ڈیماکریٹس۔ سائنس کا باوا آدم ۔۔۔ادریس آزاد

ڈیما کریٹس ایک قدیم یونانی فلسفی ہے جوطبعی علوم کا دیوانہ تھا۔اُسے ہم بجا طور پر پہلا فلاسفر آف سائنس کہہ سکتے ہیں۔اپنی زندگی میں وہ ایک بارسوخ شخص تھا۔ اُس کا سب سے بڑا کارنامہ سب سے پہلا ایٹمی نظریہ پیش کرنا سمجھا جاتاہے۔انیسویں صدی میں ایٹم کی ساخت پر غور کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیماکریٹس کو یونانی فلسفی کے طور پر نہیں بلکہ یونانی سائنسدان کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔تاہم اس کے نظریات کو آج تک کما حقہُ نہیں پڑھا گیا۔ ڈیماکریٹس کو جدید سائنس کا باوا آدم بھی کہا جاتاہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک لقب”مسکراتاہوا فلسفی”
بھی ہے۔
حیات
ڈیماکریٹس (Democritus) ۔۔۔۔”ایبڈیرا تھریس Thrace “Abdera۔۔۔۔۔۔ میں پیدا ہوا جو ۔۔۔”ٹیوس Teos”۔۔۔۔۔۔۔کی ایک قدیم یونانی ، آئیونیَن کالونی تھی۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈیماکریٹس “مائلیشیأ ” کا رہنے والا تھا۔ لیکن اپولوڈورس آف ایتھنس (تاریخ دان) کے مطابق ڈیماکریٹس 457 تا 460 قبل مسیح کے دوران پیدا ہوا۔اس تاریخ کو اسّیویں (80) اولمپیڈ(Olympiad) بھی کہا جاتاہے۔ تھراسیلس کے مطابق ڈیماکریٹس کی تاریخ پیدائش 470قبل مسیح ہے۔جبکہ ڈیماکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ “اینگزاغورث” کے بڑھاپے میں جوان آدمی تھا۔ اس کا مطلب بنتاہے کہ ڈیماکریٹس سقراط کا ہم عصرہے۔کیونکہ سقراط اینگزاغورث کے شاگردوں میں شمار ہوتاہے۔
ڈیماکریٹس کا باپ ایک امیر آدمی تھا۔ اس کی وفات کے بعد ڈیماکریٹس نے باپ کی جائیداد کا صحیح استعمال کیا۔ اس نے دنیا کی سیر کا فیصلہ کیا۔ڈیماکریٹس کے ہم عصروں میں سے کسی نے بھی اتنے ممالک کی سیر نہ کی جنتی ڈیماکریٹس نے کی۔ اس نے اپنے باپ کی جائیداد کا زیادہ تر حصہ اسی سیروسیاحت میں برتا۔
ڈیماکریٹس نے بابل پر بھی لکھا۔ وہ اپنے اسفار کے دوران بہت سے مفکرین اور محققین سے بھی ملا۔ اس نے اپنی تحریروں میں مصری ریاضی دانوں کے علم کو سراہا اور کلدانی مجوسیوں سے واقفیت حاصل کرنے کا ذکر کیا۔اپنے آبائی شہر واپس لوٹنے کے بعد ڈیماکریٹس نے خود کو سائنس کے وقف کردیا۔ اس دور میں سائنس کو “فطری فلسفہ” کہا جاتاتھا۔ اس لحاظ سےڈیماکریٹس کا کردار بہت اہم ہے کہ اس نے آئیڈیالسٹ فلسفوں کے عروج کے دور میں مادے پر غوروفکر کو ترجیح دی۔ اسی وجہ سے افلاطون کو ڈیماکریٹس پسند نہیں کیونکہ افلاطون کو حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے علم سے نفرت ہے۔واپس لوٹنے کے بعد اس نے یونان کے اندرونی اسفار مسلسل جاری رکھے ۔ پورے یونان کی سیر کی اور اپنے کلچر کا بہترین علم حاصل کیا۔یوں گویا نیچرل اور سوشل ہردوطرح کی سائنسز کے ساتھ ڈیماکرٹس کو شغف تھا۔اس نے مختلف فلاسفہ کے کام کا مطالعہ کیا جبکہ اُسے لیوسیپس (Leucippus) کے نظریہ جوہر نے بہت متاثر کیا۔اس نے اینکسا غورث کو بھی بہت سراہا جو سقراط کا استاد مانا جاتاہے۔ غالباً ڈیماکریٹس کو سقراط سے بھی واقفیت تھی لیکن افلاطون نے اس کا کبھی ذکر نہ کیا۔ڈیماکریٹس کا کہنا ہے کہ “میں جب ایتھنز گیا تو وہاں مجھے کوئی نہ جانتا تھا”۔
ڈیماکریٹس کے بارے میں بے شمار روایات ہیں۔مثلاً یہ کہ وہ مقصدیت کا قائل تھا، وہ سلامتی کی بات کرتا تھا، وہ پڑھنے کے لیے زندہ تھا وغیرہ وغیرہ۔وہ کچھ پڑھنا شروع کرتا تو اندھا دھند شروع کرتا اور پڑھتا ہی رہتا۔ بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ زیادہ مطالعہ کی وجہ سے بڑھاپے میں ڈیماکریٹس کی نظر چلی گئی تھی۔ڈیماکرٹیس کی ایک بات بہت مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہتاتھا۔ڈیماکریٹس کے اکثر مؤرخین اسے “مسکراتاہوا فلسفی” لکھتے ہیں۔ اس کی جس قدر تصاویر بنائی جاتی ہیں ان میں ڈیماکریٹس کو ہنستاہوا دکھایاجاتاہے۔ وہ اپنے دوستوں میں بہت مقبول تھا۔ وہ اگر کوئی پیش گوئی کرتا تو وہ اکثر سچ ثابت ہوجاتی کیونکہ وہ فطری علوم سے شناسائی رکھتا تھا۔
ڈیماکریٹس کی وفات 370 قبل مسیح 90 سال کی عمر میں ہوئی۔
فلسفہ اور سائنس
ڈیماکریٹس دہریت زدہ افکار لکھتا تھا۔ اگرچہ خدا کا یکسر انکاری بھی نہیں تھا۔زیادہ تر مآخذ کے مطابق ڈیماکریٹس نے لیوسی پَس کی تقلید کی۔ دونوں ہی مادہ پرست تھے۔ ڈیماکریٹس کو یقین تھا کہ ہر چیز فطری قانون کی پابند ہے۔ اس نے ریاضی میں بھی کام کیا لیکن مادے کے بارے میں اس کا فلسفہ اہمیت کے حوالے سے ڈیماکریٹس کو بہت نمایاں کرتاہے۔ کیونکہ یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے مادے کے بارے میں خالص تجربی سائنس کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے دی۔ مادہ بہت بہت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنا ہے۔ مادے کے بارے میں سب سے پہلے ایٹمی نظریہ کا خالق ڈیماکریٹس کو ہی مانا جاتاہے۔ اسی لیے اسے جدید سائنس کا باوا آدم بھی کہا جاتاہے۔سائنس سے ہٹ کر اس دورکے دستور کے مطابق، دینیات، اخلاقیات اور سیاسیات پر بھی ڈیماکریٹس کے کام کے شواہد ملتے ہیں۔
ڈیماکریٹس کا ایٹمی نظریہ
ڈیما کریٹس اور لیوسی پس کے مطابق ہر چیز ایٹم سے بنی ہے جو غیر منقسم ہیں۔ان کے درمیان جگہیں خالی ہوتی ہیں۔ یہ لازوال ذرات ہیں جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ ہوں گے۔ذرات لامحدود ہیں او رکئی قسم کے ہیں۔جو کہ ایٹم کی شکل اور ماس کی بنا پر ایک دوسرے سے الگ پہچانے جاسکتے ہیں۔ ڈیماکریٹس کا کہنا ہے کہ :۔
“مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ غیر منقسم ہے۔ایک غیر منقسم ذرّا جتنا بڑا ہوتاہے اتنا ہی بھاری ہوتا ہے”
اگرچہ عام طور پر تو یہی مانا جاتاہے کہ جوہری نظریہ ڈیماکریٹس تک لیوسی پس سے آیا لیکن دراصل لیوسی پس اور ایپی کرس وہ دو فلسفی ہیں جن کے ساتھ مل کرڈیماکریٹس نے ایٹم کے تصور پر کام کیا۔انہوں نے ایٹم کی مختلف شکلیں بنائیں اور یوں گویا پہلا پہلا ایٹمی ماڈل بھی ان فطرت پرستوں کی ہی تخلیق ہے۔ان کا مؤقف یہ تھا کہ مادہ کی پختگی دراصل ذرّات کی اشکال کی مرہونِ منت ہے۔لوہے کے ذرات ٹھوس اور پختہ ہوتے ہیں جبکہ پانی کے ذرات چکنے ہوتے ہیں۔ نمک کے ذرّات صاف اور نوکدار ہوتے ہیں جبکہ ہوا کے ذرات ہلکے ہوتے ہیں۔ہوا کے ذرّات باقی ہرقسم کے مادہ میں اس لیے سرایت کرجاتے ہیں کہ وہ ہلکے اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ڈیماکریٹس کے مطابق ایٹم غیر متحرک ٹھوس ہے جو کہ دوسرے ایٹموں کے ساتھ میکانی طریقے سے تعامل کرتاہے۔ اس کے برخلاف جدید فزکس نے یہ جان لیا ہے کہ ایٹمز آپس میں برقی مقناطیسی فورس فیلڈ کے ذریعے تعامل کرتے ہیں۔
علمِ ریاضی
ڈیماکرٹیس کو علم ریاضی اور جیومیٹری کے بانیوں میں بھی شما ر کیا جاتاہے۔ ڈیماکریٹس نے بتایا کہ ایک کون (Cone) سلنڈر کے والیم کا ایک تہائی ہوتی ہے اور ایک پیرامڈ (Pyramid) منشور ک کے والیم کا ا ایک تہائی۔
علمیات
ڈیماکریٹس کے مطابق صداقت کا علم بہت مشکل ہے۔کیونکہ حواس کے ذریعے کیا جانے والا مشاہدہ ہرفرد کے لیے الگ اور بایں ہمہ ایک موضوعی تجربہ ہوتاہے۔حالانکہ حواس سب کے وہی ہیں لیکن سب کی رائےمختلف ہونے کی وجہ سے ہم سچائی تک نہیں پہنچ پاتے۔ہم صرف اپنی ذہانت کی مدد سے مختلف حواس کے مدلولات کا مطالعہ کرتے اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ڈیماکریٹس کا خیال ہے کہ،
“سچائی کی کوئی شہادت کہیں موجود نہیں ہے”
ڈیماکریٹس کہتاہے،
” چھوٹے چھوٹے ذرات اور ان میں پائی جانے والی خلاکے علاوہ چھونے سے ٹھنڈا اور چھونے سے گرم محسوس ہونے والا مادہ حقیقت میں کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم حقیقت نہیں جاسکتے کیونکہ سچ کہیں تہہ میں موجود ہے”
علم کی اقسام کو وہ دو قسم کی اولادوں کے ناموں پر تقسیم کرتاہے،
۱۔ جائز اولاد (لیجٹ میٹ نالج)
۲۔ ناجائز اولاد(باسٹرڈ نالج)
لیجٹ میٹ علم اصلی ہے اور باسٹرڈ علم حواس کے ذریعے حاصل ہوتاہے اور اسی لیے یہ ناکافی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ “حسی مشاہدہ” دراصل ا شیائے مادی سے حواس ِ خمسہ کی طرف محض ایٹموں کا بہاؤ ہے۔ جب یہ مختلف شکلوں کے ایٹمز ہم تک پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے حواس کو اپنی شکلوں کے مطابق متحرک کردیتے ہیں۔جبکہ ہمارے حواس ان ایٹمز کی مختلف شکلوں کے دھوکے میں آکر تصورات بناتے ہیں۔
علم کی دوسری قسم جسے ڈیماکریٹس لیجٹ میٹ کہتاہے اس کے نزدیک حقیقی علم ہے جو ہمیں عقل کے ذریعے حاصل ہوتاہے۔چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے تمام باسٹرڈ علم کی چھان بین دوبارہ منطق اور عقل کے ذریعے کریں۔اس طرح کوئی بھی شخص باسٹرڈ علم کی دھوکا دہی سے محفوظ رہ سکتاہے۔معلوم ہوتاہے کہ ڈیماکریٹس استقرائی عقل کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھا۔ کیونکہ حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کی چھان بین کے لیے جس منطق کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ استقرائی منطق ہے۔ڈیماکریٹس کے مطابق ظاہر علم کے نتائج بار بار کے مشاہدہ سے ہی ممکن ہیں۔وہ کہتاہے کہ مشاہدہ کے دوران ہمیں ہر معلول کی علت لازمی طور پر تلاش کرنا ہوگی ورنہ ہمارا علم بے معنی ہے۔ اس طرح گویا ڈیماکریٹس خالص سائنسی طرزِ فکر کو اپناتاہوا محسوس ہوتاہے۔ڈیماکریٹس کا ایک قول بہت مشہور ہے، وہ کہتاہے،
“میں کسی شئے کی علت جاننے کو ایران کی بادشاہت پر ترجیح دیتاہوں”
اگرچہ اس قول میں قدیم ایران کے ساتھ قدیم یونان کی شدید ترین مخاصمت کی تاثیر بھی ہوسکتی ہے لیکن اس قول نے بہرحال حکمت کی بالادستی کے اقرار کے طور پر شہرت پائی۔
اخلاقیات اور سیاست
ڈیماکریٹس کی اخلاقیات زیادہ تر استعاراتی زبان میں ہے۔اسی بات کو وجہ بنا کر سٹینڈ فورڈانسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی لکھتاہے،
“اگرچہ ڈیماکریٹس کے اقوال کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی اس کی اخلاقیات کا نظام مرتب کرنا ممکن نہیں” ۔
ڈیماکریٹس کا کہنا ہے کہ:
“مساوات ہر جگہ باعزت ہے”
وہ دولت کے بارے میں جذباتی شخص تھا ۔ شدت پسندی کے خلاف تھا لیکن جنگ کا ہر گز مخالف نہ تھا ، شہریوں کو محاربہ کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے خیال میں معاشرے میں رہنے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ مجرم اور حریف کو پھانسی دیں اگروہ آئین ، عہد نامہ یا حلف کی خلاف ورزی کرے۔ڈیماکریٹس کا قول ہے،
“شہنشاہیت کی عیاشی سے جمہوریت کی غربت بہتر ہے کیونکہ یہ غلامی پر آزادی کو ترجیح دینا ہے”
اس کے خیال میں بھلائی عمل سے ہوتی ہے اور نظم و ضبط انسانی جبلت ہے۔ ڈیما کریٹس کو یقین تھا کہ مسرت روح کی املاک ہے ۔ وہ تقریبات کا شوقین ہی نہیں تھا بلکہ مسرت کی فلسفیانہ سطح پر حمایت کرتاتھا۔ اس کے نزدیک تہوار اور جشن ، سرورو تفریح کے لیے لازم ہیں۔
انسانیت ، حیاتیات ، کونیات
ڈیماکریٹس کے عالم طبیعی کے بارے میں خیالات اس کی کتابوں کے حوالے سے ہمیں پتا چلتے ہیں۔ جوکہ اس نے متنوع موضوعات مثلاً انسان، فطرت ، طبیعات، شعور ، حواس ، رنگوں ، پودوں وغیرہ پر لکھی ہیں۔ اپنا زیادہ تر وقت نباتات اور جمادات کی جانچ و مشاہدہ میں گزارا اور بالتفصیل بہت سے سائنسی مضامین لکھے۔وہ سوچتا تھا کہ پہلا انسان جو اس دنیا میں آیا وہ حیوانی زندگی بسر کرتا تھا۔صرف کھانے پینے کی اشیأ ڈھونڈتا ۔ خوش ذائقہ پھلوں اور جنگلی پودوں پر زندگی گزارتے تھے۔آہستہ آہستہ وہ جانوروں کی دحشت سے معاشروں میں رہنے لگے کیونکہ اب الگ الگ رہ کر وہ اپنا تحفظ نہ کرسکتے تھے۔ڈیماکریٹس کے مطابق پہلے پہل انسانوں کی کوئی زبان نہ تھی لیکن بتدریج انہوں نے مختلف علامات وضع کیں اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے لگ گئے۔انسان کے پاس شعور آیا تو موسم کی شدت محسوس ہوئی اور غاروں میں رہنا شروع کیا۔پہلے لوگوں کے پاس زندگی کی سہولیات نہ تھیں جیسا کہ کپڑے، گھروغیرہ۔ وہ کاشتکاری سے بھی واقف نہ تھے۔
ڈیماکریٹس کے اِن خیالات سے پتہ چلتاہے کہ وہ ارتقائے حیات کا قائل تھا۔ اور ارتقائے حیات کے ابتدائی نقوش کا ذکر کرنے والوں میں شامل ہے۔ڈیماکریٹس زمین کو بھی گول مانتا تھا۔ اور یہ بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ اس سے کئی صدیوں بعد کوپر نیکس آیا تو باقی دنیا نے اس نظریہ کی بازگشت سنی۔اور تو اور فزکس میں اکیسویں صدی کا سب سے جدید نظریہ ملٹی ورسز بھی ایک طرح سے ڈیماکریٹس نے بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق،
” دنیائیں بہت سی ہیں ، کچھ بڑھ رہی ہیں ، کچھ زوال پذیر ہیں اور کچھ میں سورج اور چاند نہیں ہے۔ ڈیماکریٹس کے مطابق ہر دنیا کی ابتداء بھی ہے اور اختتام بھی ہے اور جب ایک دنیا دوسری دنیا سے ٹکراتی ہے تو تباہ ہوجاتی ہے”۔
یہ نظریہ حرف بحرف آج ملٹی ورسز کے قائلین بیان کررہے ہیں۔ کائناتیں بہت سی ہیں۔ کچھ زوال پذیر ہیں ، کچھ بڑھ رہی ہیں اور کچھ میں سورج اور چاند نہیں ہیں۔ خاص طور پر یہ بات کہ کچھ میں سورج اور چاند نہیں ہیں حیران کن حد تک ملٹی ورسز اورمینی ورلڈز کے جدید نظریات کے بہت قریب ہے۔ اور سب سے زیادہ حیرت اس مماثلت پر ہوتی ہے،
“ہردنیا کی ابتدأ ہے اور اختتام بھی۔ اور جب ایک دنیا دوسری سے ٹکراتی ہے تو تباہ ہوجاتی ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply