ظالم نہ بنیں۔۔مرزا مدثر نواز

حجاج بن یوسف کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا‘ وہ لوگوں سے یہ توقع رکھتا تھا کہ سبھی اس کا ادب کریں اور اس کے حضور غلاموں کی طرح کھڑے رہیں۔ ایک شخص اس قسم کے آداب کا قائل نہ تھا اور معبود برحق کے حضور ہی اس طرح حاضری کو درست سمجھتا تھا۔ وہ جب حجاج سے ملا تو اس نے عام لوگوں سے ہٹ کر رویہ ظاہر کیا۔ حجاج غصے سے باہر ہو گیا تھا اس نے کوتوال شہر کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو قتل کر دو اور اس کی کھال اتار لو تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ وہ مرد بزرگ یہ سن کر پہلے تو ہنسا اور پھر رو دیا۔ حجاج نے حیران ہو کر پوچھا ”تو بیک وقت ہنسا اور رویا کیوں تھا؟“۔ اس بزرگ نے جواب دیا‘ اے حجاج بن یوسف! رونا تو مجھے زمانے کی بے دردی پر آیا کہ میرے چار بچے ہیں جن کا میں واحد سہارا ہوں اور ہنسی اس بات پر آئی ہے کہ میں جب اپنے رب کے حضور پہنچوں گا تو میرے کندھوں پر ظلم کا بوجھ نہیں ہو گا بلکہ میری حیثیت مظلوم کی ہو گی اور تجھے یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ مظلوم روز محشر اللہ کی رحمتوں سے نوازے جائیں گے‘ یہی بات میرے ہنسنے کا سبب بنی ہے۔ حجاج بن یوسف اس مرد بزرگ کی یہ بات سن رہا تھا کہ اس کے مصاحبین میں سے ایک بولا ”اے امیر! میری التجا ہے کہ اس بزرگ کی جاں بخشی فرما دیں اور اسے قتل نہ کروائیں۔ اسے آپ نے مروا ڈالا تو یہ تنہا قتل نہ ہو گا اس کے ساتھ اس کے بال بچے بھی ہلاک ہو جائیں گے“۔ حجاج کسی بات سے متاثر نہ ہوا اور اس نے اپنا فیصلہ قائم رکھا۔ اس مرد بزرگ کو کوتوال نے تلوار کے ایک ہی وار سے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا۔ جس شخص نے مرد بزرگ کی سفارش کی تھی‘ اس نے اسی رات اس بزرگ کو خواب میں دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ حجاج نے جو ظلم مجھ پر کیا اس کی تکلیف تو محض چند لمحات کی تھی مگر حجاج نہیں جانتا کہ وہ عیش ہی کیسی جو ہلاکت کا سبب  نہ بن جائے اور وہ مصیبت اچھی جس کا انجام راحت ہو۔

کہا جاتا ہے کہ دریائے دجلہ میں ایک مردے کی کھوپڑی پانی پر تیرتی آ رہی تھی وہ ایک عابد و زاہد شخص کے پاس آ کر رک گئی۔ اسے اللہ کا حکم ہوا کہ وہ اس عابد سے بات کر سکتی ہے۔ کھوپڑی بولی”اے۔۔۔۔ میں بھی کسی زمانے میں بڑا طاقتور بادشاہ تھا۔ میں نے عراق پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا‘ میرا خزانہ بھر اہوا تھا۔ پھر میں نے ریاست کرمان کو فتح کرنے کے بارے میں سوچا مگر اچانک موت نے آ لیا اور فتح و نصرت کی یہ حسرت دل میں لیے میں قبر میں چلا گیا۔ اب میں محض یہ کھوپڑی ہوں مگر پھر بھی تمہیں ایک نصیحت کر سکتا ہوں‘ ذرا غور سے میری نصیحت کو سننا‘ ہو سکتا ہے یہ تمہارے کام آ جائے۔ وہ شخص جو خلق خدا کو تکلیف پہنچاتا ہے خود بھی تکلیف میں رہتا ہے۔ وہ بچھو جو دوسروں کو ڈنگ مارتا ہے صحیح سلامت اپنے گھر تک کبھی نہیں پہنچتا۔ انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کے کام آئے اور اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر پتھر اور ایسے انسان میں کیا فرق رہ جاتا ہے بلکہ یہ مثال بھی درست نہیں لگتی کیونکہ پتھر بھی کسی نہ کسی کام آ جاتا ہے۔ جو انسان کسی کو کوئی فائدہ نہ دے سکے اسے شرم سے مر جانا چاہیے۔ برے آدمی کے مقابلے میں درندہ بہتر ہے۔ اگر انسان دوسروں کے کام آنے کے بجائے انہیں چیر پھاڑ کر کھانے پر آمادہ ہو جائے ان کی دولت پر نظر رکھے تو وہ درندوں سے بد تر ہو گا۔ بدکار کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ ظالم پر جب مشکل وقت آتا ہے تو کوئی اس کی مشکل کشائی کے لیے آگے نہیں آتا۔ ایک پہلوان کسی کنویں میں گر گیا تھا‘ اس نے بڑی فریاد کی مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس کے ظلم اور زیادتیوں کا شکار ہو چکے تھے انہوں نے جب دیکھا تو اسے انتقام میں آ کر خوب پتھر مارے۔ وہ سب اسے پتھر بھی مارتے جاتے تھے اور یہ طعنہ بھی دیتے جاتے تھے کہ جب تم طاقتور تھے تو تم نے کسی کی فریاد نہ سنی اور ظلم کی انتہا کر دی‘ آج تم بے بس ہو تو دوسروں سے یہ توقع کیوں رکھتے ہو کہ وہ تمہاری فریاد پر کان دھریں گے۔(حکایتِ سعدیؒ)

Advertisements
julia rana solicitors london

احادیث میں متعدد مقامات پر ظلم سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو‘ خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ صحابہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اگر وہ مظلوم ہو تو اس کی مدد کی جاسکتی ہے مگر ظالم کی مدد کیونکر کی جائے‘ فرمایا: اس کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکا جائے۔آپ نے ایک دفعہ یہ حدیث قدسی بڑے مؤثر انداز میں سنائی‘ فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے اپنے لئے اور تمہارے لئے آپس میں ظلم کو حرام کیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا‘ ظلم سے بچو کہ ظلم قیامت کے دن ظلمات بن جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘ چاہے کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اس کو بے مددگار چھوڑ دے۔ براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ہم کو سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے روکا ہے‘ ان میں ایک یہ ہے کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔ حضرت معاذؓ کو امیر بنا کر جب آپﷺ نے یمن بھیجا تو ان کو نصیحت فرمائی کہ مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے بیچ میں کوئی پردہ نہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کی آبرو یا کسی چیز پر ظلم کیا تو اس کو چاہیے کہ آج ہی اس سے پاک ہو لے‘ اس دن سے پہلے کہ اس کے پاس دینے کو نہ دینار ہو گا نہ درہم‘ ظلم کے بدلہ ظلم کے برابر مظلوم کو ظالم کی نیکیاں دلوائی جائیں گی اور نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی بدیاں ظالم پر لاد دی جائیں گی۔ فرمایا کہ ظالم کو اللہ مہلت دیتا ہے پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں۔ فرمایا اہل ایمان جب دوزخ سے پاک ہو چکیں گے تو جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل کے پاس روکے جائیں گے‘ وہاں دنیا میں ایک نے دوسرے پر ظلم کئے تھے‘ ان کا بدلہ ایک دوسرے کو دلایا جائے گا‘ جب اس سے بھی پاک ہو جائیں گے تب ان کو بہشت میں جانے کی اجازت ملے گی۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply