جسے اللہ رکھے (قسط 9)۔۔عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ

دو دن بڑی بے چینی میں گزرے اس دوران حمیدہ فوجی کے موبائل نمبر کا ڈیٹا بھی آچکا تھا جس میں اس کی لوکیشن مُلتان شریف کی آرہی تھی کبھی کبھی علی پور اور راجن پور کی بھی لوکیشن تھی- میں نے بلو حسام کے فون نمبر کی لوکیشن سے موازنہ کیا تو علو ڈاہڑ کی بات درست ثابت ہوئی-حمیدہ فوجی کے نمبر سے نہ تو بلو کے نمبر پر کوئی کال تھی اور نہ کھبی دونوں کہیں اکٹھے پائے گئے کیونکہ اگر دونوں اکٹھے ہوتے تو ان کی لوکیشن ایک جگہ پر ہوتی-اب یہ بات صاف عیاں تھی کہ بلو نے مجھے دھوکہ دیا اور میرے کلاشنکوف کسی کو بیچ دی یا اُس نےاپنے پاس رکھی ہوئی تھی؟
دو دن گزرنے کے بعد دوپہر کو میاں عرفان ڈی ایس پی کی کال آگئی کہ شام کو احمد پور شرقیہ آجاؤں-شام کو میں اُن کی رہائشگاہ پر پہنچ  گیا تھوڑی دیر بعد میاں صاحب کے گن مین ہاشم ڈھول کو لیکر آگئے ہاشم کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی جو کھول دی گئی میں نے ہاشم کےچہرے کی طرف دیکھا اُسکا سانوالہ رنگ مزید سیاہ ہو گیا تھا جرائم پیشہ افراد جب آزاد ہوتے ہیں تو جرائم کی دنیا بےتاج بادشاہ ہوتے ہیں مگر گرفتار ہونے کے بعداُن کی ساری بادشاہی اور اکڑ فوں ختم ہو جاتی ہے-میں نے ہاشم ڈھول کے موبائل سے حمیدہ فوجی کا نمبر ملایا سپیکر آن کیا اور فون اُس کے مُنہ کے قریب کر دیا اس دفعہ حمید نے فوری فون سُن لیا ہاشم نے اُسے کہا کہ وہ کل مُلتان آنا چاہتا ہے ایک اچھا کام ہے جو وہ اُس سے مل کر کرنا چاہتا ہے مزید کہا کہ اوچشریف میں سعودی عرب میں کام کرنے والے ایک حاجی کے گھر واردات کرنی ہے وہاں کافی مقدار میں سونا اور نقدی مل سکتی ہے گھر بھی دیکھ لیا ہے گھر میں کام کرنے والی عورت نے مخبری کی ہے-تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد حمیدہ فوجی ملنے لے لیے راضی ہو گیا اگلے دن کا پروگرام بنا لیا اور بولا ملتان پُہنچ کو فون کر لینا میں انتظار کروں گا-
میں واپس تھانہ نوشہرہ آگیا میاں صاحب نے حکم دیا کہ صُبح سات بجے احمدپور شرقیہ آجاوں سفید پارچات میں کُچھ ملازم بھی لیتا آؤں-سرکاری گاڑی بھی نہ لانے کا کہا-اگلی صُبح میں ایک پرائیوٹ کار پر چار ملازمین کے ساتھ احمدپورشرقیہ ڈی ایس پی کے دفتر پہنچ گیا تھوڑی دیر بعد میاں عرفان اُللہ ڈی ایس پی اپنی سرکاری گاڑی میں اپنے گن مینوں کے ساتھ بیٹھ گئے جبکہ ہاشم ڈھول کو بھی ایک پرائیویٹ کار میں بیٹھا دیا گیا اور ہم ملتان روانہ ہو گئے-

Advertisements
julia rana solicitors london

احمد پور شرقیہ سے ملتان کا سفر تقریباَ دو گھنٹے کا تھا ٹھیک نو بجے دن ہم سب مظفر گڑھ ملتان بائی پاس چوک پر پہنچ گئے-جسے اُس وقت کوکاکولا چوک کے نام سے پُکارا جاتا تھا کیونکہ چوک میں ایک بڑی کوکاکولا کی بوتل بنی ہوئی تھی-چوک کے ساتھ میرے دوست کا ہوٹل تھا میں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیتے ہیں اور یہاں سے ہاشم ڈھول کی حمیدہ فوجی سے بات کرائیں گے-میاں صاحب نے میری بات مان لی ہمارے ساتھ آئی نفری اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھی رہی ملزم ہاشم کو گن مین لے کر ہوٹل کے ایک کمرہ میں لے آئے یہ کمرہ اُوپر والی منزل پر سڑک والی سائیڈ پر تھا یہاں سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور ہارن کی آوازیں بھی آ رہی تھیں-کمرہ کا ماحول حمید سے بات کرنے کے لیے آئیڈیل تھا حمید کو فون سُننے پر ایسا محسوس ہوتا جیسے ہاشم ڈھول کسی بس اڈا یا سڑک پر کھڑا بات کر رہا ہے-میں نے نمبر ملا کر ہاشم کو دے دیا جس کی ہتھکڑی گن مین نے پہلے کھول دی تھی-اس دفعہ ہاشم ڈھول بات کرتے ہوئے کافی پراعتماد لگ رہا تھا میں اور میں صاحب بُہت محتاط تھے کہ ہاشم حمیدہ فوجی سے کوئی غیر ضروری بات نہ کر لے یا اُسے ہوشیار نہ کر دےاس لیے اُس کے فون کا سپیکر اُن کروایا ہوا تھا-حمیدہ فوجی نے ہاشم کو فون پر بتایا کہ وہ ملتان شہر سے کہیں باہر گیا ہوا ہے جیسے واہس آتا ہے کال کر لے گا ہاشم کے مزید پوچھنے پر کہ واپس آنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے حمیدہ بولا دو تین گھنٹے لگ سکتے ہیں وہ اُسکا انتظار کرے-
اب ہمارے پاس سوائے انتظار کے کوئی راستہ نہ تھا-ڈی ایس پی صاحب کی سرکاری گاڑی کو تھانہ ممتاز آباد بھجوا دیا جو وہاں سے ایک دو کلو میٹر دور تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو-وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ہاشم کے دونوں ہاتھوں میں دوبارہ ہتھکڑیاں لگا دی گئی تھیں- میاں عرفان صاحب کے موبائل فون پر شاید ڈی پی او بہاولپور کی کال آئی تو وہ اُٹھ کر باہر چلے گئے- اُنکے باہر جاتے ہی ہاشم ڈھول نے مجھ سے سگریٹ مانگا کیونکہ میں سگریٹ نہیں پیتا تھا میں نے ساتھ کھڑے گن مین کو کہا کہ ہاشم کو سگریٹ لا کر دے گن مین چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہاشم کو سگریٹ کی پوری ڈبیہ لا کر دے دی سگریٹ سُلگا کر ہاشم نے میری طرف تشکرانہ نظروں سے دیکھا میں نے ہاشم سے اُس کی زندگی سے متعلق سوالات کرنے شروع کر دیے جس کے جوابات وہی تھے جو ایک عادی مجرم یا ملزم کے ہوتے ہیں- پولیس اور زمینداروں کا ستایا ہوا ایک انسان جس نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری سے آغاز کیا پھر آہستہ آہستہ ڈکیتیاں شروع کر دیں- جیسے ہی میاں عرفان کمرہ میں داخل ہو ئے ہاشم نے فوراً اپنی سگریٹ بجھا دی-
دن کے بارہ بج چکے تھے مگر ابھی تک حمیدہ فوجی کی فون کال نہ آئی تھی اُسے دوبارہ فون کروانا بھی مناسب نہ تھا کہ کہیں اُسے شک نہ ہو جائے- پلان یہ تھا کہ حمیدہ جس جگہ ملنے کے لیے ہاشم ڈھول کو بلوائے گا اُس جگہ میں سفید پارچات میں ملازمین کو لے کر پہلے چلا جاوں گا اور جیسے حمید آیا تو اُسے گرفتار کر لیں گے نشاندہی کے لیے ایک پرائیوٹ مخبر بھی ہمراہ تھا جو فوجی کو جانتا تھا-
خدا خدا کر کے انتظار ختم ہوا اور ہاشم کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی میں نے چند لمہے انتظار کے بعد فون آن کیا اور سپیکر کھول کر ہاشم کو بات کرنے کا اشارہ کیا-حمیدہ فوجی نے اُسے کہا کہ عیدگاہ چوک آ جائے وہ بھی پُنہچ رہا ہے- اب ہم عجیب اُلجھن میں پڑ گئے ملتان کے رہنے والے جانتے ہیں کہ عید گاہ چوک انتہائی رش والی جگہ ہے ساتھ ہی حضرت علامہ سعید احمد کاظمی کا مزار ہے اور وہ ہاشم کو پہلے وہاں آنے کا کہہ رہا تھا ایک مشکل یہ بھی تھی کہ ہاشم کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی جسے دیکھ کر حمید کیسے آئے گا اگر ہتھکڑی کھولتے ہیں اور اُسے کسی ایک ملازم کے ساتھ بھیجتے ہیں تو وہ فرار ہو جائے گا؟
میں نے اس کا حل بھی نکالا اور میاں صاحب کو کہا کہ ہم سفید پارچات والے پہلے عیدگاہ چوک چلے جاتے ہیں ایک رکشہ میں ہاشم کے ساتھ دو ملازمین بیٹھا دیتے ہیں ایک اُس کی ہتھکڑی پکڑے گا اور دوسرا اُس کے موبائل سے بات کروائے گا رکشہ عیدگاہ چوک کے ساتھ کہیں کھڑا کر دیا جائے گا جونہی حمید آئے گا پکڑا جائے گا-
میں اپنی کار میں چار ملازمین کو لیکر عید گاہ چوک پُنہچ گیا ملازمین کو کار سے اُتار دیا اور خود کار کا بونٹ کھول کر کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر بعد موٹر رکشہ بھی آگیا جس میں ہاشم اور دو ملازمین تھے میاں عرفان صاحب بھی دوسری کار ہر دیگر ملازمین کے ساتھ آگئے اور خانیوال کی طرف جانے والی روڈ پر کھڑے ہو گئے اب ہم نے پورے عیدگاہ چوک کو گھیرا ہوا تھا ہاشم رکشہ میں بیٹھا ہوا تھا حمیدہ فوجی کی گرفتاری کی تیاریاں مکمل تھیں مگر یہ ہماری خام خیالی تھی وہ ہماری سوچ سے زیادہ چالاک اور ہوشیار تھا- آدھا گھنٹہ گزر گیا حمید نہ آیا؟ اب میں نے کار کا بونٹ بند کر دیا تھا اور کار کے اندر بیٹھ گیا تھا تھوڑی دیر بعد میاں عرفان صاحب کی مجھے کال آئی اُنہوں نے بتایا ہاشم کے ساتھ رکشہ میں بیٹھے گن مین نے بذریعہ فون بتایا ہے حمید کی ہاشم کو کال آئی ہے کہ میں عیدگا چوک میں کھڑا ہوں اور تم مجھے نظر نہیں آرہے کہاں ہو ہاشم نے واپسی جواب دیا رکشہ میں ہوں تو حمید نے کہا رکشہ سے اُترو میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں-اب ہمارے لیے عجیب سچویشن تھی اگر ہاشم کو رکشہ سے نیچے اُتارتے تو حمید اُس کی ہتھکڑیاں دیکھ لیتا جو کانسٹیبل نے پکڑی ہوئی تھیں اور اگر ہتھکڑیاں کھولتے تو ہاشم نے فرار ہو جانا تھا کیونکہ یہ رش والی جگہ تھی-میں نے اور میاں عرفان صاحب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہاشم کو رکشہ سے نہ اُتارا جائے-میں اپنی کار سے اُترا اور ٹہلتے ہوئے میاں عرفان صاحب کی کار کے پاس آگیا اور اُن کے ساتھ اندر بیٹھ گیا حمیدہ فوجی نے مجھے نہیں دیکھا ہوا تھا جب مجھ پر فائیرنگ ہوئی تھی اُس وقت بھی اندھیرا تھا اور میں ملزمان سے کافی دور تھا اس لیے یہ خدشہ نہ تھا کہ وہ مجھے پہچان لے گا-میاں عرفان صاحب نے اپنے گن مین کو بذریعہ ہدایت کی کہ ہاشم سے فون کروائیں کہ اُسے اچانک بخار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے رکشہ میں بیٹھا ہے ہماری بھرپور کوششوں کے باوجود حمیدہ فوجی نے ہاشم پر اعتبار نہ کیا اور اُسے فون پر گالیاں دیں اور کہا کہ تم مجھے پکڑوانے آئے ہو-اس کے بعد حمید کا فون بند ہوگیا-
اب ہمارا حمید کو گرفتار کرنے کا مشن ناکام ہو چُکا تھا-حمیدہ فوجی ہمارے ہاتھ میں آتے آتے رہ گیا تھا
کیونکہ میری فیملی ملتان شریف رہتی تھی میں نے ڈی ایس پی صاحب سے کھر جانے کی اجازت لی اور کہا میں کل جلال پور کے راستہ سے نوشہرہ جدید تھانہ پر چلا جاوں گا- اُنہوں نے مجھے گھر جانے کی اجازت دے دی اور وہ ہاشم ڈھول کو لیکر واپس احمد پور شرقیہ چلے گئے-
اگلے روز میں صُبح دس بجے اپنے تھانہ پر پہنچ گیا حمیدہ فوجی کا نمبر جس پر ہاشم اُس سے بات کرتا تھا مستقل بند ہو گیا تھا میں نے اُس نمبر کا IMEI نمبر ٹرایک کروانے کے لیے بھجوا دیا تھا تاکہ اگر کوئی اور نمبر اُس فون سیٹ میں استعمال ہوا ہو تو اُس پر پھر سے کام شروع کیا جاسکے-اب میں بھی نااُمید ہونا شروع ہوگیا تھا بلو حسام بھی نہیں مل رہا تھا میری کلاشنکوف بھی اُسی کے پاس تھی کبھی کبھی مجھےاپنی اس غلطی پر شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ میں نے حمید کی گرفتاری کی خاطر اپنی گن اُسے کیوں دی میں کسی کو کہہ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں نے یہ بے وقوفی کیوں کی؟ عابد ڈاہڑ بھی مفرور تھا پولیس پر فائیرنگ والے مقدمہ میں اب حمیدہ فوجی ، بلو حسام اور عابد ڈاہڑ کو اشتہاری بنا دیا گیا تھا-
ایک دن صُبح صُبح مجھے میاں عرفان اُللہ ڈی ایس پی کی کال آئی کہ گزشتہ شب ہاشم ڈھول میرے گن مین کی ٹانگ میں گولی مار کر فرار ہو گیا ہے -اس اطلاع پر میں فوری طور پر احمد ہور شرقیہ پُہنچ گیا میاں صاحب کے گن مین کو سول ہسپتال احمد پور بھجوا دیا گیا تھا جہاں اُس کی حالت خطرہ سے باہر تھی گن مین نے بتایا کہ وہ ہاشم کو پیشاب کروانے باتھ روم لے کر جارہا تھا کہ اچانک اُس نے مجھ پر حملہ کر کے SMG چھین لی اور میری ٹانگ میں گولی مار دی وہ گن بھی ساتھ لے گیا ہے اُسے ایک ہاتھ میں ہتھکڑی بھی لگی ہوئی تھی-ہاشم ڈھول کی کافی تلاش کی گئی مگر وہ نہ ملا سرکاری SMG ملازمین کے رہائشی کواٹرز سے کُچھ دور ایک جھاڑی میں پڑی مل گئی کیونکہ ہاشم کے ایک ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اس لیے وہ اُسے آرام سے کپڑے میں چھپا سکتا تھا اگر دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی ہو تو اُسے چھپانا مشکل ہوتا ہے مگر ہمارے پولیسطملازمین اپنی سُستی اور غفلت سے ان ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس سے اکثر ملزمان پولیس حراست سے فرار ہو جاتے ہیں اور ان ملازمین کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے افسران میڈیا کے سامنے شرمندہ ہوتے ہیں-
ہاشم ڈھول پولیس ملازم کو فائیر مار کر فرار ہو چکا تھا اب حمیدہ فوجی کی گرفتاری کے لیے کوئی سُراغ ہمارے پاس نہیں تھا صرف ایک اُمید بقایا تھی کہ اُس کی بند ہونے والی موبائل سم کے IMEI نمبر سے کوئی اور سم نمبر مل جائے اور اُس سے حمید کو تلاش کیا جاسکے-کُچھ دن بعد IMEI کی تفصیل آگئی یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ حمیدہ فوجی نے اپنے موبائل سیٹ میں ایک اور سم صرف ایک منٹ کے کیے استمعال کی تھی اور نکال لی تھی اب اس نمبر پر کال کر کے کنفرم کرنا تھا کہ یہ نمبر واقعی حمید کا ہے یا کسی اور کے پاس ہے؟
میں نے یہ خوش خبری فوری طور پر میاں عرفان ڈی ایس پی کو دی اور اُن کے پاس احمد پور شرقیہ چلا گیا-میں اپنا لیب ٹاپ بھی ہمراہ لے گیا تاکہ اُنہیں تمام تفصیل سمجھا سکوں- میں صاحب اپنے دفتر میں موجود تھے میں نے اُنہیں IMEI نمبر کے بارے میں بریفنگ دی اب مثلہ حمیدہ فوجی کے اس نمبر پر بات کرنے کا تھا کہ کون اس نمبر پر کال کرے؟ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُسے کوئی شک ہو کیونکہ اُس کی چالاکی اور شاطر ہونے کا تجربہ ہمیں ملتان میں ہو چکا تھا-آخر کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی لڑکی سے حمید کو کال کروائی جائے کیونکہ ہاشم ڈھول تفتیش میں بتا چکا تھا کہ وہ عورتوں کا بہت دلدادہ ہے اور دوران ڈکیٹی عورتوں کے ساتھ زیادتی بھی کرتا تھا-
ڈی ایس پی صاحب نے فوری طور پر ایک لیڈی کانسٹیبل کو بلوایا اُسے ساری بات سمجھائی کہ کیسے فون کرنا ہے اور کیا کہنا ہے پولیس کی زبان میں اس عمل کو “ہنی ٹرائیپ “کہتے ہیں چناچہ ایک نئی سم اور نیا فون سیٹ منگوا کر لیڈی کانسٹیبل کو دیا گیا اور اُسے حمیدہ فوجی کا نمبر ملانے اور سپیکر آن کر کے بات کرنے کا کہا گیا -لیڈی کانسٹیبل نے نمبر ملایا کُچھ دیر تک گھنٹی ہوتی رہی آخر کار دوسری جانب سے فون اُٹھا لیا گیا آواز سُنتے ہی میرا دل ایک زوردار “یا ہو” کا نعرہ مارنے کو کیا مگر میں مار نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ حمیدہ فوجی کی آواز تھی جو فون پر ہیلو ہیلو کر رہا تھا-
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply