حاضری۔۔رابعہ خرم درانی

آج کا سچا واقعہ اس عشق کی واردات ہے جس کی لو کب لگ جائے ،کسے لگ جائے، اس کی خبر کسی کے پاس نہیں۔ کبھی یہ لو ایک چنگاری کی مانند تہہ میں پڑی سلگتی رہتی ہے تو رفیق مسیح دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کبھی یہ ایکدم بھڑک کر بھانبڑ بن جایا کرتی ہے تو دنیا عن الحق کا نعرہ سن لیا کرتی ہے۔

چند سال گزرے میرے کلینک میں ایک سادہ سا گہرے سانولے رنگ کا ایک شخص ڈاکٹر صاحب سے دوا لینے آیا کرتا تھا ۔خاموش طبع سفید پوش جس کے پرانے کپڑے بہت اچھے طور دھلے ہوتے کندھے پر چار خانے والا رومال ہوتا۔ پیروں میں عام سی چپل ہوتی ۔ سر کے بالوں میں سفیدی اور سیاہی کا تناسب یکساں تھا۔ قریبا ً چھ فٹ قد کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ویٹنگ ایریا میں سب سے نمایاں نظر آتے۔ دونوں ہاتھ گود میں اس طرح رکھتے کہ انگلیاں باہم پیوست ہوتیں ۔جیسے لمبے قد کے بچے الجھن کا شکار ہو کر گردن جھکا کر چلتے ہیں تاکہ وہ دوسروں سے الگ نظر نہ آئیں اسی طرح رفیق مسیح بھی گردن جھکائے اردگرد سے غیر متعلق بیٹھے ہوتے۔ کبھی کبھار جب ٹی وی پر کوئی ڈاکیومنٹری لگی ہوتی یا معلوماتی پروگرام تو سر اٹھاتے اور بچوں سی معصومیت سے ٹی وی دیکھا کرتے۔ انہیں سانس کی پرانی بیماری تھی اس لیے اکثر و بیشتر نیبیولائزر یا آکسیجن کے لیے کلینک میں پائے جاتے۔

میرا ان سے تعارف تب ہوا جب ان کی حاملہ بیٹی نے میرے پاس آنا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں ان کی حاملہ بہو اور بیٹی کے ساتھ دوستوں والا رشتہ استوار ہو گیا۔ نواسی اور پوتے کی پیدائش کے دوران خون کی ضرورت پڑنے پر رفیق صاحب کو ہی تمام انتظامات دیکھنے پڑے۔ اس دوران اس سادہ دکھنے والے شخص کی نرم طبیعت اور ڈاکٹر کو مسیحا ماننے کے انداز نے بہت متاثر کیا۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا تو بس اسے مکمل ہونا چاہیے ایسا اعتماد کسی بھی ڈاکٹر کو باندھ کے رکھ دیتا ہے کہ وہ اپنے مریض کے لیے انتہائی پُرخلوص کوشش کرے۔ رفیق صاحب کے بیٹے اور داماد بیرون ملک ملازمت کرتے تھے اور گھر کی خواتین اور بچوں کی دیکھ بھال رفیق صاحب کیا کرتے ۔ وہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازم تھے۔ بچوں کی اچھی ملازمتیں تھیں اس لیے اب بیٹے انہیں نوکری نہیں کرنے دیتے تھے۔ لیکن سڑک پر اڑتی دھول مٹی ہو یا دھواں ،دمہ انہیں تنگ کیے رکھتا۔ سو اکثر اوقات ایمرجنسی میں نیبیولائزر کا ماسک لگائے بیٹھے پائے جاتے۔ جب کبھی مجھے دیکھتے دونوں ہاتھ سر تک اونچے کرتے اور سلام کرتے ،ساتھ ہی ملائم سا جملہ آتا بیٹا جی خیر نال او۔ میں سلام کا جواب دیتی۔ انہیں صحت کی دعا دیتی اور آگے بڑھ جاتی۔

محرم الحرام کی دس تاریخ تھی کہ رفیق صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔ ہسپتال میں داخل تھے ۔ عیادت کے لیے ان کے کمرے میں گئی تو پتا چلا کہ پچھلے چند روز سے روزانہ صبح سڑکوں پر جھاڑو لگا رہے تھے۔ روزانہ شام میں نیبیولائزر اور آکسیجن سے خود کو سہارا دے لیتے ۔ دس محرم الحرام کی صبح “جھاڑو کا روٹ” زیادہ طویل تھا۔ دھول مٹی نے کھانسی اور دم الٹنے کی کیفیت پیدا کر دی۔ طبیعت بگڑی تو راہ چلتے کسی راہگیر کی مدد سے ہسپتال پہنچ پائے۔ خیر اللہ نے بندے پر اپنا کرم کیا اور وہ تندرست ہو کر گھر جانے لگے تو مجھ سے ملنے آئے۔ میرے ذہن میں الجھن تھی کہ بیٹے فارن کرنسی میں کما رہے تھے اور باپ کو کام نہیں کرنے دیتے تھے ۔ خاکروب کا پیشہ چھوڑے مدت ہوئی دھول مٹی سے الرجی بھی ہے ۔تو اب کیا صورتحال بنی کہ دوبارہ جھاڑو تھام لیا۔ اس سوال کے جواب میں پتا چلا کہ بیٹے اب بھی ویسے ہی خدمتگار ہیں اور روپے پیسے کی بھی کوئی تنگی نہیں۔ نوکری بھی نہیں کرتے۔ لیکن تمام عمر کا ایک وظیفہ ادا کرنے سے باز نہیں آتے۔

سردی گرمی یا تعطیلات ہر موسم میں دس محرم الحرام کے جلوس کے گزرنے کا راستہ صاف کرتے رہے ہیں ۔دائیں ہاتھ سے جھاڑو دیتے اور بائیں کندھے پر دھری چمڑے کی مشک سے سڑک پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے جاتے۔ اس کے بعد جلوس کے رستے کے دونوں طرف چونے سے لکیریں لگایا کرتے۔ ایک دفعہ جب نوکری میں تھے اور بغیر سرکاری ڈیوٹی کے اس وظیفے کی ادائیگی میں مشغول تھے تو کسی نے رپورٹ کر دی کہ ایک مسیحی خاکروب جو ڈیوٹی پر بھی نہیں وہ جلوس کے راستے کی صفائی کیوں کر رہا ہے؟ ملک کی سکیورٹی صورتحال میں یہ رپورٹ اہم تھی ،چنانچہ فوراً  سے اے سی صاحب کے سامنے پیشی ہو گئی۔ اے سی صاحب نے بھی وہی سوال کیا جو میں نے کیا تھا اور وہی جواب مجھے ملا جو اے سی صاحب کو دیا گیا تھا۔

“صاحب پاکاں دی سواری نے گزرنا ہوندا اے تے میں اوہناں دا رستہ صاف کرنا آں۔ اپنی حاضری لواناں ۔ او (ع ) صرف تہاڈے جی تھوڑے نیں ساریاں دے نیں “(صاحب پاک لوگوں کی سواری نے گزرنا ہوتا ہے ان کے لیے راستہ صاف کرتا ہوں اور اپنی حاضری لگواتا ہوں ۔ وہ (حسین ع و شہدائے کربلا ) صرف آپ مسلمانوں کے تو نہیں۔ ہم سب کے ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors

اب رفیق صاحب ہم میں نہیں چند سال پہلے رخصت ہوئے۔ دعا ہے کہ ان کی حاضری مقبول ہوئی ہو۔ آمین!
طالب دعا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply