جنسی زیادتی (Rape) کی سزا۔۔منصور ندیم

 

یہ انڈونیشیا کے ملک کی حالیہ تصاویر ہیں، اس میں ایک تصویر میں ایک شخص کو جسے کوڑے مارے جارہے ہیں ، اس کا نام رونی ہے ۔ اس شخص پر بچے کے ساتھ ریپ کرنے کا مقدمہ چلایا گیا تھا، اس نے ایک معصوم بچے کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کیا تھا۔ بچے نے یہ واقعہ جب رپورٹ کیا تو مقامی پولیس نے انتہائی محدود وقت میں اسے گرفتار لیا، اس کی گرفتاری کے لیے ملزم کے گھر والوں کو تھانے میں نہیں لایا گیا تھا، نہ ہی اس کے لیے سوشل میڈیا پر کمپین چلانی پڑی، نہ ہی اس کی گرفتاری کے لیے کسی قسم کے انعام کا اعلان کیا گیا، اور نہ ہی اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کو سیاسی ہنگامہ بنایا۔

نہ ہی مقامی پولیس نے ریپ ہونے والے بچے کے والدین کو کسی قسم کا الزام دیا، نہ ہی بچے کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ ایسے ویسے وقت میں باہر کیوں نکلا، اس نے اسکن ٹائٹ کپڑے تو نہیں پہنے ہوئے تھے، پولیس نے صرف اور صرف مجرم کو پکڑا اور وہ بھی جلد از جلد محدود وقت کے اندر، پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے حراستی دورانئے میں ہی اپنی کارروائی مکمل کی، عدالتوں سے کسی قسم کے ریمانڈ کی درخواست نہیں کی، وہ تمام بنیادی اور سائنٹیفک سورسز استعمال کرکے مکمل ثبوت اکٹھے کئے اور عدالت میں پیش کردئیے، اس پر مقدمہ چلا، مقدمے میں کوئی جعلی گواہ نہیں آئے، مقدمہ کی پراسیکیوشن اتنی اعلی تھی کہ مجرم نے اپنا جرم قبول کر لیا۔

عدالت نے رونی کو بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں 175 کوڑوں کی سزا دی گئی، چونکہ مقدمے کا فیصلہ اور تمام پروسیکیوشن میں چھ ماہ لگ چکے تھے، یعنی اس وقت تک اس کی حیثیت ملزم کی تھی، جرم ثابت ہونے کے بعد چھ ماہ کی سزا کے بدلے چھ کوڑے کم کر دیے گئے، یعنی چھ ماہ کی سزائے قید کے بعد اب 169 کوڑوں کی سزا رہ گئی۔

پچھلے ہفتے اس مجرم کو کوڑوں کی سزا کے لئے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں پر عوامی مجمع بھی آیا، اسے کوڑے مارنے شروع کیے گئے، ابھی کوڑوں کی تعداد 52 تک ہی پہنچی تھی کہ رونی (مجرم) بے ہوش ہوگیا ، موقع پر موجود طبی عملے کے ڈاکٹر نے سزا کے لیے تعین کردہ افراد سے کہا کہ اگر اب مزید کوڑے بے ہوشی کی حالت میں بھی مارے گئے تو اس کی کمر کی خون کی شریانیں پھٹ جائیں گی، اسے ہسپتال لے جایا گیا۔

 

ہسپتال پہنچ کر یہ ہوش میں آگیا، لیکن طبیعت بحال ہونے پر اسے دوبارہ سزا کے لیے لایا جایا جائے گا، اسے دوبارہ کوڑے لگائے جائیں گے، لیکن کوڑوں کی تعداد دوبارہ صفر سے شروع کی جائیگی، یعنی ایک ہی نشست میں اس کو 169 کوڑے لگیں گے، اگر اس میں تعطل آئے گا تو دوبارہ سے گنتی شروع ہوگی، ڈاکٹرز کے مطابق 169 کوڑے کھا کر زندہ رہنا ممکن نہیں ہے ، بالفرض اگر کبھی یہ ایک ہی وقت میں 169 کوڑے برداشت کر بھی لیتا ہے تب بھی کیا اس کی سزا ختم ہو جائے گی؟

 

اس کے بعد کیا اسے آزاد کردیا جائے گا؟

یعنی اسے معافی مل جائے گی؟

نہیں _______ ہر گز نہیں

 

اس کے بعد اسے تاعمر قید کی سزا ہے، تا عمر قید کاٹنے کے بعد بھی یہ صرف ایک ہی صورت میں قید خانے سے باہر نکلے گا یعنی یہ مر کر ہی اپنے لواحقین کے پاس لاش کی صورت پہنچ سکتا ہے۔

اب یہ اس کی قسمت ہے کہ یہ کوڑے کھا کر مرے،،،،، یا تا عمر زندان میں سسک سسک کر اپنی موت مرے۔ اس کے جرم کا فیصلہ ہونے کے بعد اس کا چہرہ بھی نہیں چھپایا گیا، پورے زمانے کے سامنے اسے عیاں کردیا گیا تھا، کہ زمانہ اس سے عبرت حاصل کرے۔ مقامی میڈیا اور فوٹوگرافرز کو خصوصی کوریج کی اجازت دی گئی، تاکہ اس واقعے کو پوری سوسائٹی کے لئے ہیڈ لائنز بنایا جائے۔

 

کیا آپ کو پتہ ہے!

کہ انڈونیشیا میں ریپ کیسز کے کیا Statistics ہیں۔

سنہء 2009 میں ہر ایک لاکھ ابادی میں 1.1 فیصد ریپ کیسز تھے ، یعنی ایک لاکھ آبادی میں گیارہ ریپ کے واقعات سامنے آتے تھے، ریاست کی سنجیدگی، قانون کی عملداری، پولیس کی شفاف انویسٹیگیشن، عدلیہ کی شفاف پراسیکیوشن کے نتیجے میں سنہء 2015 تک ریپ کے واقعات ایک لاکھ کی آبادی میں 0.7 فیصد تک محدود ہوگئے ، یعنی ہر ایک لاکھ کی آبادی میں صرف 7 ریپ کے واقعات تک محدود ہوگئے۔

 

پاکستان میں جب بھی ریپ کی بات کی جائے تو جناب بات پہنچتی ہے عورت کے لباس پر ، اس کے گھر سے نکلنے پر، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان میں ریپ کے رجسٹرڈ ہونے والے کیسز میں بالغ خواتین کے ساتھ کتنا ریپ ہوتا ہے؟

 

پاکستان اپنی قدامت پرستی اور معاشرتی طور پر ایک ایسی شکل میں موجود ہے جہاں پر ریپ کے اصل واقعات میں سے شاید پچاس فیصد کیسز بھی رجسٹر نہیں ہوتے، اور رجسٹرڈ ہونے والے کیسز میں کم ازکم پچاسی فیصد سے 90 فیصدی کیسز نابالغ بچیوں اور بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

 

اب کسے نہیں پتہ کہ ان نابالغ بچیوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کہاں پر ہوتے ہیں، زیادہ تر نابالغ بچیوں اور بچوں کے ساتھ ریپ گھروں میں ان افراد کے ذریعے ہوتے ہیں جو ان کے قریبی رشتے دار، آس پڑوس، اساتذہ یا کسی نہ کسی طرح اس فیملی سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، یا پھر لیبر چائلڈ کو عموما اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور تیسرا اور سب سے زیادہ جو بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں وہ قاری حضرات سے مدرسے یا مساجد میں ہوتے ہیں۔

 

بجائے یہ کہ عوامل کی بنیاد پر جنسی زیادتی کی رسائی کے معاملات کو کم سے کم کیا جائے، لیکن جب بھی ان موضوعات پر بات کی جائے گی، ایک ایسا غلغلہ مچے گا،۔

 

کیا عورت کو اگر شدید ملفوف کر دیا جائے اور عورت کو پردے میں ڈال دیا جائے تو پھر یہ نابالغ بچے ریپ سے بچ جائیں گے؟

چلیں آپ کی بات مان لی جائے عورتوں کو پردے میں ڈال دیتے ہیں؟ لیکن ان نابالغ بچیوں اور بچوں کو کونسی جینز پہننے یا اسکن ٹائٹ کپڑوں کی سزا ملتی ہے؟ کیونکہ پاکستان میں ہونے والی جنسی زیادتی کے پچاسی سے نوے فیصد واقعات نابالغ بچے اور بچیوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

 

کیا کبھی ہم نے ان کے اصل عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی؟

کیا کبھی ہم نے نے پاکستان میں حقیقتا قانون کی عملداری پر بات کی ہے؟

کیا کبھی ہم نے ان واقعات کے لئے ان جامع حل کا ادراک کیا ہے، جو ریاستی اداروں ،ریاستی مشنری، آگاہی، اور عدلیہ سے جڑے ہیں؟

 

اس وقت پوری دنیا میں سزا کے لیے دو ماڈل موجود ہیں،

خلیجی ممالک جیسے سخت ترین سزاؤں کا ماڈل

اور یورپ کے کئی ممالک میں سزائے موت نہ ہونے کا ماڈل ۔

مگر ان دونوں ماڈلز کے ممالک میں جنسی زیادتی کے واقعات انتہائی کم ہیں ۔

 

خلیجی ممالک میں سعودی عرب جیسے ملک میں عورتیں برقع پہنتی ہیں، اس کے باوجود ریپ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں خواتین پر کسی قسم کے لباس کی کوئی خاص پابندی نہیں ہے، وہاں بھی ریپ کے کیسز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

میرا حقیقتا یہ گمان ہے کہ یقینا وطن عزیز میں ہر شخص ایسے واقعات سن کر اور دیکھ کر کر شدید غم و غصے میں چلا جاتا ہے، اور سخت ترین سزا کا مطالبہ کرتا ہے، آپ چاہے چوک میں لٹکائیں یا عمر قید دیں، مگر سزا کے نفاذ سے پہلے کے سارے عوامل کو جب تک درست نہیں کرتے, ایسے مطالبات کرنا آپ کی بیوقوفی ہی کہلا سکتی ہے۔ دانشمندی نہیں۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply