صدقہ جاریہ۔۔ڈاکٹر سارہ شاہ

تیسری جماعت میں اسلامیات کی کلاس ٹیچر مس شبانہ اپنے پریڈ میں صفوں کے درمیان آہستگی سے ٹہلتی جاتی ہاتھ میں کتاب لئے پڑھتی جاتی ۔۔۔ہم ان کے ساتھ با آواز بلند پڑھتے جاتے ۔۔کبھی کتاب کو دیکھتے کبھی اپنی ٹیچر کو ۔۔زبان پہ سبق اور سہیلیوں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کی پسندیدگی کا اظہار ۔۔۔سلیقہ اور روایات اس وقت فیشن کا لازمی جز ہوتا۔۔سادہ  لباس ۔۔لمبے وسیع ڈوپٹوں کے ساتھ شخصیت کا احاطہ کئے خوش نمائی اور وقار میں اضافہ کرتے اور کسی بھی با ذوق پہناوے کو چار چاند لگاتے۔۔۔نوے کی دہائی کا یہ پہناوا فیشن کے ساتھ حیا کا حسین امتزاج لئے ہوئے  تھا۔مس شبانہ کا یہ تاثر آب تک ذہن پہ ثبت ہے ۔ گھر میں  دینی ماحول ہونے کے باوجود نماز کی پاپندی ان کے کہنے سے آئی۔نماز کے سبق میں بچوں کی رغبت کے لئے 30 دن کی پابندی کا کہا ۔۔اور بچے اسی وجہ سے  کہ ٹیچر نے کہا ہے پابندی سے پڑھنے لگے۔دوسرا اور سب سے بڑا تعارف سورہ فجر کا ہے ۔۔۔ اسلامیات کے سلیبس میں شامل سورہ فجر اسی عمر میں زبانی یاد کی ۔۔۔استاد کو روحانی والدین کا درجہ اسی لئے دیا گیا کہ استاد کی نصیحت کا بہترین اثر بچے لیتے ہیں۔جو دنیا کے علوم سے بھی آراستہ کرتے ہیں اور آخرت کے لئے بھی بچوں کی ذہن سازی اور فکر آج اگر کرتے ہیں ۔۔آج بھی سورہ فجر پڑھتے ہوئے جب اس آیت پہ پہنچتی ہوں”اے نفس مطمئن ،چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام)سے خوش (اور اپنے رب کے نزدیک)پسندیدہ ہے۔۔شامل ہو جا میرے(نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں ۔۔(آیت 30)مس شبانہ کا خیال آتا ہے۔۔۔سوچتی ہوں اس طرح کتنے ہی تعارف اور گواہیاں ہوں گی آخرت میں رب کے حضور ۔ہمارے والدین اور اساتذہ کے لئے۔۔ہمارے نیک اعمال یقینن ہمارے والدین اور اساتذہ جنہوں نے ہمیں باعمل مسلمان بننے کی تربیت دی۔ان کا قول اور عمل ہماری پوری  زندگیوں کے لئے مشعل راہ ہے۔بہترین تحفہ اور احسان جو انہوں نے بہترین تربیت کی صورت میں دیا جس کا ہم حق ادا نہیں کر سکتے۔نیک اعمال کی صورت میں صدقہ جاریہ ان کا نعم بدل ہو گا جو اللہ تعالی ان تمام محترم ہستیوں کو دنیا میں بھی عطا فرمائے اور آخرت میں بھی۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply