• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہزاروں سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز اور ان کا غیر یقینی مستقبل۔۔سید عمران علی شاہ

ہزاروں سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز اور ان کا غیر یقینی مستقبل۔۔سید عمران علی شاہ

انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو چند اہم ترین بنیادی ضروریات درکار ہوتی ہیں ان میں خوراک، لباس اور سر چھپانے کی چھت کے بعد اہم اور بنیادی ترین ضرورت اچھی صحت و علاج معالجے کی سہولیات ہوتی ہیں، پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں بیک وقت خوراک کی قلت کا خدشہ بھی ہے اور دوسری جانب ہم لوگ بحیثیت قوم بہت سی خوراک ضائع بھی کرتے ہیں، کہنے کو تو پاکستان کی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے مگر آج تک زراعت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے، کاشتکار کے لیے اپنے اخراجات تک پورے کر پانا ناممکن ہورہا ہے۔

پاکستان کو معرض وجود میں آئے تہتر سال بیت گئے مگر پائیدار ترقی کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں لیڈرشپ کے فقدان کی بناء پر اعلیٰ میعار کی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی ہے، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اگر ایک پارٹی کے اقتدار میں جانے کے بعد دوسری پارٹی برسرِ اقتدار آتی ہے تو وہ گزشتہ دور کے عوامی فلاح کے منصوبے صرف اسی لیے آگے نہیں لے کر چلتے کہ، موجودہ حکومت کو اس منصوبے کا کوئی سیاسی کریڈٹ اور پوائنٹ سکورنگ کا موقع نہیں مل پائے گا۔
حالانکہ دوسرے ممالک میں جب اقتدار کی تبدیلی عمل میں آتی ہے تو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ گزشتہ دور کے عوامی فلاح کے منصوبوں کو کسی طور بھی بند نہ کیا جائے، بلکہ ایسے تمام منصوبوں کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔

2005 میں پاکستان نے Millennium Development Goals کے تحت، پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں پائی جانے والی غذائی قلت اور اس وجہ سے ہونے صحت پر مضر اثرات مثلاً، وزن کا عمر کے حساب سے نہ بڑھنا اور اسی طرح سے عمر کے ساتھ ساتھ بچوں کے قد میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے جیسے مسائل پر مؤثر طریقے سے قابو پانے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا تاکہ پاکستان میں بچوں کی بہتر نشوونماء کو یقینی بنایا جاسکے ، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 45 سے زائد بچے وہ ہیں جو کہ متوازن خوراک اور صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے بہتر نشوونماء پانے سے محروم ہیں۔
سو اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے 2008 میں سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن کے پروگرام کا باضابطہ آغاز کیا۔

یہ پروگرام اپنی نوعیت کا ایک نہایت اہم اور مربوط نظام تھا، محکمہ صحت حکومت پنجاب نے پورے پنجاب کے 36 اضلاع میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار سکول ہیلتھ اور نیوٹریشن سپروائزرز کو باقاعدہ طور پر بھرتی کے تمام مراحل سے گزار کر، ان کو تعینات کیا گیا، اس میں ایک بات قابلِ غور یہ کہ ان سپروائزرز کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے کیونکہ اس آسامی کے لیے کم از کم تعلیمی معیار ایم – اے، ایم ایس سی تھا، ان تمام سپروائزرز کی، بچوں بنیادی صحت، غذا اور غذائیت کے موضوع پر متعلقہ اداروں اور ماہرین کی مدد سے بھرپور ٹریننگ کی گئی، تاکہ یہ تمام لوگ فیلڈ میں جاکر اپنے فرائض منصبی بہتر طور پر سرانجام دے سکیں، تاکہ بچوں میں پائی جانے والے صحت سے متعلقہ مسائل کو ابتدائی مراحل میں حل کرلیا جائے،
سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کو مندرجہ ذیل امور انجام دینے ہوتے ہیں،
*اپنے ذمہ لگے ہوئے سکولوں کا تمام متعلقہ ریکارڈ مرتب رکھنا
*سکولوں میں موجود تمام بچوں کا ہیلتھ پروفائل تیار کرنا
*محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسران کے ساتھ مؤثر رابطہ سازی رکھنا
*اپنے ذمہ داری والے تمام سکولوں کا باقاعدگی سے وزٹ کرکے بچوں کی ہیلتھ سکریننگ کرنا
*بچوں میں نظر کے مسائل، پیٹ کی بیماریوں، جلد کی بیماریوں کا شکار بچوں کو ہسپتال ریفر کرنا تاکہ ان کا علاج معالجہ کروایا جاسکے
لیکن بات یہاں تک نہیں رکتی، کیونکہ سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز محکمہ صحت کے تحت کی جانے والی تمام تر آگاہی پروگرام، پولیو مہم، خسرہ مہم، ہیلتھ کیمپس اور دیگر تمام محکمانہ امور میں پوری شدومد سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بہت سے اضلاع میں تو محکمہ صحت کے افسران نے سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کو اپنا ذاتی کمپیوٹر آپریٹر تک بنایا ہوا ہے،۔

2017-2018 کے MICS Suvery کے مطابق، صوبہ پنجاب میں، بچوں کی بنیادی صحت، غذا اور غذائیت کے اعداد و شمار پچھلے سالوں کی نسبت کہیں بہتر ہے، اور اس منظم سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن کی بدولت عوام الناس میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ، سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز نے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیے ہیں، دنیا میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں بہتری کی گنجائش موجود نہ ہو، اس شعبے میں بھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے، سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کے کردار کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا ہے، Covid-19 کے بعد کے حالات میں تو ان کی اہمیت مزید بڑھ چکی ہے، حکومت کو چاہیے کہ ان تمام سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے میعار پر Covid-19 سے بچاؤ کی بھرپور تربیت دے کر، اساتذہ کرام، ایجوکیشن افسران، طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ممبران کو بھی آگاہی فراہم کی جاسکے تاکہ لوگ اپنے طرز زندگی کو اس طرح سے بدلیں کہ کورونا جیسی کوئی اور وباء ان پر اثرانداز نہ ہو پائے۔

اس اہم ترین شعبے وابستہ لوگ اپنے مستقبل کے لیے بے حد و حساب فکرمند نظر آتے ہیں، کیونکہ اتنے لمبے عرصے سے سروس کرنے کے باوجود یہ ان پر آج تک کنٹریکٹ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے،
سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کو یونین کونسل کی بنیاد پر تعینات کیا گیا، اوسطاً ایک سپروائزر کے پاس تقریباً 30 سے 40 سکول آتے ہیں، سپروائزر ہر ماہ ان سکولوں کا باقاعدگی سے وزٹ کرکے، بچوں کا معائنہ کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت صوبہ کل سکول ہیلتھ، اینڈ نیوٹریشن سپروائزر 1780 ہیں اور 2008 سےcontract پہ جاب کر رہے ہیں۔ کم سے کم تعلیمی قابلیت MBA. MA economic. Mse chemistry. MA political science ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ 12 سے 13 سال محکمہ میں مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دینے کے باوجود ابھی تک contract پے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سپروائزر تو خدمات سر انجام دیتے ہوے اپنے خالق حقہیقی سے جا ملے ہیں۔ اور بہت سارے اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ گئے ہیں۔
یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ جس شعبے سے آپ کی قوم کا صحت مند مستقبل وابستہ ہے، اس شعبے کے اہم ترین ستون اپنے غیر یقینی مستقبل کو لے کر شدید ترین ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، حکومت پنجاب کو پورے صوبے میں تعینات تمام سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کو ہنگامی بنیادوں پر مستقل کر دینا چاہیے، ان کو سروس سٹرکچر دیا جانا چاہیے اور ان کو قانون کے مطابق اس دن سے مستقل کیا جانا چاہیے جس دن سے ان کی تعیناتی اصولی طور پر مستقل ہوئی ہے، تاکہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اپنے فرائض منصبی بھرپور طور پر ادا کر پائیں

 

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply