادا کرتا ہے اور وہ کہاں سے لاتا ہے یہ آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہے محکمہ پولیس میں افسران آپ کو ایسی کوئی رقم نہیں دیتے-
دوپہر بارہ بجے حمیدہ فوجی کے فون آنے پر لیڈی کانسٹیبل نے محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر لاہور آنے کا اقرار کر لیا اب دوسرے دن دوپہر دو بجے ملنے کا وقت مقرر ہو گیا اب حمیدہ فوجی نے پرل کانٹینیٹل ہوٹل ملنے کا پروگرام بنایا تھا میں اور میاں عرفان حیران تھے کہ حمیدہ فوجی آخر کرنا کیا چاہتا ہے؟
اُسی روز پھر ہم قافلہ کی صورت میں رات کو دس بجے لاہور روانہ ہو گئے میاں عرفان ڈی ایس پی صاحب اور میں ایک کار میں سوار تھے جبکہ لیڈی کانسٹیبل اپنی (والدہ)کے ساتھ الگ کار میں تھی جسکو بار بار حمیدہ فوجی کے محبت بھرے فون آرہے تھے اور لیڈی کانسٹیبل اُس پر احسان جتلا رہی تھی کہ کس طرح اپنے خاندان کی عزت داو پر لگا کر اُس نے ملنے کا پروگرام بنایا ہے
صبح سات بجے ہم سب لاہور پہنچ گئے ۔ سب سے پہلے میں نے ان کو انارکلی میں ناشتہ کروایا اور پھر ایک گیسٹ ہاؤس میں اپنے اور تمام ملازمین کے لیے کمرے لیے ۔لیڈی کانسٹیبل اور اس کے ساتھ آئی عورت کے لیے علیحدہ کمرہ لیا گیا۔ کیونکہ دو بجے دن حمیدہ فوجی سے ملنے کےلیے پرل کانٹیننٹل ہوٹل جانا تھا اس لیے میں نے سب کو تھوڑی دیر آرام کرنے کا کہہ دیا تاکہ ایک بجے تک ہم دوبارہ گیسٹ ہاؤس سے نکلنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ ایک بجے دن ہم سب تیار ہوکر گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے لیڈی کانسٹیبل اور اس کے ساتھ آئی عورت علیحدہ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے جسکو سفید پارچات میں ملبوس مسلح کانسٹیبل چلا رہا تھا کہ اچانک حمیدہ فوجی کا ٹیلی فون آگیا اب اس نے پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں ملنے کا پروگرام منسوخ کرکے چار بجے شام داتا دربار پر بلایا تھا ۔ میں نے میاں عرفان ڈی ایس پی کی طرف دیکھا تو انھوں نے کہاکہ کوئی بات نہیں اگر حمیدہ فوجی وہاں آیا تو بھی پکڑا جائے گا۔ کیونکہ ہم اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے اس لیے یہ پروگرام بنا کہ ہم پہلے داتا دربار پہنچ کر اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لینگے ۔کیونکہ داتا دربار داخلہ کے لیے خواتین اور مردوں کا علیحدہ علیحدہ دروازہ ہے ۔حمید نے لیڈی کانسٹیبل کو خواتین والے گیٹ کے سامنے ٹھیک چار بجے انتظار کا کہا۔ احتیاطََ سفید پارچات میں ایک کانسٹیبل لیڈی کانسٹیبل کی حفاظت کے لیے تھوڑی دور کھڑا کر دیا گیا۔چار بج گئے لیکن حمیدہ فوجی نہ آیابلکہ اس نے اپنا موبائل فون ہی بند کردیا۔ داتا دربار پر رات آٹھ بجے تک ہم سب موجود رہے کہ شاید حمیدہ فوجی اپنا فون آن کرلے مگر اس کا موبائل مسلسل بند جارہا تھا ۔ ہمیں اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ حمیدہ فوجی نے ہمیں دیکھ لیا ہے شاید اسے شک ہوگیا تھا کہ یہ اسے پکڑوانے کا کوئی جال ہے ورنہ احمد پور شرقیہ کی رہنے والی لڑکی کس طرح لاہور آسکتی ہے ۔
ہم ایک دفعہ پھر ناکام ہوکر واپس آگئے حمیدہ فوجی نے اپنا وہ نمبر مستقل بند کردیا تھا ۔ کال ریکارڈ نکلوانے پر نہ تو اس کے نمبر کی لوکیشن دربار حضرت سلطان باہوکے قریب کسی علاقہ میں تھی اور نہ ہی لاہور ۔اس کا مطلب تھا کہ حمیدہ فوجی شروع سے ہی ہم سب کو بیوقوف بنا رہا تھااور اسے لیڈی کانسٹیبل جسے ہم نے بطور”ہنی ٹریپ” استعمال کیا تھا پر شک ہوگیاتھا۔اب ہمارے پاس حمیدہ فوجی کو پکڑنے کا کوئی سراغ نہ تھا ۔میں نے اپنا سارا غصہ بلوحسام کے گھر پر نکالا۔اس کے مال مویشی پکڑکر تھانہ پر کھڑے کردیے۔کچھ دن بعد ایم این ایے ملک عامروارن میرے پاس آگیا اور منت سماجت کی کہ غریب لوگ ہیں ان کا مال واپس کردیں ۔آپکی کلاشنکوف جو بلو حسام لے گیا تھا اس کی قیمت وہ ادا کردیتے ہیں جب وہ پکڑا جائے گا تو آپ بے شک اس سے جو چاہے سلوک کریں ۔ کچھ عرصہ بعد الیکشن کے سلسلہ میں میرا تبادلہ ضلع رحیم یار خان ہوگیا ۔ لیکن حمیدہ فوجی کے نہ پکڑے جانے اور اپنی کلاشنکوف برآمد نہ کرسکنے کی خلش دل میں ہی رہی ۔ رحیم یار خان میں میری پوسٹنگ بطور ایس ایچ او صدر رحیم یار خان ہوگئی۔کچھ عرصہ بعد میں اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے اپنی کلاشنکوف اور حمیدہ فوجی کی گرفتاری بھول چکا تھا کہ ایک دن میرے موبائل فون نامعلوم نمبر سے کال آئی آواز سن کر میں چونک گیا کیونکہ وہ حمیدہ فوجی کی آواز تھی۔ جس نے مجھے بتایا کہ وہ بہاولپور ڈسٹرکٹ جیل میں بند ہے اور وہیں سے بول رہا ہے ۔ تھانہ جلال پور پیر والا پولیس نے اسے کچھ عرصہ قبل گرفتار کرلیا تھا اور پر قتل اورڈکیتی کے بے شمار مقدمات ہیں جن میں سے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے ہیں ۔ میں نے آپ پر فائرنگ کرنے کی معافی مانگنی تھی وہ فائرنگ ہم نے آپ پر نہیں کی تھی بلکہ ہم معراج خان اے ایس آئی کو مارنا چاہتے تھے کیونکہ اس نے ڈڈلی حسام کو پولیس مقابلہ میں مارا تھا ۔حمیدہ فوجی نے یہ بھی بتایا کہ جب آپ ہاشم ڈھول کے ساتھ اُسے ملتان گرفتار کرنے آئے تھے تو ہاشم ڈھول کے لہجہ سے وہ مشکوک ہو گیا تھا بعد میں ہاشم پولیس حراست سے فرار ہوا تو اُس نے مجھے سب کُچھ بتا دیا تھا-لڑکی کے فون پر بات کرنے پر شروع میں تو میں اُس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا مگر دربار حضرت سلطان باہو پر اپنے دوست کو تصدیق کے لیے بھیجا جس نے مجھے بتا دیا کہ لڑکی کے ہمراہ آپ لوگ تھے تو میں محتاط ہو گیا-لاہور میں نے جان بوجھ کر آپ لوگوں کو خراب کرنے کو بُلوایا تھا-
حمیدہ فوجی اب اکثر مجھ سے موبائل فون پر بات کرتا تھا اور ہر دفعہ مجھ سے معذرت کرتا تھا ۔الیکشن 2008 کے بعد میری تعیناتی دوبارہ ضلع بہاولپور میں ہوگئی کچھ عرصہ میں ایس ایچ او یزمان تعینات رہا دوبارہ میری تعیناتی تھانہ نوشہرہ جدید ہوگئی ۔ اس تعیناتی میں، میں نے بلوحسام اور عابد ڈاہڑ کوبھی گرفتار کرلیا ۔ بلو حسام میری کلاشنکوف کچے کے علاقہ میں غلام یسین نامی جرائم پیشہ فرد کو بیچ چکا تھا ۔جس کی اس نے مجھے دُوگنی قیمت ادا کی ۔2009 میں ، میں بطور ڈی ایس پی ترقی یاب ہوکر پہلے ہارون آباد اور پھر جڑانوالہ تعینات ہوگیا ۔ حمیدہ فوجی مجھے جیل سےپھر بھی فون کرتا رہا ۔ ایک دفعہ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی ضمانت ہونے والی ہے بہت جلد آپ سے ملاقات کرنے کےلیے آؤنگا ۔ مگر پھر مجھے حمیدہ فوجی کی کوئی کال نہ آئی کچھ عرصہ بعد مجھے معلو م ہواکہ وہ علی پور کے کچہ میں پولیس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔بلوڈاہڑ نے عابدڈاہڑ کو قتل کردیا اور اب وہ بہاولپور ڈسٹرکٹ جیل میں تین سال سے قید ہے-شفیع ماتم آج کل اپنی بدمعاشی کا ڈیرہ چلاتا ہے اور نئے بدمعاشوں کو ڈکیتی اور بدمعاشی کا فن سیکھاتا ہے ۔ بلو حسام آجکل ایک گینگ بنا کر نوشہرہ جدید اور جلال پور پیروالہ کے علاقہ میں وارداتیں کررہا ہے پتہ نہیں کب وہ بھی کسی پولیس مقابلہ میں مارا جائے گا۔ایک داستان جو ڈڈلی حسام کے قتل ہونے سے شروع ہوئی اس طرح اپنے انجام کو پُہنچی-

Facebook Comments