• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گیس بحران اکیلا نہیں ساتھ میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ اور دوسرے بڑے بحران ساتھ لا رہا ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

گیس بحران اکیلا نہیں ساتھ میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ اور دوسرے بڑے بحران ساتھ لا رہا ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

وزیر اعظم عمران خاں نے قدرتی گیس کے آنے والے شدید بحران سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ملک بھر میں قدرتی گیس کی کمی واقع ہو گی جبکہ اگلے سال یہ کمی بڑھ کر شدیدبحران میں تبدیل ہو جائے گی۔ حکومت کی طرف سے گیس کی سپلائی میں کچھ کمی کی ہلکی پھلکی اطلاع کو مسترد کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں سردیوں میں قدرتی گیس کی طلب بڑھنے اور پیداوار محدود ہونے کے سبب گھریلو صارفین، صنعت اور سی این جی سمیت مختلف شعبوں کو گیس کی شدید بندش کا سامنا ر ہے گا۔ ہمارے یہاں ۔ سردیوں میں یومیہ گیس کی طلب 8 ارب کیوبک فٹ ہوتی ہے جبکہ سسٹم میں موجود گیس صرف 4 ارب کیوبک فٹ تقریباً ہی رہے گی۔ ایسے میں ملک کو تقریباً 2 ارب یومیہ کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہو گا جس کی وجہ سے گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کمپنی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان بنانا بلکہ اس پر ابھی سے عمل کرنا بھی شروع کر چکی ہیں۔ ابھی وزیر اعظم صاحب کے منہ سے یہ خبر آنے کی دیر تھی کہ ملک بھر کے صارفین کے یہاں گیس کے چولہے بند ہونےبھی شروع ہو چکے ہیں (کیا ٹائمنگ ہے)۔ یاد رہے کہ ابھی موسم سرما کی شروعات بھی نہیں ہوئی اور یہ حال ہے۔ جب موسم سرما شروع ہو گا تو سوچ لیجئے کہ کیا حال ہو گا۔

گیس سپلائی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ موسم کی شدت کے باعث دسمبر سے فروری کے دوران 3 ماہ میں گیس کی طلب میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے لوڈ مینجمنٹ پلان بنایا گیا ہے اور موسم کے بہتر ہوتے ہی گیس بحران کی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔ بظاہر اس لوڈ مینجمنٹ پلاننگ  میں ترجیح گھریلو صارفین کو دی جاتی ہےلیکن اس کے باوجود بھی ماہرین صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ موسم سرما کے دوران گیس کا بحران شدید ہو گا۔ رواں سال پنجاب کے علاوہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بھی گھریلو صارفین کے لئے گیس دستیاب نہیں ہو گی۔ لوگوں کے گھروں میں گیزر ہی نہیں چولہے بھی نہیں جلیں گے۔ بجلی بنانے والے پلانٹس کو بھی گیس نہیں دستیاب ہو گی جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی شدید ہو گی۔ گاڑیوں کے لئے سی این جی سٹیشن تو ابھی سے بند کر دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور حکومت کی طرف سے سی این جی سٹیشن کے مالکان کو مشورہ دیا جا رہابہے کہ ان کو ایل این جی فلنگ سٹیشن میں تبدیل کروا لیں۔

وزیر اعظم عمران خاں اور معاون خصوصی ندیم بابر نےگیس کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طلب اور رسد میں سالانہ بنیادوں پر بڑھتے 5 سے 7 فی صد فرق کو کم کرنے کے لئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی فوری ضرورت ہےتاکہ گیس کے غیر ضروری استعمال کو روکا جا سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کمپنیوں میں 180 ارب روپے سے زیادہ کے خسارے کے سبب حکومت کو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر گیس کی قیمتوں میں سبسڈی ختم کر کے اضافہ نہ کیا گیا تو گیس فراہم کرنے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بند ہو سکتی ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کی صوبہ سندھ شدید مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ وہ ملک میں گیس کی مجموعی پیداوار کا 68٪ پیدا کرتا ہے لہذا اس کو اپنے صوبہ کے عوام کے لئے نہ تو گیس کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ کرنے کی۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان یہ تنازعہ آنے والے وقت میں شدت اختیار کر سکتا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے خواہشمندوں کے لئے اطلاعا” عرض ہے کہ اس وقت بھی گیس کی قیمتیں کچھ کم نہیں ہیں۔ آج بھی گیس کے ہزاروں روپے کے بلوں نے بھی عوام کی مشکلات کو بڑھا رکھا ہے۔۔ صارفین گیس کے اضافی بلوں کی شکایت کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گیس کی عدم فراہمی کے باوجود وہ گذشتہ ماہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں محض 28 فیصد صارفین کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں گیس کے دریافت کردہ ذخائر میں کمی اور نئے ذخائر نہ ملنے کے سبب گیس کا بحران ہر سال مزید شدید ہو رہا ہے۔ جب حکومت سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ گیس کے نئے ذخائر کیوں تلاش نہیں کرتی تو وہ فوراً سے پہلے اپوزیشن پر الزام لگا یتی ہے کہ اس نے اپنے دور میں کچھ نہیں کیا لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ خود اس حکومت کے 2 سالہ دور میں بھی قدرتی گیس کے جن 26 نئے کنوؤں کی کھدائی ہوئی ہے، اس کے معاہدے پچھلے دور حکومت میں ہی طے پائے تھے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ان 26 نئے کنوؤں سے بھی اتنی گیس نہیں مل سکی کہ ملکی ضروریات پوری ہو سکیں۔ پاکستان میں گیس کی کمی پوری کرنے کے لئے ہمیں پاک ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی طرف جانا ہی پڑے گا۔ اس کے بغیر ہمارے لئے کوئی فوری اور سستا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے بحران کے حل کے لئے ایران پاکستان پائپ لائن گیس منصوبے (آئی پی پائپ لائن) کو بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔ آئی پی پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستان کو 750 ایم ایم سی ایف ڈی (75 کروڑ مکعب فٹ) گیس یومیہ حاصل ہونا تھی جو کہ گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر ایک ارب مکعب فٹ ہوجانا تھی اور اضافی 25 کروڑ مکعب فٹ گیس گوادر میں استعمال کی جانا تھی۔۔ ہماری وزارت پٹرولیم کے ذرائع تو یہ بھی کتے ہیں کہ اس وقت ملک کو 2 ارب مکعب فٹ گیس کی ساری کمی کو اس گیس پائپ لائن سے پورا کیا جا سکتا ہے۔۔

ایران میں گیس کی پیداوار میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ایران میں گیس کی پیداوار 600 ملین کیوبک میٹر سے بڑھ کر تقریبا ایک ہزار ملین کیوبک میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ ۔ اس لئے یہ بھی خدشہ نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں گیس کی سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے چند دن پہلے ہی ایران کے گیس سپلائی نظام کو دنیا کا بے مثال سسٹم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے 17 ہزار دیہاتوں کو گیس سپلائی نیٹ ورک سے جوڑنے کے علاوہ ملک کے 89 بجلی گھروں کو گیس سے چلایا جا رہا ہے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کی گیس، ترکی اور عراق کو بھی برآمد کی جاتی ہے اور مشرقی ممالک کو بھی سپلائی کرنے کے اسباب فراہم ہیں اور اسی تناظر میں پاکستان کی سرحد تک 900 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جا چکی ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنے حصے کی 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن سنہ 2013ء سے شروع کرنی تھی جسے مکمل نہیں کیا جا سکا۔ اس منصوبہ پر اگر کام شروع کیا جائے تو اب بھی اسے 2 سال میں 2 ارب ڈالر (تقریباً 340 ارب روپے) کی مالیت سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔اس منصوبہ کی تکمیل میں سعودی عرب اور امریکہ مخالفت کر رہے ہیں جبکہ یہ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں چین بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہونے کا عندیہ دے چکا ہے۔ اگر چین بھی ا س منصوبہ میں شامل ہو جائے تو ہمیں نہ صرف ایران سے ملنے والی گیس سستے داموں ملے گی بلکہ ہم چین کو سپلائی کی جانے والی گیس سے راہداری ٹیکس بھی وصول کر کے اپنے لئے گیس تقریباً مفت ہی حاصل کر سکیں گے۔

ایران پاکستان پائپ لائن منصوبہ توامریکی وسعودی مخالفت کی وجہ سے فی الحال کھٹائی کا شکار ہے لیکن قدرتی گیس کے کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت قطر سے ایل این جی یا مائع قدرتی گیس درآمد کر رہی ہے۔۔۔ پاکستان قطر سے مائع قدرتی گیس درآمد کر رہا جو بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہے۔ مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو کراچی بندرگاہ پر نصب پلانٹس کے ذریعے دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور سسٹم میں شامل کیا جاتا ہے۔ قطر سے منگوائی جانے والی گیس کے ایک جہاز سے ۔ مجموعی طور پر سسٹم میں 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس شامل ہوتی ہے۔؛ ایل این جی سے حاصل ہونے والی گیس صنعتوں، سی این جی اور پاور پلانٹس کو فراہم کی جا رہی ہے جبکہ درآمدی ایل این جی کی آمد میں تاخیر سے صنعتوں کو بھی گیس کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔۔ حکومتی وعدوں کے برعکس برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والی صنعتوں کو بھی گیس نہ مل سکنے کے امکانات واضح ہیں۔ برآمدات کی یہ کمی ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی شدید کمی کا باعث بنے گی جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قیمت مزید گرائی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت کو چاہئے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس ضمن میں کسی ملک کی مخالفت کی بھی پرواہ نہ کی جائے۔ چین کی اس منصوبہ میں شمولیت کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔ ملک میں گیس کی طلب میں ہر سال اضافہ ہو رہا اور ضرورت ہے کہ گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں سوئی سدرن اور سوئی نادرن کی استعداد کار کو بڑھایا جائے۔ پورے ملک کو گیس ان 2 کمپنیوں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے اور صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایسے میں 2 کے بجائے مزید ریجنز بنائے جائیں تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ گیس کے شعبے میں اربوں روپے مالیت کی چوری بھی خسارے کی بڑی وجہ ہے۔ چھوٹے انتظامی یونٹس بنانے سے گیس کی چوری، لوڈ مینجمنٹ جیسے مسائل دور ہوں گے اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے سے بہتری آئے گی۔۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ گیس کے نئے کنوؤں کی تلاش اور کھدائی کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ چین سے شیل (shale) گیس کی ٹیکنالوجی حاصل کی جائے اور اس منصوبہ پر بھی فوراً کام کا آغاز کیا جائے۔ یاد رہے کہ گیس ایک عظیم صنعت ہے جو آلودگی سے پاک انرجی پیدا کرتی ہے اور یہ ملک کی پیشرفت و ترقی کا باعث ہوگی۔ اگر آج ہم نےاس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ان مجوزہ اقدامات انجام دینے کی طرف توجہ نہ دی تو آنے والے وقت میں ہم توانائی اور معیشت کے شدید مسائل کا شکار رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply