دروں بیں (Introvert) ہونا گناہ ہے؟۔۔عدیل ایزد

آج کے دور میں ، اگر آپ معاشرتی طور پر عجیب و غریب ہیں تو آپ کو نااہل سمجھا جاتا ہے جیسے آپ میں کوئی قابلیت ہی نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں تو لوگ آپکو مشکوک سمجھتے ہیں۔ایسے گھورتے ہیں جیسے آپ میں کوئی طبی مسئلہ ہے۔آپ بیمار ہیں۔یہ بات درست ہے کہ آج کے مین اسٹریم ورلڈ کا بیشتر حصہ بیروں بیں شخصیت کے گرد پھل پھول چکا ہے۔ اگر آپ گفتگو کا فن جانتے ہیں ، اگر آپ گپ شپ میں اچھے ہوں تو ، آپ کے لئے بہتر ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں اس طرح کی  خصلتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔

صنعتی انقلاب کے بعد سے جیسے خاموش طبع شخصیت رکھنا ہی ایک بد نما داغ / سٹگما جیسا ہوگیا ہے۔ سب والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ رشتہ داروں کے سامنے روانی سے بات کرے۔ چھاتی چوڑی کر کے فٹا فٹ بولے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو والدین کو بچے کا منفی تاثر ملتا ہے۔ بعض اوقات اس طرح کے منفی تاثرات کا اثر اس بچے کی آنے والی تمام زندگی پر پڑتا ہے۔ دروں بیں لوگوں / انٹروورٹس کو عجوبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گویا یہ کسی بے ترتیب، نقصان دہ تغیر کا نتیجہ ہیں۔ گویا ہم ارتقا کے کھیل سے شکست کھا گئے ہیں۔ اکثر ذہانت کو بیروں بیں شخصیت کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ بیروں بیں افراد زیادہ قابل اعتماد لگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بیروں بیں شخصیت کے حامل افراد بالکل بھی ذہین نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن ذہانت یا قابل اعتماد ہونا بیروں بیں شخصیت کا سبب نہیں ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ بیروں بیں شخصیت کی وجہ سے آپ ذہین ہیں ۔ یہ غلط مفروضے ہیں ، اور ذہانت یا قابلیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ ایک دروں بیں ہیں یا بیروں بیں۔ لیکن پھر بھی ، دروں بیں شخصیت کے حامل لوگوں کو ان چیزوں سے جج کیا جاتا ہے۔ انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا میں انہیں کم مواقع ملتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم دروں بیں افراد کی کچھ ایسی خصوصیات کے بارے میں بات کریں گے جو ان سارے مفروضات اور اسٹگماز کو دور کر دیں گی۔

انٹروورٹس / دروں بیں افراد میں ہمدردی ہوتی ہے۔ ان میں قوت ارادی ہوتی ہے۔ وہ بے باک ہوتے ہیں۔ وہ کھل کر جینے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ کافی ذہین بھی ہوتے ہیں۔ اجنبیوں سے بات کرتے ہوئے انٹروورٹس/ دروں بیں افراد کو ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ والدین کی محبت اور ساتھیوں سے محروم ، اپنے بچپن کا بیشتر حصہ دروں بیں افراد تنہائی میں بسر کرتے ہیں ، تو ایسے میں وہ خود میں ہی کھوئے رہتے ہیں خود کا دل لگانے کی خاطر، خود کو خوش کرنے کی خاطر۔ اور جب ان کے تخیل کی وہ خوشی آہستہ آہستہ ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ پھیکی پڑ جاتی ہے ، تو وہ اس کی خوشی کے حصول کے لیے لوگوں کی چھپ کر مدد کرتے ہیں ۔ حالانکہ پردے کے پیچھے رہ کر لوگوں کی مدد کرنے کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے۔ جب بھی ہم ضرورتمندوں کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں بھی اچھا لگتا ہے۔ جیسا کہ چارلس ڈکنز نے کہا تھا ، “اس دنیا میں ایسا کوئی بھی شخص بیکار نہیں ہے جو دوسرے کا بوجھ ہلکا کرتا ہے”۔ احسان کا عمل / کائنڈ نیس آپ کو ایک مقصد فراہم کرتا ہے ، دوسرے لوگوں کے لیے کارآمد ہونے سے اپنے آپ کو زبردست امید مل جاتی ہے۔ جب ہم مدد کرتے ہیں تو ہمیں خوشی ملتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے کے حوالے سے نیورو سائنس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہمدردی کا عمل ، احسان کا عمل ، جب ہم اپنی مرضی سے دوسرے لوگوں کی خدمت کے لئے رضاکارانہ طور پر جاتے ہیں تو ہمیں حیاتیاتی اجر / بائیولوجیکل ریوارڈ ملتا ہے۔ ہمارا دماغ خوشی کے کیمیکل جاری کرتا ہے۔ سائیکاٹرسٹ باربرا فریڈک سن لکھتی ہیں کہ ہماری نفسیات کو انسان کے سچے رشتوں کی ضرورت بالکل ایسے ہے جیسے ہمارے جسم کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔اور حسن ِ سلوک یا کائنڈنیس صرف آپ کے مزاج پر ہی نہیں آپ کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ انٹروورٹس اندرونی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ تنہا یا بہت ہی چھوٹے بند گروپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اندرونی جذبات اور داخلی احساسات کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں دوسروں سے مطلب نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ نظریہ غلط ہے۔ انٹروورٹس میں ہمدردی ہے۔ وہ لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں۔ وہ خود زیادہ نہ بھی بولیں لیکن وہ دوسروں کو سنتے ہیں اور اپنے آس پاس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

حال میں حاضر رہو۔ یہ وہ عام مشورہ ہے جو ہم سب ایک دوسرے کو اکثر دیتے رہتے ہیں۔ اگر آپ غمگین ہیں تو ، حال میں حاضر رہیں۔ اگر آپ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں تو ، حاضر رہیں۔ لاؤزی ، ایک چینی فلسفی نے اس کے بارے میں ٹھیک کہا ہے۔ ہمیں ماضی یا مستقبل میں نہیں رہنا چاہئے۔ اور یہ بہترین مشوروں میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ آس پاس کا ہر فرد یا تو ماضی یا مستقبل میں گم رہتا ہے۔ اور نہ ہی یہ غلط ہے کہ کبھی کبھار تھوڑی دیر کے لیے آپ گم ہو بھی جائیں۔ کسی کے کھو جانے کے لئے اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ ذہن میں گھومنا تخلیقی صلاحیتوں کی ایک افزائش گاہ ہے۔ کچھ لوگ ایک مختلف حقیقت میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ نہ تو غمگین ہیں اور نہ ہی بے چین۔ بس اتنا ہے کہ ان کی آس پاس کی حقیقت انہیں اتنا متحرک نہیں کرتی ہے ، لہذا وہ اپنے ذہن میں کھو جاتے ہیں۔ انٹروورٹس کے ساتھ یہ بہت عام ہے۔ جب بھی وہ کسی بورنگ یا باضابطہ صورتحال میں پھنس جاتے ہیں تو وہ حقیقت کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے خوابوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ کارپوریٹ کلچر میں بعض اوقات ان خصلتوں اور خصوصیات کی تضحیک کی جاتی ہے۔ انہیں غلط سمجھا جاتا ہے۔ انہیں نااہل اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے دن میں خواب دیکھنے کی عادت انکو ان چیزوں کا احساس دلاتی ہے جو وہ اپنی زندگی میں کھو رہے ہیں۔ آخر کار ، وہ اپنے تکاؤ کا معمول چھوڑ کر زندگی کے لمحات کو انجوائے کرنے لگتے ہیں۔ وہ خوبصورت مقامات کی سیر کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی دن میں خواب دیکھنے کی عادت کم ہونے لگتی ہے۔

ایسے لوگوں سے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور جن کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیونکہ کچھ چھپانے کے لئے نہیں ہوتا۔ اور ان سے بات کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے جو مکمل اجنبی ہیں ، کیوں کہ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ پریشانی ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو بس جاننے کے لیے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

انٹروورٹس خاص طور پر ایسے لوگوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ ہی آپ کو مختصر باتیں کرنا ، دکھاوا کرنا اور جعلی مسکراہٹ کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ جو انٹروورٹس کے لئے بہت تھکا دینے والا عمل ہے۔ بدقسمتی سے ، جن لوگوں کو ہم جانتے ہیں ان میں سے زیادہ تر یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف آپ ظاہری طور جانتے ہیں یا آپ کا نام جانتے ہیں۔ اور اگر آپ ان لوگوں کو گفتگو سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو کمزور شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید آپ شرمیلے اور کمزور ہیں۔ اگرچہ انٹروورٹس میں واقعتا کم جارحیت ہوتی ہے لیکن اس کو آپ ہر کسی پر لاگو نہیں کر سکتے ہیں۔

جب بھی ہمیں پارٹی کے لیے جانے والے دوستوں ، یا کسی بھی گروہی سرگرمی ، یا کسی بھی سماجی اجتماع میں جانے سے انکار کرنے ضرورت ہوتی ہے تو ، بنیادی طور پر ہم میں سے بہت سے لوگ سماجی دباؤ اور دوستوں کی وجہ سے انکار نہیں کر پاتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو معذرت خوانہ لہجے کے ساتھ۔ گویا آپ کی غلطی ہو۔ ۔ مگر اکثر انٹروورٹس کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ دوسرے لوگ ان سے کیا توقع کرتے ہیں۔ ان کو جو نہیں کرنا وہ نہیں کرتے۔ اور ہمیں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر آپ نہیں جانا چاہتے ہیں تو ، پھر نہ جائیں۔ انکار کر دیں اور معذرت خواہ نہ ہوں۔ ایک الگ شخصیت اور ترجیح رکھنا آپ کی غلطی نہیں ہے۔ یہ صرف آپ کی شخصیت ہے۔

ہم انٹروورٹس اور ایکسٹروورٹس کو بائنری انداز میں دیکھتے ہیں۔ یا تو کوئی بیروں بیں (Extrovert) ہے یا دروں بیں (Introvert) ۔ لیکن انسانی سلوک کبھی بھی ثنائی نہیں ہوتا ہے۔ کوئی بھی شحص مکمل طور پر بیروں بیں (Extrovert) یا دروں بیں (Introvert) نہیں ہوتا۔یہ ہمیشہ سپیکٹرم میں ہوتا ہے۔ اور آپ اس اسپیکٹرم میں کہاں کھڑے ہیں؟ کیا آپ بیروں بیں یا دروں بیں کے قریب ہیں؟ آپ جس طرف بھی زیادہ مائل ہوں آپ کی شخصیت کو ویسے ہی پرکھا جائے گا۔ کچھ لوگ اس سپیکٹرم کے وسط میں ہوتے ہیں۔ انہیں ایک امبیورٹ کہا جاتا ہے۔ ایمبیورٹ وہ ہیں جو انٹروورٹ اور ایکسٹروورٹ کے مابین متوازن شخصیت رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انتہائی بیروں بیں ہونا آپ کے لیے نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس کا منفی نتیجہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن تاریخی طور پر انہی شخصیات نے ہی دنیا کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے باڑ  اونچی کردی ہے۔ اگر آپ مڑ کر دیکھیں تو ، تاریخی اعتبار سے نظریہ کشش ثقل سے لے کر ریلیٹیوٹی تک ، زندگی بدلنے والے تمام نظریات ، آرٹ ، ایجادات ، وان گو پینٹنگز سے لے کر پرسنل کمپیوٹر تک بیروں بیں لوگوں سے آئے ہیں۔ البرٹ آئن سٹائین ، بل گیٹس ، سر آئزک نیوٹن ، ابراہم لنکن ، مہاتما گاندھی اور باراک اوباما تاریخ کے سب سے کامیاب انٹروورٹس میں شامل ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم اس حد تک پختہ ہوجائیں گے جہاں ہمیں شخصیت کی مختلف اقسام سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں انصاف کرنے اور ان پر الزام لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور ہم یہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے کہ ایک انٹروورٹ یا ایک آسٹروورٹ ہونا معمول کی بات ہے اور اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”دروں بیں (Introvert) ہونا گناہ ہے؟۔۔عدیل ایزد

    1. آپ سب لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ آپ لوگوں کا ساتھ اگر یونہی رہا تو ان شاءاللہ بہت جلد میں اچھا لکھنا سیکھ جاؤں گا

Leave a Reply to عدیل Cancel reply