گیتوں بھری شام۔۔نعیم فاطمہ علوی

جی جی یہی کشش تو تھی! جو ہمیں اسلام آباد کی ہلکی ہلکی خنکی بھری سہانی شام کو گیتوں کے رنگ میں رنگنے کے لیئے۔۔۔گھر سے کئی کلو میٹر دور ائرپورٹ کی مضافاتی بستی کی ایک تقریب میں لے گئی ۔اس سوسائٹی کی آبادکاری ابھی آغوش مادر سے نکلنے کے لیئے کوشاں ہے۔
کشادہ سی جگہ پر شادی کا سا سماں تھا۔یہ تقریب اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان نے مستقبل کے مکینوں کے لیئے سجائی تھی اور اس کے منتظر “حسب معمول “ایک ادھیڑ عمر برگیڈیر صاحب تھے ۔ داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ اس تقریب میں لاکھوں روپے لگائے گئے ہیں۔انتظامات بہت شاندار تھے ۔گلوکاروں میں راحت فتح علی خاں کا نام نمایاں تھا۔
اس تقریب میں داخلے کا وقت سات بجے مقرر تھا۔۔ہم حسب عادت سات بجنے سے پہلے ہی پہنچ گئے۔ تو وہاں ہمیں پارکنگ میں بھی اچھی جگہ مل گئی اور بیٹھنے کے لیئے سیٹوں کا انتخاب بھی ہم نے خود کیا۔۔
– میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک بزرگ خاتون تشریف فرما تھیں جن کے ہاتھ میں تسبیح  تھی ان کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھےاور وہ انگلیوں کی مدد سے بڑی تیزی سے تسبیح کے دانے گھما رہی تھیں ۔وقت مقررہ پر پروگرام شروع ہونے کے کوئ آثار نظر نہ آئے تو میں نے بور ہو کر ساتھ بیٹھی خاتون سےگفتگو شروع کر دی۔۔
ابھی بات رسمی تعارف تک ہی پہنچی تھی۔ کہ لوگ جوق در جوق آنا شروع ہوگئے اور پنڈال بھرنے لگا۔اور پھرہمارے آگے والی سیٹ پر کچھ خواتین آکر برا جمان ہو گئیں۔۔
راحت فتح علی خان کی آواز کے سرور نے انتظار کی کیفیت کو ابھی بد مزہ  نہیں کیا تھا۔
– میری ساتھی خاتون تسبیح کے دانے گھماتی گھماتی مجھ سے گویا ہوئیں۔۔۔تم نے دیکھا اس لڑکی نے بغیر آستینوں کے قمیض پہنی ہوئی ہے میں نے اچٹتی سی نگاہ ڈال کر کہا ۔۔
ہونہہ۔۔
– میری ہونہہ سے اس کی تسلی نہ ہوئ ی۔تسبیح کے دانے گھماتی ہوئی کہنے لگیں ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو بے حیائی کو دعوت دیتی ہیں۔۔میں چپ رہی۔مگر اس کی زبان تو تسبیح کے دانوں سے بھی زیادہ تیز چلنے لگی۔
– اس نے پھر مجھے کہنی سے ٹہوکہ دے کر کہا۔اس لڑکی کو دیکھو اس نے نقلی پلکیں لگائی ہوئی ہیں
– اور وہ دیکھو کس ڈھیٹائی سے وہ خاتون سگریٹ پی رہی ہے۔
– ہائے ہائے اس لڑکی کو تو دیکھو کیسا چست لباس پہنا ہے سیدھی دوزخ میں جائے گی۔
– تسبیح مسلسل حرکت میں تھی اور رننگ کمنٹری بھی پورے زورو شور سے جاری تھی۔
– تقریباً ساڑھے آٹھ بج چکے توپروگرام کے ہوسٹ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایاکہ آج کی شام کے لیئے میں اس پروگرام میں آپ کا ہوسٹ ہوں۔۔اتنا اونچا میوزک تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمیں کانوں میں انگلیاں ٹھونسنی پڑیں۔ایک نامانوس سے گلو کار نے جو مائیک پکڑا اور گانا شروع کیا تو ہم نے سوچا چلو ایک آدھ گانا راحت فتح علی خاں کے لیئے برداشت کر لیتے ہیں۔۔دو ہزار کے مجمعے میں چار پانچ تالیوں کی گونج میں وہ گاتا رہا اور ہماری قوت سماعت دھاڑیں مار مار کر روتی رہی۔۔۔۔جوں توں کرکے یہ وقت گزرا تو دو میزبان نمودار ہوئے کافی دیر تک بے چارے بھونڈے انداز میں محفل کو تالیاں بجانے پر مجبور کرتے رہے۔۔کبھی بچوں کی بے سری تانوں پر خود ہی تالیاں بجا دیتے اور کبھی مجمعے سے گزارش کرتے کہ کسی کو گانا آتا ہے تو براہ کرم سٹیج پر آجائیں۔یوں لگ رہا تھا ماحول کو کسی گدھا گاڑی کے پیچھے باندھ کر کھینچا جا رہا ہے وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔کچھ ہی دیر بعد اعلان ہوا مصطفی بینڈ آپ کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا۔۔۔
اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔
‎کتنی ہی دیر کی خاموشی کے بعد میزبان پھر اسٹیج پر آئے اور کہا مصطفی بینڈ تیاری میں مصروف ہے لہٰذا آپ ہمارا گانا سنیئے۔۔مجبوراً راحت فتح علی خاں کے لیئے وہ گانا بھی برداشت کرنا پڑا اس کے بعد انہوں نے پھر اعلان کیا اب مصطفی بینڈ آپ کے سامنے گیت پیش کرے گا۔۔اور اسٹیج اندھیرے میں ڈوب گیا۔۔ہم صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے بہت بے چین ہو رہے تھے
– اتنی دیر میں  میری ساتھی خاتون نے مژدہ جانفزا سنایا ابھی فرنٹ والی سیٹ والے لوگ نہیں آئے اس لیئے ٹرخا رہے ہیں اس سیٹ پر یقیناً موٹے موٹے پیٹوں والے وزیر آکر بیٹھیں گے جن کی توندیں کھا کھا کر پھٹنے والی ہو رہی ہونگی ۔انہیں خدا کا خوف نہیں آخر ایک دن مرنا بھی ہے۔وہ “ٹاپ سٹی “ کا پچھلا سالانہ ڈنر اٹینڈ کر چکی تھی اور اپنے آپ کو کافی باخبر سمجھ رہی تھی۔
– میں اس سوسائٹی کی انتظامیہ سے کافی بے زار ہو چکی تھی اپنے میاں کو اس پروگرام کے لیئےزبردستی گھسیٹ کر لائی  تھی۔سو میں ان سے کافی شرمندہ بھی تھی۔
میں نے محترمہ کوبیزاری سےجواب دیا کیا دبلے لوگ نہیں مرتے؟
اس نے گھور کر مجھے دیکھا اور کہا مرنا تو خیر سب نے ہی ہے۔۔میں نے کہا تو بہتر نہیں کھا پی کر مرا جائے۔۔
ابھی تک توتسبیح کے دانے انگلیوں کے ساز پر محو رقص تھے اب بھنگڑہ ڈالنے لگے۔۔
میں نے اپنے میاں کی طرف دیکھا جو گردو پیش سے بے نیاز سکون سے اپنے موبائل کے ساتھ رازو نیاز میں مصروف تھے۔
میں نے کہا چلیئے گھرچلتے ہیں ۔کہنے لگے نہیں نہیں اب رات بھر بیٹھو مزے اڑاؤ تمہیں منع کیا تھا مت جاؤ۔۔تم نے میری بات نہیں مانی تھی نا!
میں نےمایوس ہو کر ساتھ والی خاتون کو دیکھا
کہنے لگی معلوم ہے راحت فتح علی خان کیوں نہیں آ رہا؟
میں نے کہا مجھے کیا معلوم۔۔
اس نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا اسٹیج کے پیچھے بیٹھا شراب پی رہا ہوگا۔۔یہ لوگ شراب پیئے بغیر گانا نہیں گا سکتے۔۔مجھے سخت بوریت میں بھی ہنسی آگئی  اور میں نے ہنستے ہوئے کہا آپ کو ایسی باتیں کون بتاتا ہے۔
میرے ہنسنے پر اس نے قہر آلود آنکھوں سے مجھے دیکھا ۔۔تو میں نے اپنے میاں کو پٹاتے ہوئے ایک دفعہ پھر یہاں سے اٹھنے کی درخواست کی میری درخواست کو باریابی نصیب ہوئی اور میں سوسائیٹی کے اس بے ہو دہ پروگرام سے رات ساڑھے دس بجے احتجاجی طور پر نکل آئی۔
راستہ اسی سوچ میں گزرا ٹاپ سٹی کی انتظامیہ کو ہزار ہا لوگوں کو فیملی کے ساتھ بلا کر اتنی بدانتظامی پر کیا کوئی پوچھنے والا نہیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہمارا وقت ضائع کیا بلکہ تفریح کی بجائے کوفت سے جھولیاں بھر بھر کر رخصت کیا۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply