مینڈالیو ۔ عناصر کا ٹیبل (47)۔۔۔وہاراامباکر

آج جب ہم ماضی میں دیکھیں تو مینڈالیو کے بریک تھرو ٹھیک وقت میں کئے گئے ٹھیک سوالوں کا نتیجہ تھے۔ ان کا جوش، ضد، کام کا شوق اور انتہا کی خوداعتمادی ۔۔ سبھی اس کے پیچھے تھے۔ جس طرح ذہنی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے، محنت کا ہونا ضروری ہے، ٹھیک رویہ ضروری ہے، ویسے ہی قسمت کا ساتھ ہونا بھی۔ اور مینڈالیو کے لئے یہ قسمت ان کا کیمسٹری کے نصاب کی کتاب لکھنے کا فیصلہ ثابت ہوا۔

یہ 1866 کی بات ہے جب مینڈالیو کو بتیس سال کی عمر میں یونیورسٹی میں کیمسٹری کا پروفیسر مقرر کیا جا چکا تھا۔ سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی ڈیڑھ سو سال پہلے پیٹر دی گریٹ کے قائم کی تھی اور یہ یورپ کا فکری مرکز بننے لگی تھی۔ یہ روس کی بہترین یونیورسٹی تھی۔ روس باقی یورپ سے پیچھے تھا۔ مینڈالیو کو پڑھانے کے لئے کوئی اچھی کتاب نیہں ملی۔ اس لئے انہوں نے خود لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کو مکمل ہوتے کئی سال لگے۔ اور یہ بعد میں تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوئی اور آنے والی دہائیوں میں یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ یہ غیرروایتی طریقے سے لکھی گئی تھی۔ اس میں واقعات لکھے گئے تھے، قیاس آرائیں بھی تھیں اور کچھ نرالا پن بھی۔ یہ محبت سے کیا گیا کام تھا اور بہترین کتاب لکھنے کی خواہش نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ان معاملات پر غور کریں جو بعد میں ان کی بڑی دریافت کی طرف لے گئے۔

پہلا چیلنج مینڈالیو کو یہ تھا کہ اس کو آرگنائز کیسے کریں۔ انہوں نے فیصلہ کیا یہ عناصر اور مرکبات کو گروپ یا فیملی کی صورت میں اکٹھا کر کے لکھیں گے اور پھر ان کی خاصیتیں بنائیں گے۔ ہیلوجن اور الکلی کو بیان کرنے کے بعد پھنس گئے کہ آگے کیا لکھیں۔ کیا ترتیب بس اپنی صوابدید پر رکھیں؟ یا پھر ترتیب کا کوئی ضابطہ ہونا چاہیے جس کے مطابق یہ کیا جائے؟

مینڈالیو اس مسئلے میں پھنسے ہوئے اپنے کیمسٹری کے وسیع علم کی گہرائی میں سراغ تلاش کر رہے تھے۔ ایک ہفتے کے روز، وہ اس مسئلے میں اتنے ڈوب گئے کہ تمام رات گزر گئی اور اگلی صبح آ گئی۔ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پھر انہوں نے بارہ عناصر کے نام لکھے جس میں آکسیجن، نائیٹروجن اور ہیلوجن شامل تھے۔ یہ نام لفافوں کے پیچھے لکھے اور ان سب کو ان کے ایٹمی اوزان کے لحاظ سے ترتیب دے دی۔

اور اچانک، انہوں نے ایک چیز نوٹ کی۔ یہ فہرست نائیٹروجن، آکسیجن اور فلورین سے شروع ہوتی تھی جو سب سے ہلکے ہیں۔ پھر اس گروپ کی فہرست کا دوسرا بھاری عنصر آتا ہے۔ یہ دہرایا جانے والا پیٹرن تھا یا “پیرئیڈ” کا پیٹرن تھا۔ صرف دو عناصر اس پیٹرن میں ٹھیک فٹ نہیں ہوئے تھے۔

انہوں نے ان عناصر کو قطار کی صورت میں رکھ دیا اور ایک دوسرے کے اوپر تلے قطاریں رکھ کر ٹیبل بنانے لگے۔ کیا اس پیٹرن کے پیچھے واقعی کچھ تھا؟ اور اگر یہ بارہ عناصر بامعنی پیٹرن بناتے ہیں تو کیا اس وقت کے معلوم باقی اکاون عناصر بھی؟

Colorful Periodic Table of the Elements – shows atomic number, symbol, name, atomic weight, electrons per shell, state of matter and element category

مینڈالیو اپنے دوستوں سے تاش کا ایک کھیل کھیلا کرتے تھے جس میں تاش کے پتوں کو خاص ترتیب میں رکھنا ہوتا تھا۔ انہوں نے اس روز محسوس کیا کہ یہ ٹیبل بھی کچھ ویسا لگ رہا ہے۔ انہوں نے تمام معلوم عناصر کے نام اور اوزان کارڈز پر لکھے اور اس کا ٹیبل بنانے کی کوشش کی۔ یہ کیمسٹری سے کھیلی جانے والی تاش تھی۔ وہ ایسے ترتیب دینا چاہ رہے تھے کہ اس کی کوئی تک بن سکے۔

مینڈالیو کی اپروچ میں سنجیدہ کمزوریاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ یہ کچھ عناصر کے بارے میں یہ واضح نہیں تھا کہ ان کو کس گروپ میں ہونا چاہیے۔ کچھ کی خاصیتیں ابھی زیادہ پتا نہیں تھیں۔ کچھ عناصر کے ایٹمی وزن پر بھی ابھی اتفاق نہیں تھا اور جیسا کہ ہمیں آج پتا ہے کہ کچھ غلط تھے۔ اور سب سے سنجیدہ مسئلہ یہ کہ کئی عناصر ابھی دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر تاش کے اس کھیل کا کام کر جانا بڑا مشکل تھا۔

یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن یہاں اصل نکتہ اس سے زیادہ باریک تھا۔ ایسی کوئی بھی وجہ نہیں تھی جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا کہ ایٹمی وزن کی بنیاد پر کوئی سکیم آخر کیونکر بن سکتی ہے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ایٹمی وزن کا “معنی” کیا ہے۔ (آج ہم جانتے ہیں کہ یہ ایٹم کے نیوکلئیس میں پروٹون اور نیوٹرون کی ملا کر تعداد ہے۔ اور یہ بھی کہ نیوٹرون کا ایٹم کی کیمیکل خاصیت سے تعلق نہیں۔ اس وقت ان چیزوں کا علم نہیں تھا)۔ اور یہاں پر مینڈالیو کی ضدی طبعیت اور جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس خیال کے پیچھے پڑے رہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف faith کی بنا پر کیا جا رہا تھا۔

مینڈالیو کا کام ہمیں بتاتا ہے کہ سائنس کا کام معمے حل کرنے جیسا ہے لیکن ان میں اہم فرق ہیں۔ کیونکہ ایک معمے میں ٹکڑے جڑ جاتے ہیں لیکن مینڈالیو کے لئے یہ نہیں جڑ رہے تھے۔ سائنس میں اور تمام جدتوں میں کئی بار آپ کو کچھ ایسا نظرانداز بھی کرنا پڑتا ہے جو یہ بتائے کہ آپ کا کام کیوں نہیں ہو سکتا۔ اور اس پر لگے رہنا belief کا تقاضا کرتا ہے کہ نہیں، کچھ مل ہی جائے گا۔ مینڈالیو کی کہانی شاندار ذہانت اور غیرمعمولی مستقل مزاجی کی ہے۔ انہوں نے یہ تصویر مکمل کرتے ہوئے اس معمے کے ٹکڑوں کو ایک تصویر میں تبدیل کیا اور کئی کو اپنے پاس سے گھڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بادی النظر میں مینڈالیو کی کامیابی کو ہیرو کی نظر سے بیان کرنا آسان ہے جیسا کہ شاید اس مضمون میں تاثر مل رہا ہو۔ اگر کسی کے خیالات کچھ کھسکے ہوئے ہوں لیکن کام کر جائیں تو وہ شخص ہیرو کہلاتا ہے۔ لیکن اس کی دوسری سائیڈ بھی ہے۔ تاریخ میں کھسکے ہوئے لوگ اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ وہ خیال جو کام کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں جو کام نہیں کرتے۔ غلط کو ہم بھلا دیتے ہیں۔ وہ گھنٹے، دن، ماہ و سال جو کھپ گئے ۔۔۔ ان لوگوں کے، جن کو اپنا ٹھیک ہونے پر یقین تھا ۔۔۔ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اور ہم اس قسم کے ناکام لوگوں کو یاد نہیں رکھتے یا دیوانہ کہہ دیتے ہیں۔ لیکن ہیروازم رِسک لینے کا نام ہے۔ اور ریسرچ میں، خواہ کام کرے یا نہیں، ہیرو وہ ہیں جو رِسک لے سکتے ہیں اور پھر اپنے رِسک پر مشقت کرتے ہیں، مہینے اور سال لگا دیتے ہیں۔ یہ ذہنی جدوجہد ہے جو لازمی نہیں کہ کسی خوشگوار نتیجے پر پہنچے۔

مینڈالیو نے وقت لگایا تھا۔ اور جب کوئی عنصر ان کی سکیم میں اس طرح فٹ نہیں ہوتا تھا تو بھی اس چیز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے تھے کہ سکیم غلط ہے۔ وہ اپنے ٹھیک ہونے پر اصرار کرتے تھے اور نتیجہ نکالتے تھے کہ ایٹمی وزن کی پیمائش ٹھیک نہیں کی گئی۔ اور بڑی دلیری سے پیمائش کیا گیا وزن کاٹ کر وہ وزن لکھ دیتے، جو ان کے خیال میں اس سکیم میں فٹ ہونے کے لئے ہونا چاہیے تھا!!۔

ان کے سب سے بے باک دعوے اس وقت آئے جب ان کے ٹیبل میں خلا رہ گئے۔ یعنی کوئی ایسا عنصر نہیں تھا جو ایسی خاصیت رکھتا ہو جو وہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔ اپنے خیال سے پیچھے ہٹنے یا اپنی تنظیم کے اصول کو بدلنے کے بجائے وہ اس پر بضد رہے کہ ان جگہوں پر وہ عناصر ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئے۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ ان عناصر کی خاصیتیں کیا ہیں۔ وزن کتنا ہے، فزیکل خاصیت کیسی ہے اور کن عناصر سے ری ایکشن کر کے کس قسم کے کمپاوٗنڈ بناتے ہیں۔ یہ سب صرف اس بنیاد پر کہ وہاں پر ایک خلا رہ گیا تھا!۔

مثال کے طور پر ایلومینیم کے ساتھ گیپ تھا۔ مینڈالیو نے اس کا نام ایکا ایلومینیم رکھ دیا۔ اور ساتھ بتا دیا کہ جب کوئی کیمسٹ اسے ڈھونڈے گا تو یہ چمکدار دھات ہو گی جو کم درجہ حرارت پر پگھل جائے گی۔ اور اس کے ایک مکعب سینٹی میٹر کا وزن 5.9 گرام ہو گا۔ کچھ سال بعد ایک فرنچ کیمسٹ لیسوق بوئی باڈراں نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جس کی خاصیتیں وہی تھیں جو مینڈالیو نے بیان کی تھیں لیکن وزن 4.7 گرام تھا۔ مینڈالیو نے فوراً لیسوق کو خط لکھا کہ اس میں غلطی ہے اور ان کا سیمپل خالص نہیں تھا۔ لیسوق نے تجزیہ دہرایا اور اس بار بہت اچھے طریقے سے اسے خالص کیا۔ اور اس بار اس کا وزن عین وہی نکلا جو مینڈالیو نے پیشگوئی کی تھی! لیسوق نے اس کا نام گیلیم رکھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مینڈالیو کو اپنے ٹھیک ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ اگرچہ ان کی تنظیم کسی مضبوط بنیاد پر نہیں تھی، لیکن وہ اس کی بنیاد پر تجربے کے نتیجے کو غلط قرار دینے سے نہیں ہچکچائے۔ اور وہ اپنے اعتماد کے بارے میں ٹھیک تھے۔

اور یہ ہمیں سائنس کے ایک اور دلچسپ مباحثے کی طرف لے جاتا ہے۔ کیا تھیوریٹیکل سائنس زیادہ قابلِ اعتبار ہے یا پھر تجرباتی سائنس؟ معاملہ یہ ہے کہ اس سوال کا کوئی ٹھیک جواب نہیں۔ سائنس کے فلسفے سے کم واقفیت رکھنے والے لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ تجربہ تھیوریٹیکل سائنس کو غلط ثابت کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی تجربے کا نتیجہ محض ایک اِن پُٹ ہے۔ تجرباتی اور نظریاتی سائنس ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بڑھتی ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کو ٹھیک کرتا ہے تو کبھی دوسرا پہلے کو۔ سائنس کسی سادہ دکھائے جانے والے لگے بندھے اصولوں والے میکانیکی فلسفے کے مقابلے بہت زیادہ تخلیقی اور ذہنی صلاحیت مانگنے والا پرپیچ کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مینڈالیو نے اپنا ٹیبل 1869 میں روسی جریدے میں شائع کیا اور پھر جرمن جریدے میں۔ اس میں سکینڈیم، جرمینیم، جرمینیم اور ٹیکنیشیم نہیں تھے۔ ٹیکنیشیم ریڈیو ایکٹو ہے اور اتنا نایاب ہے کہ اس کی دریافت 1937 میں ہوئی جب اسے مصنوعی طور پر سائیکولوٹرون میں بنایا گیا۔ مینڈالیو کی وفات کو اس وقت تک تیس سال گزر چکے تھے۔

یہ اچھی تھیوریٹیکل کیمسٹری کی پیشگوئی کی طاقت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیمسٹری میں پہلا نوبل پرائز 1901 میں دیا گیا جو مینڈالیو کی وفات سے چھ برس قبل ہے لیکن نوبل کی تاریخ کی بڑی کوتاہی کہا جا سکتا ہے کہ مینڈالیو کو ان برسوں میں یہ نہیں دیا گیا۔ ان کا بنایا عناصر کا ٹیبل جدید کیمسٹری کی تنظیم کا مرکزی اصول ہے۔ ان کی دریافت نے اشیا کی سائنس پر ہمارے عبور کو ممکن بنایا۔ یہ کیمسٹری کا دو ہزار سال کا سفر تھا جو لاشیں محفوظ کرنے والوں نے شروع کیا تھا۔

لیکن 1955 میں مینڈالیو ایک اعزاز کے مستحق قرار پائے جب برکلے کے سائنسدانوں نے ایک نئے عنصر کے درجن بھر ایٹم ایک سائیکوٹرون میں پیدا کئے۔ 1963 میں اس کا نام مینڈالیویم رکھ دیا گیا۔

نوبل انعام تو آٹھ سو سے زائد سائنسدانوں کو مل چکا ہے لیکن صرف سولہ سائنسدان ایسے ہیں جن کے نام پر کوئی عنصر ہے اور ان میں سے ایک مینڈالیو ہیں۔ انہیں پیریوڈک ٹیبل میں عنصر 101 پر جگہ ملی ہے۔ آئین سٹائنیم اور کاپرنیسیم کے قریب میں ہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply