کتاب “انعام” کی تقریبِ رونمائی اور “تصوف”۔۔علینا ظفر

جنابِ محترم عرفان الحق کی لاہور آمد اور ان کی بزم کا مجھے ہمیشہ ہی شدت سے انتظار رہتا ہے۔کیونکہ ان کے ہاں سے میں ہر مرتبہ بہت سی علم و حکمت کی باتیں سمیٹ کر اپنے ہمراہ لاتی ہوں۔ استادِ محترم عرفان الحق ہمیں واضح انداز میں اللہ اور رسول ﷺکی باتیں سمجھاتے اور سکھاتے ہیں۔ وہ بڑی مثبت گفتگو کرنے اور امید کا درس دینے والی ہستی ہیں جن کا پیغام محبت ہے۔

27ستمبر2020بروز اتوار،لاہور میں ان کی نئی کتاب “انعام” کی تقریبِ رونمائی اور “تصوف “کے عنوان پر لیکچر کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔معروف مصنفہ ایلف شفق نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “فورٹی رولز آف لَو” میں شمس تبریز ؒاور جلال الدین رومیؒ کی زندگی اور حالات پر مبنی جو تذکرہ بیان کیا ہے، جناب عرفان الحق نے اپنی کتاب “انعام” میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ امید ہےکہ صوفی ازم اور تصوف کے حوالے سے اُن کی یہ نئی کتاب قارئین کو بے حد پسند آئے گی۔گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے اوردوسروں کو بھی اس کے بارے ضرور آگاہ کیجیے تاکہ وہ بھی اس سے فائدے حاصل کر پائیں۔

کتاب “انعام” کی تقریبِ رونمائی میں شمولیت کے لیے میں ایسٹرن کیٹرز مارکی وقت سے کچھ دیر پہلے پہنچ گئی۔صبح11بجے تقریب کا باقاعدہ آغاز قاری عطاالرحمن کی آواز میں تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔اطہر عباس اور نعمان اسلم نے نعتِ رسولِ مقبولﷺ پیش کی۔ علامہ اقبالؒ کی دعائیہ نظم”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” بھی سماعتوں کی نذر کی گئی۔مائک پر میزبانی کی ذمہ داری پروفیسر فدا بخاری کو سونپی گئی اور انہوں نے محترم عرفان الحق کی کتاب”انعام”پر مختصر تجزیہ بھی پیش کیا۔عابدرؤف نے میاں محمد بخشؒ کا کلام سنایا۔ مشہور صوفی گلوکارسائیں ظہور نے صوفی بزرگ بابا بُلھے شاہ ؒ کے خوبصورت کلام سے اپنی آواز کا جادو جگایا ۔ صوفی دھمال گروپ نے صوفی رقص پیش کیااور اس صوفی دھمال نے تمام حاضرین ِمحفل پر ایک سماں باندھ دیا۔تذکرہء شمس تبریزؒ اور تذکرہء بابا بلھے شاہؒ کے لیے یوسف عرفان اور نعیم طاہر اسٹیج پر تشریف لائے۔ تقریب میں ملک کے مختلف شہروں سے عوام کے علاوہ نامور شخصیات صوفی گروپ آف انڈسٹریز کے خالد صوفی،پاکستان کرکٹ بورڈ کےرکن ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ سابق ٹیسٹ کرکٹر ذاکر خان ، جسٹس (ر)انوار الحق، لکھاری طارق بلوچ صحرائی،عطا الحق قاسمی ،رابعہ الرباء، فرح دیبا، جامعہ پنجاب شعبہء ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک، ٹی وی اینکر عبدالرؤف صدیقی، قاسم علی شاہ،آر پی او فیصل آباد راجہ رفعت اوردیگربھی شریک ہوئے ۔

جناب عرفان الحق نے تقریب کے شرکاء سےگفتگو کےآغازمیں انسانیت کے معیار کو بلند کرنے اور اخلاقیات، نفرتیں، کدورتیں، تاثرات،شدت غصہ، حسد،عدم برداشت، ردِ عمل چھوڑ کے برداشت اور محبت بانٹنے کا درس دیا۔انہوں نے رسول اللہﷺ کی سنت یعنی گفتگو میں اختصار اپنانے ،کم بولنےاور خاموشی اختیار کرنے ، غور و فکر،خدمت شروع کرنےاور سیوک بن جانےکی تلقین فرمائی۔

عرفان الحق صاحب کے نزدیک تصوف ایک طرزِ زندگی اوراللہ سے محبت کا راستہ ہے۔تصوف کی ساری بنیاد محبت پہ اٹھائی جاتی ہے۔ پہلی محبت وہ ہے جوہمیں اپنے خالق (اللہ)سے کرنی ہے ۔بجائے کسی نئےمطالبےکے ان چیزوں کا جو ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں شکر ادا کریں اور اللہ کے مخلصین میں شامل ہوجائیں۔اولیاء اللہ نے مالک سے لینے کی بات کبھی نہیں کی۔ جیسے رب دے کرراضی اور خوش ہوتا ہے وہ بھی دے کے راضی ہوتے تھے ،دیےبغیر کوئی تصوف ایگزسٹ نہیں کرتا۔

صوفی ازم کی بنیاد معرفتِ الہٰی ہے۔کوئی معرفت ِالہی کا طلبگار،تصوف کا طالبعلم بننا ، تصوف میں آگاہی ، اللہ سے تعلقِ خاص چاہتا ہوتواپنے اندر اللہ کوتلاش کرے۔ آپ نے جستجو اوراپنے من کی صفائی کرنی ہے ۔من کی صفائی تصوف کا راستہ ہے۔اللہ کی فرمانبر داری کو شوق بنالیں۔جواسےشوق و لگن سے کر رہا ہے ،وہ تصوف کا طالبعلم ہے۔

تصوف کا ایک کلیہ “صبغت اللہ”یعنی اللہ کے رنگ میں رنگے جاناہے۔اللہ کی صفات کوپریکٹس کرنا، لوگوں کو عزت، محبت دینا، درگزر کرنا، کھانا کھلانا، تیمارداری ،عیادت کرنا،لوگوں کی قرضے سے جان چھڑانا، یہ صبغت اللہ ہیں۔ اللہ کے دردمندوں کے درد کو دور اوردوسرے کی تکلیف کو اپنے اندر محسوس کرنا شروع کر دیں ۔ شدتِ درد ،شدتِ احساس،اپنے اندر دوسروں کے لئے مامتا پیدا ہو جائے تو یقینی طور پہ ہم صوفی ہو جائیں گے۔صوفی جس کی خدمت کرتا ہے، اس کی عزت بھی کرتا ہے۔اس پر احسان نہیں جتلاتا۔اس کی آبرو کرتا ہے ۔اس کو نشر اور پتا بھی نہیں لگنے دیتا۔

صوفی ایک اللہ کا ایمان رکھنے ،ماننے،اللہ کے علاوہ ہر مخلوق سے بے نیاز ہو جانے والا ہوتا ہے۔ما سوائےاللہ کسی سے کوئی توقعات وابستہ نہیں رکھتا۔اللہ کے علاوہ ہر مخلوق سے مایوس وناامید ہو جانا توحید ہے۔ تصوف کی بنیاد عاجزی بھی ہے۔عاجزی یہ ہےکہ ہمارے اندر کبر کی بالکل نفی ہوجائے۔ تمام صوفیوں نے عاجزی کے راستے کو اپنایا۔اور رسول اللہ ﷺنے سفرِطائف میں عجز کا اظہارکیا۔ طاقت کے ہوتے ہوئے طاقت استعمال نہیں کی ۔تصوف کی بنیاد اس پر بھی ہے کہ غلطی اپنے میں نظر آئے نہ کہ دوسرے میں۔ ہمیں اپنی کوتاہی، غلطیوں کو تسلیم کرنا ہے۔ صوفی خود احتسابی کےعمل سےگزرتا ہے۔اس نے اپنی سیلف مانیٹرنگ کرنی ہوتی ہے، دوسروں کی نہیں۔ تو اپنے اوپر توجہ دیں۔لوگوں کے سامنے آپ مثال بن کر پیش ہوں۔

جو لوگ راتوں کو نہیں جاگتے انہیں روحانی مناظر ،روحانی ادراک نصیب نہیں ہوتے۔اُن کے دریچے نہیں کھُلتے۔صوفی رات کو جاگنے والے کو کہتے ہیں۔وہ راتوں کو جاگتا ، روتا ، گڑگڑاتا ، معافیاں اوردعائیں مانگتا ہے۔اللہ اپنے محبوبﷺ سے کلام فرماتا ہے کہ توُرات کو ،ایک پہر،دوپہر ،زیادہ اٹھا کر ،میرے حضورقیام ،سجدہ ریز ہوا کر تاکہ تجھے مقامِ محمود پر پہنچا دیا جائے۔کوئی صوفی ایسا نہیں ہے جو اس سنت ِرسول ﷺکو نہ اپنا تا ہو۔اس کو اپنائے بغیر وہ ان مقامات پر نہیں پہنچ سکتا جہاں دوسروں کی بخشش کروا نا ،ان کی شفاعت کرنا نصیب ہونے والا ہے۔

تصوف کاایک اورراستہ ہے،سخی ہونا۔ ہم سخی نہیں ہو سکتےجب تک مال کی محبت دل سے نکال نہ دیں۔ اگر اسبابِ دنیا کی محبت آپ کے دل میں موجود ہےتو تصوف موجود نہیں ہے۔ آپ کو سخی بننا پڑے گا۔سخی کے پاس جو ہوتا ہے وہ اللہ کی راہ میں صرف کرتا ہے۔ علم ، عقل ، وقت ، پیسہ ، حکمت ، دانائی ، عزت ،کچھ بھی ہو۔بندوں کو فتح نہ کریں اُن کے دلوں کو فتح کریں۔

خودفراموشی تصوف کا راستہ اور صوفیاء کا کلیہ ہے۔یعنی اپنے آپ کو بھولنا ،اللہ کو یاد رکھنا۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جستجو میں لگے رہنے کو قرآن نے خواہشِ نفس کی پوجا قرار دیا ہے۔اپنی خواہشیں چھوڑ کےآپ اللہ کی خواہش اور ہدایت پہ چلیں تاکہ آپ کا اللہ سے تعلقِ خاص پیدا ہو۔کثرتِ سجدہ اللہ کو پانے کا بہت بڑا راستہ ہے۔سجدوں سے اللہ ملتا ہے اور رات کے سجدوں سے ملتا ہے۔رات کے سجدوں سے اللہ سے تعلقِ خاص پیدا ہوجاتا ہے۔

صوفی اللہ سےتعلق جوڑتا، اللہ سے محبت کر تاہے،اللہ کے ساتھ ہی اس کا پیار ہے۔ صوفی اپنی روٹین کی زندگی میں اکثرحالتِ روزہ میں رہتا ہے۔ کچھ صوفی حالتِ احرام میں اور کچھ حالتِ اعتکاف میں رہتے ہیں۔ یہ اللہ سے تعلق کو جوڑنے کےطریقے اور کیفیات ہیں۔

ایک چیز تصوف میں ہے محیر العقول واقعات کا ظاہرہونا۔قرآن اس پر گواہ ہے۔قرآن نے حضرت خضر ، موسیٰؑ ، سلیمانؑ کے دربار میں آصف بن برخیا کے حوالے سے اس کاذکرکیا ہے۔یہ بات صوفیوں کے ہاں بہت پہچانی جاتی ہے ۔ بمطابق قرآن ِحکیم موسی ؑکی بھنی ہوئی مچھلی کا سمندر میں چلے جانا محیر العقول واقعہ تھا۔موسیؑ نے فرمایا کہ یہی تو وہ جگہ ہے جہاں اُس بندے نے ملنا ہے جو اللہ کا خاص بندہ ہے۔قرآن نے آپ کو بتایا کہ اللہ کے خاص بندے سےملنا چاہو تو وہاں تلاش کرنا جہاں محیرالعقول ہو رہا ہو۔صوفیوں کے ساتھ محیر العقول واقعات جڑے ہیں۔ کیونکہ جو گواہی قرآن دے دے تو کوئی اس کو جھوٹ ثابت نہیں کر سکتا ۔

جنہوں نے طریقہ ءرسول ﷺکو اپنایا اللہ ان کو ملتا ہے۔شریعت کے بعد طریقت مصدقہ راستہ ہے ۔اللہ کے رسول ﷺنے درویشی اور تصوف کے سارے انداز آپ کو بتا دیے ۔ آپ صوفی بننا،تصوف میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو رات کو دوسروں کے لیے، امت،ضرورتمندوں،بیماروں ، مقروضوں کےلیے مالک کے حضور گڑگڑائیں اور دعائیں مانگیں۔اپنے ساتھیوں اور ہمراہیوں سے زیادہ مشکلیں برداشت کرناصوفی ازم ہے۔ ان کے حصے کا مال کھانے کی بجائےاپنے حصے کا ان کو کھلانا،تقسیم کرناتصوف ہے۔رسول اللہ ﷺکا ایک اسمِ مبارک قاسم ہے۔ قاسم کہتے ہیں تقسیم کرنے والے کو۔ اللہ کے رسولﷺکی یہ صفت ہے کہ جو کملی والےﷺکے پاس آتا ہے، سب بانٹ دیتا ہے ، تقسیم کر دیتا ہے۔ کوئی شخص قاسم ہوئے بغیر صوفی نہیں ہو سکتا۔صوفی ازم میں فاقہ کرنا ،خاموشی اپنانا،تنہائی میں رہنا شامل ہیں جو رسول اللہﷺ کی روایت اورتعلیم ہے۔

کہیں بیعت کو جائیں،کسی سے عقیدت پیدا ہو جائے کہ یہ میں نے مرشد چُننا ہے، یہ میرا رہبر ،استاد ہے توچندچیزیں آپ نےدیکھنی ہیں کہ وہ عورتوں، دولت،سرداری، شہرت کا دلدادہ تو نہیں ہے۔ جس شخص میں یہ تین شوق ہیں وہ ہرگز تصوف کاطالبعلم ہے نہ صوفی ۔رسول اللہﷺ نے پہلے دن ہی اس کو مسترد کر دیا۔ آپﷺنے عورت، دولت اور سرداری کو ریجیکٹ کیا۔

تصوف کے اظہار عظیم لوگوں نے کیے ہیں۔حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہہ نے حکومت چھوڑ کرفساد فی الارض کو روکنے کی بہترین مثال قائم کی۔ ان کےبھائی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہہ نےبھی جہاد کا علم بلند کیا ۔رسمِ شبیری ادا کریں تاکہ کمزوروں،محتاجوں،مجبور و ں کو پناہ دے سکیں ۔

چند باتیں اللہ نے خاص طور پر کیں، رات کو جاگنے ،مقامِ محمود ،بھوکے کو کھانا کھلانے اورتیمارداری والی۔حدیث قدسی میں لوگوں کواللہ نے یہ راستہ اور کوڈ بتا یا کہ جو مجھ سے ملنا ،میرے پاس آنا ، مجھ سے متعلق ہو نا چاہتا ہے وہ بھوکے کو کھانا کھلائے ،بیمار کی تیمارداری، خدمت کرے۔ اللہ اسےمل جائے گا، مقرب بنا لے گا۔

آپ سب بانسری بن جائیں۔بانسری اندر سے بالکل خول ہوتی ہے۔ اس میں سےسُر نکلتے ہیں۔مو ہ لیتے ہیں دل کو ،ٹھنڈک پہنچاتے ، آسودگی دیتے ہیں ۔ہمیں بانسری بننا ہے۔اپنے اندر سے سارا گندنکالنا ہے۔غصہ،نفرت ،حسد،ضد،شہرت سے پرہیز کرنا ہے تاکہ ہمارا دل و دماغ ان چیزوں سے خالی ہو جائے ۔ہمارے اندر سے درد ،آرزوؤں، محبت کےسُر پھوٹیں ۔نفرت کی کوئی آواز ہمارے اندر باقی نہ رہے۔ تو بانسری بن جائیں،خالی کردیں اپنے آپ کو ۔صوفی اپنے آپ کو خالی کرتا ہے۔تب اس کے اندر سے سُر پھوٹتے ہیں اور محبت کے راگ الاپتا ہے۔

درخت لگانا صدقہ ہے اور اگر درخت بن جاؤتو بہت بڑا صدقہ ہے۔کیونکہ اس کا جو پھل ہے وہ کیڑےکھاتے ہیں، پرندے کھاتے ہیں،حیوان کھاتے ہیں، سایہ ہے، ٹھنڈک ہے، سب کے لیے پالن ہے۔اپنے رویے کودرخت بنا لو۔صوفی وہ درخت ہے جوسب کے لئے یکساں مفید ہے۔جو آئے پھل کھائے چاہےاس کا ایمان اور مذہب کچھ بھی ہو۔میاں محمد بخش ؒنے بیری کے درخت کی تعریف کی ہے کہ “ساری دیہاڑی وٹے کھاندی اے تے مِٹھے بیر کھواندی اے۔” بیر پتھروں سے توڑے جاتےہیں مگر بیری بخیلی نہیں کرتی۔میٹھے بیر ہی آپ کو پیش کرتی ہے ۔ آپ بیری کے درخت کی عادتیں اپنا لیں گے تو اتنے ہی مقدس ہو جائیں گے جتنا بیری کا درخت معتبر ہے۔پتھرکھائیں، لوگ تانے ماریں ، برائیاں ، لعن طعن کریں مگرآپ اچھے کاموں سے باز نہ آئیں۔صوفیوں کا یہی منشا ومقصد ہے۔شہد کی مکھی کا رویہ اپنا لیں۔شہدکی مکھی کسی پھل ،پودے،پھول میں اپنا انجیکٹرداخل کرتی ہے جتنا اس میں رس ہوتا ہے اسےچار گنا بڑھا دیتی ہے۔اس میں سے ایک حصہ لیتی ہے جو خود استعمال کرتی ہے اور کسی ناپاک جگہ پر نہیں بیٹھتی ۔جہاں شہد کی مکھی بیٹھ جائے آپ سمجھ لیں کہ یہ لباس،یہ جگہ پاکیزہ ہے ۔پاکیزگی ،رزقِ حلال، دوسرے کا استحصال نہ کرنا جو شہد کی مکھی والا یہ رویہ اپنا لے گا وہ عظیم صوفی بن جائے گا ،تصوف کا علم حاصل کر لے گا ۔

صوفیوں کا دین آفاقیت پر ہوتا ہے ۔آفاقی دین ہوتا ہے ۔اللہ رب العالمین ہے اس کے جتنے مظاہر ِفطرت ہیں وہ سب انسانوں کے لئے یکساں عمل کر رہے ہیں ۔سورج ، چاند ، ہوائیں ، آبشاریں ، بارشیں سب کے لئے یکساں ہیں۔ ان میں نیک وبد، مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں۔درویش ،صوفی سب کا سانجھا ہوتا ہےکسی ایک مسلک یا مذہب کانہیں ہوتا ۔وہ سب کے لئے برابر کے فائدوں کا باعث ہوتا ہے ۔ سب کی خدمت برابر کرتا ہے۔ آپ اللہ کو راضی کرنا اور تصوف کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو انسانوں میں تقسیم بند کر دیں۔آپ سب کے خا دم ، سب کے سیوک ہو جائیں۔صوفی کا مسلک یہ ہوتا ہے کہ جس کی خدمت کرتا ہے اس کی عزت بھی کرتا ہے۔ اگر عزت نہ کرے، احسان جتلا دےتو خدمت ضائع ہو جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صوفی رقص شمس تبریز ؒنے شروع کرایا تھا جورومیؒ کے ہاں روایت بنا اور آج تک جاری ہے۔اس میں ایک ہاتھ سےاللہ سے آرزو،درخواست اور التجا کی جا تی ہے کہ آجا میرے دل میں سما جا ۔دوسرےہاتھ سے بھی اللہ سے التجا کر تے ہیں کہ اے اللہ برکتیں،نعمتیں ،علم ، حکمتیں اور دانائی ہمیں عطاکر میں ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے تیرے معاشرے میں اسے تقسیم کر سکوں ۔یہ رقص عبادت کا پورا شعور ،ادراک اورسمجھ ہے ۔جب آپ کواللہ کا قرب نصیب ہو جاتا ہے تو آپ جھومنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ رقص اللہ کے قرب کا اظہار بھی ہے۔ صوفی بنیادی طور پر اللہ کی محبت کرنے والا ہوتا ہےاور پھر اللہ کی سنت پر چلتے ہوئے جن چیزوں سے اللہ محبت کرتا ہے صوفی بھی ان تمام چیزوں سے محبت کرتا ہے ۔اس محبت کے طریق کو اپنا کرصبغت اللہ ہو جاتا ہے یعنی اللہ کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ اللہ کو اپنی تمام مخلوق پیاری ہےصوفی بھی ایسا کرتا ہے۔ اللہ کو پرہیزگاری، عبادت گزاری،خدمت، مریض کی عیادت ، کھلانا،شب بیداری پیاری صوفی کو بھی ۔مخلوق کی محبت کے ذریعے خالق سے پیار تصوف ہے۔جو تصوف کے طور طریقے ہیں ان کو اپنا کر آپ اس راستے پر چلیں تاکہ اللہ کے مقربین میں آپ کو مقام اور راستہ مل جائے۔اللہ آپ کا اور میرا حامی ناصر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتاب “انعام” کی تقریبِ رونمائی اور “تصوف”۔۔علینا ظفر

Leave a Reply to راجہ شوکت Cancel reply