حکومت گلگت بلتستان کی بلتستان کش پالیسیاں اور عوامی خاموشی

محترم قارئین راقم نے اب تک کی قلمی زندگی میں کبھی بھی بلتستان اور گلگت کو الگ کرکے کبھی مضمون نہیں لکھا میرے دوست احباب کا ہمیشہ مجھ سے یہی شکوہ رہتا ہے کہ آپ بلتستان کے مسائل پر کم لکھتے  ہیں تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ گلگت کے مسائل حل ہوں گے تو دیگر اضلاع بھی مسائل سے نکل سکتے ہیں ۔ میرا ایمان ہے کہ گلگت بلتستان دو نام اور ایک قالب ہیں ایک دوسرے کے بغیر ریاست کی تعریف اور تشریح بھی ممکن نہیں لہذا میرے نزدیک گلگت اور بلتستان کو دو الگ زاویوں سے دیکھنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔

مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک فیشن چلا ہے کہ عوامی غفلت لاپرواہیوں ،عوامی نمائندوں کے متعصبانہ اور مفاد پرستانہ رویوں پر بھی ریجن کو گنہگار ٹھہراتے ہیں جو کہ میرے خیال سے ہم اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور ظالم اورمفاد پرست لوگوں کو مسلسل عوام پر مسلط رہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے مسائل پر بہت کچھ لکھا جاچُکا ہے لیکن جب سے نون لیگ کی حکومت آئی ہے ایسے ایشو ز پر لکھنا ایک طرح سے شجر ممنوعہ قرار دیا ہوا ہے اس وجہ سے ہم نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ اب مزید کالم کے جھنجھٹ میں پڑ کر خود  کو  پریشان نہیں کرنا ہے لیکن کبھی کبھار ایسے مسائل ایسی من گھرٹ خبریں نظر کے سامنے سے گزر جاتی ہیں  تو دل کرتا ہے کہ دل کھول کر لکھا جائے، لیکن پھر قلم کو روک دیتا ہوں ۔۔

کیونکہ نون لیگ کی حکومت ہے۔ اُن کے منشور میں عوام دوست پالیسی نہیں بلکہ وطن کی  سرحدوں پر لڑ نے والوں سے لڑائی ہے،اُن کے منشور میں جمہوریت کے نام پر شخصی حکومت کے ذریعے مملکت پاکستان کی  جڑوں کو کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے کمزور کرناہے، اُن کے منشور میں اظہار رائے کی آواز  کا گلا دبانا ہے ،لوگوں کے نظریے کو خریدنا او ر مہرے کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ ان دنوں گلگت بلتستان میں دیکھنے کو ملا جو کبھی کہتے تھے کہ گلگت بلتستان نہ کشمیر کا حصہ ہے نہ پاکستان کا بلکہ ایک ملک ہے اس ملک کی سرحدیں پاکستان ،ہندوستان،چین ،روس اور افغانستان سے ملتی ہیں ، اُنہوں نے دیامر جیسے علاقے میں نئی  مملکت کے  قیام کے لیے زمانہ طالب علمی سے لے کر نوکری سے کچھ سال پہلے تک ایک نسل کو تیار کیا، مگر آج وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے نقشے پر گلگت بلتستان کے جو علاقے تنازع  کشمیر کی وجہ سے متنازعہ ہیں ان میں استور بلتستان اور سنٹر گلگت شامل ہیں جبکہ دیامر غذر اور ہنزہ نگر بین الاقوامی عدالت میں آج بھی متنازع نہیں ہیں

اور دوسری جانب سی پیک کا رووٹ ہنزہ اور دیامر سے ہوتا ہوا پاکستان میں شامل ہوتا ہے جو کہ متنازع  علاقے نہیں ہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔ جی ہاں میں ذکر کر رہا ہوں ترجمان حکومت گلگت بلتستان کا جنہوں نے مسلسل جھوٹ بولنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ عرض یہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع کاحالیہ بیان جس کی ہم گلگت بلتستان کے باشندے بھرپور انداز میں مذمت کرتے ہیں ۔پاکستان سے ہماری محبت واقعی میں لامتناہی ہے، ہم نے ہر موڑ پر مملکت پاکستان کے لیے قربانی دی ہے اور دیتے رہیں گے کیونکہ اس ملک کو قائد اعظم نے انسانوں کے لیے کلمہ لاالہ کی بنیاد پر بنایا تھا لیکن آج دیمک کی طرح کھانے والوں کے ہاتھ چلاگیا وہ الگ مسئلہ ہے۔لیکن اس کا  مطلب ہر گز یہ نہیں کہ گلگت بلتستان کی عوام کو پاکستان کے بارے میں خدانخواستہ کوئی شکوک شبہات ہو، ہمارا شکوہ تو اُن حکمرانوں سے جنہوں نے حفیظ الرحمن اور ناشاد جیسوں کو ہم پر مسلط کیا ہوا ہے ۔

لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازع خطہ ہے اور اس بات سے مملکت پاکستان بھی متفق ہے ماضی کے پالیسی سازوں کے کچھ غلط فیصلوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی صوبہ بننے میں بڑی رکاوٹ کھڑی کی ہوئی ہے مگر اس بیان کو لے کر ترجمان حکومت گلگت بلتستان کا بلتستان اور تشیع دشمنی پر اُتر آنا سمجھ سے بالا تر ہے بلکہ اُن کے اُس کالم نے بہت سے لوگوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا ہے جو نون لیگ کو گلگت بلتستان کا مسیحا سمجھ ر ہے تھے۔وہ لکھتے ہیں امریکہ کو سی پیک کسی بھی طرح  ہضم نہیں ہورہا ۔ممکن ہے کہ امریکہ کی  پشت پناہی میں ہندوستان کرگل اور لداخ کے راستے سے دراندازی کر کے بلتستان تک رسائی کی کوئی ناکام کوشش کرے اس حوالے سے گلگت بلتستان کی قوم اور پاک فوج کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔

اُنہوں نے ایسا کیوں لکھا بعد میں جواب دوں گا لیکن اُ  ن کی بند آنکھوں نے شاید یہ نہیں دیکھا کہ افغانستان اس وقت انڈیا کا ایک طرح سے اڈہ ہے جہاں سے وہ پاکستان میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت سی پیک کے خلاف سازشوں کا مرکز افغانستان ہے مگر موصوف کو واخان کی طرف سے سیدھے سی پیک روٹ پر کوئی دراندازی کا خدشہ نظر نہیں آ یااور نہ ہی انڈیا سے سی پیک کے قریب ترین  بارڈر استور سے دراندازی کا کوئی خطرہ نظر نہیں آیا۔ ہاں موصوف کو یہ ضرور  لگتا ہے کہ انڈیا اس کام کے لیے سب سے لمبا روٹ اختیارکرے گا۔ افسوس ہوتا ہے اس قسم کے لوگوں کی متعصبانہ سوچ پر جو بڑے نرم انداز میں دل  کی بات کہہ جاتے ہیں،

اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ واہگہ سے بھارت کے لیے تجارت ہے لیکن سی پیک کو کوئی خطرہ نہیں، مظفر آباد سری نگر بس سروس سے بھی سی پیک  کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی جندال  کے رات کی تاریکی میں نواز شریف کی دعوت پر مری آنے پر  سی پیک کو کوئی خطرہ ہے اگر خطرہ ہے تو اُس روٹ سے جہاں سے تجارت ہو  تو بلتستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں  یہ راستے کھل جاتے ہیں تو ہزاروں منقسم خاندانوں کو ملنے کا موقع مل سکتا ہے ۔لیکن افسوس بلتستان دشمنی میں بلتستان ریجن کے مسائل کے  حل کو بھی سی پیک کے لیے خطرات سے جوڑ کر حکومت گلگت بلتستان نے  اپنا آپ  عوام کے سامنے واضح کر دیا۔ کل تک ہمیں اس بات پر رونا تھا کہ ایفاد پراجیکٹ کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا ،سرکاری محکموں میں بلتستان سے کسی بڑے عہدے کے لیے سلیکشن ناممکن ہوگئی ، بلتستان کی زمینوں کو خالصہ سرکار کے نام پر لوٹا جارہا ہے ،اضلاع بنائے لیکن فنڈز نہیں دیے گئے، بلتستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک خواب بن کر رہ گیا سکردو شہر کی خستہ حال سڑکوں کو ترکول پلاستر کرکے عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور اب کارگل سکردو روڈ کے حوالے  سے تمام تر کوششوں پر پانی پھیر کر اس باب کو مکمل بند کرنے کے لیے سازشیں کرنے پر تُل گئے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں اس کالم کے ذریعے   چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل قمر باجوہ صاحب سے گزارش کروں گا  کہ اہل بلتستان کی فریاد سُنیں اس خطے کو ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا جارہا ہے یہاں کے عوام کو آرمی سے لڑانے کی سازشیں ہورہی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ترجمان حکومت گلگت بلتستان نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ برادر اسلامی ملک ایران کو بھی سی پیک مخالف قوتوں میں شامل کرکے دراصل گلگت بلتستان کے اکثریتی طبقے کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی ہے تاکہ اُن کے عزائم کی تکمیل ہوسکے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply