داخلی شور کی سزا ۔۔حبیب شیخ

بھاری بوٹوں کی چاپ نے خیالوں میں مگن اکبر کو چونکا دیا۔ ’میں تو شور کو سُنا اَن سنا کر دیتا ہوں لیکن آج مجھے کیا ہو گیا! وہ تو پتا نہیں کب سے لیٹ کر چھت کو گھور رہا تھا جیسے پھانسی سے پہلے وہ اپنی زندگی کی پوری داستان پڑھ رہاتھا۔ پھر ایک آواز آئی اور اکبر اپنے نحیف جسم پر زور دے کر اٹھ بیٹھا۔
سلاخوں والے کمرے کے باہر ایک لمبا اور دبلا محافظ کھڑا تھا۔ ’اکبر سومرو، تمہیں اطلاع دی جا چکی ہے کہ پرسوں صبح پانچ بجے تمہاری پھانسی کا وقت ہے اور اُس سے پہلے تمہاری آخری خواہش کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چوڑے خد و خال کا حامل اکبر جو اب ہڈیؤں کا ڈھانچہ بنا ہؤا تھا کچھ دیر کے بعد بولا۔ ’تم مجھے ایک قلم اور کچھ کاغذ لا دو۔ میں پرسوں کوئی آخری خواہش نہیں بتاؤں گا۔
میں ابھی بھجوا دیتا ہوں۔پھر وہ جنگلے کے بالکل قریب آ کر بولا۔ ’تمہارے چہرے پہ اتنا سکون کیوں ہے؟‘
اکبر جواب میں صرف مسکرا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک چپڑاسی قلم اور سادے کاغذات جنگلے کے اندر ہاتھ ڈال کر رکھ کے چلا گیا۔
اکبر نے مضبوطی سے قلم کو پکڑ کر چوما اور لکھنا شروع کر دیا۔
اے دنیا والوں!
میں اپنے آخری پیغام کو عارفؔ عبدالمتین کے اس شعر کے ساتھ شروع کرتا ہوں ؎
میری عظمت کا نشاں ، میری تباہی کی دلیل
میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو
تم سب نے ، نہیں سب نہیں، تم میں سے زیادہ تر لوگوں نے مجھے حقیر جانا کیونکہ میں اونچی آواز سے بات نہیں کرتا تھا، اپنا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزار دیتا تھا، تمہاری طرح اشیاء جمع نہیں کرتا تھا۔ اسکول میں بھی بہت لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے شاید میں اور لڑکوں سے مختلف تھا۔
اے دنیا والوں! تم سب لوگ مل کر کتنا شور مچاتے تھے ۔ ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ وہ گلا پھاڑ کر دوسروں کو متاثر کر سکتا ہے۔ تم لوگ ہر وقت کھانے پینے، فلموں یا کھیلوں کے بارے میں تبصرے کرتے تھے اور مصنوعی قہقہے لگاتے تھے ۔ مجھ سے پوچھتے بلکہ مجھ سے مذاق کرتے تھے کہ میں اُن کے شور شرابے سے کیوں گھبراتا ہوں۔
جمعہ کے دن تم لوگ دھلے ہوئے کلف لگےکپڑوں کا اہتمام کرتے، رمضان کی راتیں تراویح اور شبینوں میں گزار دیتے اور اپنی عبادات کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرتے۔ مجھ پہ تم لوگ غیر مذہبی یا بہکے ہوئے مسلمان کا لیبل لگاتے۔ جب میں رمضان میں میں تزکیہِ نفس کرتا تو کھلے عام ذلیل کرنے کی کوشش کرتے یا کبھی آنکھوں ہی آنکھوں سے ایک دوسرے کو اشارے کر تے تھے۔ جب تم لوگ عمرہ کر کے لوٹتے تو ایسا لگتا کہ تم کسی تفریحی مقام سے واپس آئے ہو۔ کاروبار کرتے ہوئے تم گاہک کو خراب مال دے کر دھوکا دیتے ، اپنے ملازمین کی دن رات ہتک کرتے ، ہر سال کاغذی ہیرا پھیری کر کے ٹیکس دینے سے بچ جاتے۔ میں یہ منافقت دیکھتا رہا لیکن خاموش رہا۔
مجھ میں اور تم لوگوں میں فرق صرف اتنا ہی تھا کہ تم لوگوں کا ظاہر شور ہی شور تھا ، بے ہنگم آوازیں، گہرائی سے خالی۔ لیکن میرا باطن پُر شور اور پُر شعور تھا۔ مجھے تمہارے پاپ کلچر کی باز گشت کے بجائے یا منبر سے ہونے والی پرجوش تقریروں کے علاوہ کچھ اور آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ یہ آہیں اور چیخیں میرے جسم کے اندر پھنس کر رہ گئی تھیں اور میرے جسم کی اندرونی جلد سے ٹکرا تیں رہتیں اور باہر نہ نکل پاتیں۔ تم لوگوں کے شور کو تَو میں نظر انداز کر دیتا تھا لیکن اس داخلی شور نے آہستہ آہستہ میرا سکون لوٹ لیا یہاں تک کہ یہ آوازیں میرے خوابوں میں رچ بس گئیں۔ انہوں نے میرے اندر ایک طوفان برپا کر رکھا تھا اور آخر کار میں اِن کی پکار کے بوجھ تلے دب کر گھر سے نکل گیا۔ میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر چوراہوں پر کھڑے ہو کر اہلِ مسند پر الزامات لگانے شروع کر دئے بلکہ اُن کو متنبہ کیا تَو ہم کو پکڑ لیا گیا اور غدّاری کا الزام لگا دیا گیا۔
جب جج صاحب نے کہا۔ ’اچھا! آپ کو غیب سے آوازیں آتی ہیں یہ تو مجھے کوئی دماغی خلل ہی معلوم ہوتا ہے۔‘ تو میں محض مسکرا دیا۔ مجھے ان وکیلوں، ججوں اور سرکاری کارندوں سے کوئی بہتری کی توقع نہیں تھی۔ جج نے از راہِ مذاق پوچھا ۔ ’یہ کیا آوازیں ہیں؟‘ تو میری آواز اتنی اونچی ہو گئی کہ میں خود ہی گھبراگیا۔
’اس عورت کا بَین جس کی بیٹی ہسپتال سے باہر سڑک پر ہی علاج کے انتظار میں مر گئی تھی۔
اس بچے کی آواز جو بھوک سے تڑپ کر رو رہا تھا۔
اس مزدور کی آہ جسے فیکٹری میں کام کے  بوجہ  چوٹ لگنے پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
اس استاد کی پکار جس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر طلباء نے مار مار کر زخمی کر دیاتھا۔
اس طوائف کے گھونگرو کی چھم چھم جسے شادی کرنے کے بہانے چکلے پر بٹھا دیا گیاتھا۔
اس بچی کی سسکی  جو اسکول جانے کے بجائے لوگوں کے گھروں میں پوچا لگاتی تھی۔
ڈاکئے کی ٹوٹی ہوئی سائیکل کی ٹک ٹک، کلرک کے مسلسل کھانسنے کی آواز، تھانوں کی چہار دیواری سے پولیس کے تشدد کی وجہ سے ملزموں کی چیخیں۔
جج صاحب! ان آوازوں نے میرے اندر اتنا شور کیا کہ مجھے باہر سڑک پر نکلنا پڑا۔ آپ بتائیں کہ کیا میں نے ملک سے غداری کی ہے!‘
جج کچھ لمحے خاموش رہا پھر ایک دم ایسے بولا جیسا کہ بچے کو بھولا ہؤا سبق یاد آ گیا ہو۔ ’نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے بجائے تم اُن لوگوں کی مدد کر سکتے تھے تا کہ ان کا درد ختم نہیں تو کم ہی ہو جائے اور کیا تمہیں پتا ہے کہ ان نیک کاموں کی کتنی فضیلتیں ہیں۔‘
جج کی یہ بات سنتے ہی مجھے لگا کہ میرے اندر کا سارا شور لاوے کی طرح ابل کر باہر آ گیا۔ ’جج صاحب! آپ غربت اور ظلم کو اپنے ذاتی مفاداور ثواب کی خاطر ختم نہیں کرنا چاہتے۔ اور ہماری تحریک ہے آپ جیسے لوگوں کے خلاف۔ ‘ یہ سنتے ہی جج نے عدالت برخواست کر دی اور پھر چھ دنوں کے بعد پتا نہیں کون سی دفعات اور کون سی شقوں کے حوالے دے کر مجھے موت کی نا قابلِ اپیل سزا سنا دی۔
اب میرا اندرونی شور کافی تھم گیا ہے۔ آوازیں تَو اب بھی آتی ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ مسکراتے ہوئے چہرے بھی نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ انسان اور روحیں میرا شکر ادا کر رہی ہیں ۔ اب میرا وزن ہلکا ہو گیا ہے۔ شاید یہ داخلی شور اب کسی اور کے جسم میں چلا گیا ہے اور اس کے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ ان آوازوں کا ساتھ دے کر میری آخری خواہش پوری ہو چکی ہے۔
فقط اکبر سومرو
۔۔۔ اگلے دن ۔۔۔
اکبر اپنے جنگلے میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ ’بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے، ابھی تو پھندا لگنے میں پورے پانچ گھنٹے باقی ہیں!‘
تین لوگ جنگلے کے باہر آ کر رک گئے اور جیل کا با وردی افسر مخاطب ہؤا۔ ’اکبر سومرو، تم نے جو کچھ کل لکھا تھا میں نے اسے ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے غور و غوص کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ تمہاری دماغی حالت صحیح نہیں ہے کیونکہ تمہیں آوازیں آتی ہیں اور چہرے بھی دکھتے ہیں ۔ اب گورنر کے حکم کے مطابق تمہیں آج صبح پھانسی کے بجائے دماغی اسپتال میں علاج کے لئے منتقل کر دیا جائے گا۔‘
اکبر آنکھیں پھاڑے افسر کو دیکھتا رہا اور پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ ’ جناب، یہ آوازیں کسی کو بھی آسکتی ہیں جس کا ضمیر زندہ ہو۔‘
افسر نے ہلکا سا قہقہہ لگا کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ ’اس کا تو واقعی علاج کروانا پڑے گا۔‘
یہ سن کر اکبر کے ذہن کو شدید دھچکا لگا اور وہ چیخ پڑا۔ ’مجھے پھانسی دے دیں لیکن پاگل خانے نہیں بھجوائیں۔ مجھے پھانسی دے دیں لیکن پاگل خانے نہیں بھجوائیں۔ نہیں، نہیں۔‘ اس کا سر شدّت سے چکرانے لگ گیا اور وہ دھڑام سے سیمنٹ کے فرش پہ گر گیا۔
اگلی صبح اکبر کو یہ ہی نہیں پتا چل رہا تھا کہ آیا اسے پھانسی ہو چکی ہے یا وہ دماغی ہسپتال میں لیٹا ہؤا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply