گورے اور کالے روئیوں میں فرق۔۔عامر عثمان عادل

پیارے پڑھنے والو  !
پہلی تصویر ہے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے والد سٹینلے جانسن کی ،ہوا یہ کہ موصوف کسی دوکان پہ بغیر ماسک پہنے خریداری میں مصروف تھے جو حکومتی ایس او پیز کے خلاف تھا
کیسے ممکن تھا یہ منظر صحافیوں کی عقابی نظروں سے اوجھل رہ پاتا ۔ صف اول کے اخبار کی زینت بنی یہ تصویر وزیر اعظم کے لئے باعث خجالت بن گئی جو ایک روز قبل پریس کانفرنس میں ایس او پیز پر  سختی سے عمل درآمد کی تنبیہہ کرچکے تھے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے کی وعید ان کے والد نے اس غفلت پر بلا تامل معذرت کر لی جسے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ہر خاص و عام تک پہنچا دیا سٹینلے جانسن کا کہنا تھا انہیں اس روئیے پر افسوس ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تین ہفتے بیرون ملک قیام کر کے محض ایک روز قبل برطانیہ پہنچے اور انہیں ایس او پیز سے آگاہی نہیں تھی لیکن وہ بلا عذر اپنے اس عمل پر معافی مانگتے ہیں کیونکہ یہ عمل حکومتی قواعد و ضوابط کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔

اب دیکھیے دوسری تصویر!
یہ صاحب بوریوالہ تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر ہیں رانا اورنگزیب ۔ کل ایک نجی سکول کے دورے پر تشریف لے گئے مقصد تعلیمی اداروں میں کرونا ایس او پیز کو چیک کرنا تھا
سکول کے گیٹ پر تعینات سکیورٹی گارڈ نے صاحب بہادر کو روک کر ان کا ٹمپریچر چیک کرنے کی جسارت کر ڈالی کہ اسے یہی ہدایت تھی مگر اے سی کو ناگوار گذرا ،اشارے پر ان کے ساتھ مامور پولیس کے جوان اس گارڈ پر پل پڑے اور اچھی طرح اس کی اوقات یاد دلا دی۔ رانا صاحب کے منہ سے مغلظات کا طوفان ابل پڑا کہ تمہاری یہ مجال اب دیکھنا تمہارے ساتھ ہوتا کیا ہے پھر تھانے میں اس مسکین گارڈ کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کروا دیا۔

سوشل میڈیا پر واویلا ہوا تو وزیر اعلی پنجاب نے نوٹس لیا مگر بیوروکریسی نے اپنے پیٹی بھائی  کو بچانے کے لئے محض اسکے تبادلے کے احکامات جاری کر دئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ فرق ہے رویوں کا ، سوچ اور طرز عمل کا قوموں کے چلن کا۔ایک ترقی یافتہ ملک کے وزیر اعظم کے والد سے بظاہر کوئی  بڑا جرم سرزد نہیں ہوتا ۔ بس ایک ماسک تھا جو خریداری کے وقت نہیں پہن رکھا تھا۔
پھر کس بات نے اسے قوم سے معافی مانگنے پر مجبور کیا ؟
قانون کی حکمرانی نے ، احساس ذمہ داری نے باطن سے پھوٹتی ہوئی  ندامت نے۔۔
ندامت اس بات کی کہ بیٹا قانون بنائے اور باپ اس قانون کی دھجیاں بکھیر دے
اور ادھر ایک ترقی پذیر ملک کا ایک لاٹ صاحب جو خود کو تحصیل کا مالک سمجھے بیٹھا تھا اسے یہ زعم کی کس مائی کے لال میں اتنی ہمت کہ میرا راستہ روک کھڑا ہو جائے۔
بس آپے سے باہر ہوا اور اپنی اوقات دکھلا دی۔
اسے تو چاہیے تھا گارڈ کی فرض شناسی پر اسے تھپکی دیتا۔مگر وہ بھی سچا ہے جس کے ساتھ مسلح جوان ہوں جو لپک لپک اس کی گاڑی کا دروازہ کھولیں راستہ کلئیر کرائیں تو اتنی نزاکت تو آ ہی جاتی ہے
ہم اور ہمارا معاشرہ بے بس ، مجبور گارڈ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا وہ تو اسسٹنٹ کمشنر جیسے ہر فرعون کا ساتھ دیتا ہے۔گورا تو چلا گیا مگر کالے صاحب ہم پر مسلط کر گیا جن کے لئے عوام حشرات الارض ہیں،جو قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔انہیں پتہ ہے ہم غلام ابن غلام ابن غلام،انہیں خبر ہے وہ بیچ چوراہے کے قانون کی ماں بہن ایک بھی کر دیں تو بس انہیں تبدیل کر دیا جائے گا
اور کچھ دن بعد مرضی کی نئی پوسٹنگ،وہ جانتے ہیں کوئی چیمہ کوئ چٹھہ کوئی وڑائچ کوئی رانا ان کی پشت پر کھڑا ہو جائے گا۔یہی فرق ہے ولائتی اور دیسی کا۔۔
کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسا منظر دیکھنے کو ملے گا
ڈیوٹی پر کھڑا ایک معمولی سا گارڈ
قانون کی رکھوالی کرنے والے کو
قانون کی پاسداری کا سوال کر بیٹھے
اور اس کے جواب میں
اس کو نشان عبرت بنا دیا جائے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply