ترجیحات کا تعین کیجیے

ایک خبر ہے کہ قصور کی زہرہ بی بی لاہور کے بڑے سرکاری جناح ہسپتال میں بستر نہ ملنے کے سبب ٹھنڈے فرش پر پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی۔ ایک دوسری خبر ہے کہ وزیرِاعظم کی اہلیہ “خاتونِ اول” بیگم کلثوم نواز طبی معائنے کیلیے لندن جائیں گی، ساتھ ہی خبر ہے کہ وزیرِاعظم کی صاحبزادی “دخترِاول” محترمہ مریم نواز گھٹنوں کے آپریشن کیلیے برطانیہ جائیں گی۔ ایک اور خبر ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان جناب نوازشریف نے ملک بھر میں چوالیس نئے جدید اور عالمی معیار کے ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے اور الیکشن 2018 سے قبل ان کی تعمیر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور ایک خبر ہے کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب “برادرِاول” شہباز شریف نے کرپشن اور کرپٹ سسٹم کے خلاف دھواں دار تقریر کی ہے۔
اِن خبروں کو دیکھیے اور سر دھنیے اور اس کے علاوہ آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ قصور کی زہرہ بی بی جیسے تیسے کر کے لاہور تو پہنچ گئی لیکن غریب کیا کرتی، جہاں پہلے ہی ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوں وہاں چوتھے مریض کی گنجائش کیسے نکالی جائے۔ اس غریب کے پاس تو کوئی پرچی بھی نہیں تھی جو اس کو بستر مہیا کروا سکتی۔ سخت سردی میں ٹھنڈے فرش پر لیٹی زہرہ کو وہیں انجکشن اور ڈرپ لگا دی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی اور نظام میں بہتری اور ملک کو ترقی کے اوجِ کمال تک پہنچا دینے کے دعویدار حکمرانوں کے منہ پر طمانچے رسید کرتی اللہ کو پیاری ہو گئی۔
ظالم شاہ کی دیکھو یہ کیسی من مانی ہے
کاروبار ہوئے ہیں چوپٹ اور برباد کِسانی ہے
اس کا قصور یہ تھا کہ اس کے پاس کسی بڑے پرائیویٹ ہسپتال کی فیس ادا کرنے کیلیے لاکھوں روپے نہیں تھے۔ یہ بھی اس کا قصور تھا کہ وہ کسی غریب کسان، کسی بے کس مزدور کی بیٹی تھی اور یہ بھی اس کا قصور تھا کہ وہ جاتی امرا کی بیٹی مریم نہیں بلکہ قصور کی غریب زہرہ بی بی تھی۔ ہمیشہ کی طرح خبر آئی کہ خادمِ اعلیٰ نے زہرہ بی بی کے” قتل” کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے اور اپنے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو زور زور سے ہلاتے ہوئے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لیکن نتیجہ کیا ہو گا، وہی ڈھاک کے تین پات۔ معطل اہلکار معاملہ ٹھنڈا ہونے پر دوبارہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے، توندوں پر ہاتھ پھیرتے اور چہروں پر مکروہ مسکراہٹیں سجائے غریب عوام کے سینوں پر مونگ دلنے اپنی سیٹوں پر واپس آ جائیں گے اور پھر کوئی ایسا واقعہ ہو گا اور پھر یہی فلم جو بار بار دہرائی جاتی ہے، ایک دفعہ پھر دہرا دی جائے گی۔
شریف برادران کی اختیارات کو صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہش نے نظام کو جامد کر دیا ہے۔ فوٹو سیشن اور صرف اور صرف اپنی ذاتی پبلسٹی کے شوقین خادمِ اعلیٰ نے کئی کئی محکمے اپنے پاس رکھے ہوتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نجانے کیوں نہیں آتی کہ ایک اکیلا آدمی درجن درجن محکموں کی کارکردگی کی نگرانی کیسے کر سکتا ہے جبکہ وہ پہلے ہی ملک کی آبادی کے بڑے حصے پر مشتمل صوبے کی خدمت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہو! مرکز میں بھی بڑے میاں صاحب کا ایک مستقل وزیرِخارجہ کا تقرر نہ کرنا اور وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے ہاتھ میں رکھنا اسی بات کی دلیل ہے کہ بڑے میاں اپنی مرضی کے خلاف خارجہ امور میں کوئی بات سننا بھی شاید پسند نہیں کرتے، چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ۔
بلدیاتی اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھنے کیلیے انگریز کے دور کے کمشنری نظام کو بحال کر دینے والے ان دونوں بھائیوں کا بس چلے تو پانی کے ہینڈ پمپ لگانے پر بھی اپنے نام کی تختی لگا کر خود افتتاح کرنے دوڑے چلے آئیں۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ دیکھو ہر واقعے کے بعد وزیرِاعلیٰ خود موقعے پر پہنچ کر احکامات دیتے ہیں، کوئئ دوسرا حکمران ایسا کرتا ہے!! تو سننے والے نے جواب دیا کہ یہی ان کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے، گزشتہ تیس پینتیس سال سے پنجاب میں رہنے والے حکمران اگر اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرتے اور نظام کو مؤثر بناتے تو ہر واقعے کے بعد در در کی خاک چھاننے انہیں خود دوڑیں نہ لگانا پڑتیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ خادمِ اعلیٰ جب کرپشن اور کرپٹ اشرافیہ کے خلاف زوردار تقریریں کرتے ہیں تو کوئی ایک بھی ان کے کان میں یہ نہیں کہتا کہ حضور یہ سب ارشادات آپ اپنے خلاف ہی فرما رہے ہیں۔ وزیرِاعظم نے چوالیس نئے بین الاقوامی معیار کے ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے، ان کی آواز مکے مدینے، لیکن موجودہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت کون درست کرے گا؟ اس کیلیے ہم پڑوس کے کسی ملک کے وزیرِاعظم سے منت کریں؟ کچھ ایسا ہی حساب پنجاب میں جناب شہبازشریف نے دانش سکولوں کے قیام کے وقت کیا تھا۔ اربوں روپے سے قائم کردہ دانش سکولوں کا آج کیا حال ہے، یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ پہلے سے موجود سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت درست کرنے میں کم خرچ بالا نشیں کے مصداق خزانے پر بھی کم بوجھ پڑتا اور مریضوں اور طالبعلموں کو بھی بڑے پیمانے پر بہتر سہولتیں میسر آسکتیں۔ ان کی حالت ٹھیک کرنے کے بعد آپ بیشک دانش سکول بناتے بلکہ احسان دانش سکول بنا دیتے اور چوالیس کی بجائے سو نئے ہسپتال بنانے کا اعلان کر دیتے، لیکن یہاں عوام کو سہولت دینا تو مقصود نہیں ہے بلکہ سیاسی شہرت حاصل کرنا مقصود ہے اور پہلے سے موجود سکول یا ہسپتال کی حالت بہتر کرنے سے وہ واہ واہ تو نہیں ہو سکتی جو نئے سکول یا ہسپتال بنانے سے ہو گی، چاہے ان کی تعمیر میں سالوں لگ جائیں۔
سڑکیں، موٹرویز، ہائی ویز، میٹرو، انڈرپاس اور اوورپاس بنانا بھی بہت ضروری ہیں لیکن یہ چونچلے اس وقت کے ہیں جب عوام کو بنیادی سہولتیں وافر مہیا ہو رہی ہوں۔ جناب خادمِ اعلیٰ نے کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں سڑکوں کی افادیت پہ روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ سڑکیں نہیں ہوں گی تو بچے سکول کیسے پہنچیں گے۔ اسی قسم کا ایک شگوفہ جناب وزیرِاعظم نے بھی کچھ دن پہلے چھوڑا کہ سڑکیں لوگوں کو ہسپتال پہنچانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ لیجیے صاحب! زہرہ بی بی کو بھی سڑک نے ہسپتال تو پہنچا دیا لیکن آپ کی سڑک اس کا علاج نہیں کر سکی۔ وہ تو اسی وقت ہو سکتا تھا کہ سڑکوں کے ساتھ آپ نے ہسپتالوں کو بھی درخورِاعتنا سمجھا ہوتا۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ جس طرح یہ برادران ہر جگہ جا کے سڑک بنانے کا اعلان کرتے ہیں، کہیں سڑک اِن کی چھیڑ ہی نہ بن جائے۔
چند ماہ قبل وزیرِاعظم کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے کہ عوام کی حالتِ زار اور اپنی جوابدہی کے خوف سے آبدیدہ ہو گئے۔ عمران خان نے ان آنسوؤں کا مذاق اڑایا کہ عوام کیلیے آنسو بہتے تو گزشتہ آٹھ سال بھی بہتے، یہ تو پانامہ میں پکڑے جانے کے آنسو تھے۔ سراج الحق نے بھی طنز کا نشتر چلایا کہ وزیرِاعظم کو غریبوں کی غربت پر نہیں اپنے انجام کو دیکھ کے رونا آیا۔
فرضی آنسو چھلکانا پڑ جائیں، یہ اعمال نہ کر
پہلے ہی جذبات نہیں ہیں خود کو اور کنگال نہ کر
وزیرِاعظم اور خادمِ اعلیٰ سے عرض ہے کہ اگر وہ قوم کا درد رکھتے ہیں تو اپنی ترجیحات کا جائزہ لیں۔ آپ سڑک بناتے ہیں، بہت اچھا کرتے ہیں لیکن خدارا ہسپتالوں اور سکولوں پر بھی توجہ دیجیے ورنہ زہرہ بیبیاں اسی طرح مرتی رہیں گی اور آپ کے آنسوؤں کا مذاق اڑتا رہے گا، اور اب اگر کسی نے آپ کو گھر بھیجا تو کسی وہم میں نہ رہیں کہ ترکی کی طرح عوام آپ کے حق میں باہر آ کے ٹینکوں کے سامنے لیٹیں گے۔ آپ ڈٹ جانے کے عزم کا بہت اظہار کرتے ہیں لیکن آپ کا ٹریک ریکارڈ قابلِ بھروسہ نہیں ہےکہاں تو کہہ رہے تھے کہ مجھ کو پھانسی پر چڑھا دینا،مگر جب وقت آیا تو لٹکنے بھی نہیں آئے۔۔۔
لٹکنے کہاں سے آتے، آپ تو جدے بھاگ جاتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply