تصویرِ بتاں۔۔دعا عظیمی

ان کی باتوں میں اک خوئے دلنوازی تھی۔ادائۓدلبری تھی۔

پریم کی دھارا , توجہ کی رم جھم تھی۔
بات کرتے سمے اپنے پن کے ہزاروں عکس ٹوٹتے اور بنتے تھے۔ محبوب کی چھپر چھاؤں میں بیٹھنا کتنا حسیں عمل اور اچھوتا نرمل کومل سا احساس ہے جسےلفظوں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوا کرتا ہے, جیسے دریا کی روانی، لہر کی جولانی ، موج کی مستی کو فقط محسوس کیا جا سکتا ہے چھوا نہیں جا سکتا . محسوس ہوتا کہ دل کے دریا پہ چاند کی کرنوں کا عکس طلسماتی سا ہے فضا میں لطف کے بادل نے پرندے کی طرح پر پھیلائے۔ بہت سے ادھورے دائروں میں ایک دائرہ تکمیل کی حدوں کو چھونے جارہا تھا۔۔۔ خدا کی قدرت تھی ،حسن اتفاق ،کرشمہ یا غیر معمولی واقعہ۔۔۔۔جنگل میں رقص طاؤس تھا یا پانیوں میں گلوں کی مہک کی آمیزش۔۔۔گلابی کنول کے جھرمٹ سے جھیل بھری پڑی تھی.

اس نے کہا,
“دیکھیں میرے خوابوں کا منظر مکمل ہے,کہیں کوئئ تشنگی نہیں ,ساری قوسیں سارے دائرے پورے ہیں ۔”
“یہاں دھنک کےساتوں رنگ اور چاروں موسموں کی جولانی ہے.”
” بارہ مہینے پھول کھلے رہتے ہیں”
“میرا محبوب بھی میرے ساتھ ہے”توقف کیا پھر بولی” یہ اور بات کہ اس کی آنکھوں میں روشنی نہیں اور اس کا دل دھڑکتا نہیں اس کے ہاتھ ساکت ہیں.”
اتنا بتا کہ وہ چپ ہوگئ.
انہوں نے پوچھا,” کیا آپ کا محبوب لکیروں سے بنا ہوا خاکہ ہے یا کوئی تصویر؟” وہ جھینپ گئ!
وہ بولی تو فضا میں مترنم گھنٹیاں بجیں.
” آپ کو کیسے خبر ۔۔؟ ”
“آپ تو غیب کا حال جان لیتے ہیں”۔ یہ دیکھیں اس نے کینوس سے پردہ ہٹایا تو ایک وجیہہ مرد کی تصویر مسکراتی ہوئئ نظر آئئ.
“کیا آپ یہاں اکیلے رہتی ہیں ؟”
“نہیں میرے ساتھ میرے بچے بھی رہتے ہیں ”
” اچھا” انہوں نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے الف کو کھینچا .
پھر اس نے آواز دی
” بیلا کم آن ”

ایک السیشن نسل کی کالی کتیا بھاگ کے مالکن کے پاؤں کے قریب آگئ ۔ پھر ڈولی کو بلایا تو ڈولی اپنی دم ہلاتی قریب آکر لوٹ پوٹ ہونے لگی.
یہ دیکھیں یہ ہیں میرے بچے۔ اس نے محبت بھری آنکھوں سے انہیں دیکھا. وہ تینوں لاڈ کرنے لگے۔

انگور کی بیلوں سے لدے ہوئے گھر میں اداسی نہیں تھی .گیراج کی چھت بانس سے بنی تھی ,جہاں اس کی چھوٹی سی گاڑی کھڑی تھی۔
کھلےصحن میں اڑتے آزاد پرندوں کا راج تھا، ہری دم والے پنچھی جن کی دم کے ساتھ پیسے کی طرح کچھ نقش باریک سے پروں میں پرویا ہوا تھا.طوطے کبھی ایک ٹہنی پہ کبھی دوسری پہ چہک رہے تھے. مینا آنکھیں موندے مست کک کو کا ورد کر رہی تھی، غٹر غوں کرتے کبوتر الگ مستیاں کر رہے تھے ان کے نازک سے پنجوں میں باریک سے موتی لٹکتے چھلے تھے.
سفید سے پتلی ٹانگوں والے آبی پرندے فضا میں نئی رتوں کی مہک کو اپنے من میں اتارتے معلوم ہو رہے تھے۔انار کی البیلی شاخوں سے لٹکے رنگ برنگے برتن جو پرندوں کی خاطر لٹکائے گئے تھے کہ وہ وہاں سے دانہ پانی لے لیں اور ضیافت کا مزہ اڑائیں بڑے مزے سے سارا اہتمام کیا گیا تھا.
تیسری طرف شفاف پانی کا فوارہ موتیوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔ سب کچھ خوابی تھا۔
ایسے حسین مناظر تو فوٹوگرافر کی جان تھے۔ خیر وہ تو حسن کے عاشق تھے۔ کبھی کبھار راہ جاتے مناظر جن میں دیکھنے والے کو اک زرا سی کشش معلوم نہ ہوتی انہیں اپنی آنکھ سے دیکھتے اور اس انداز سے تصویر اتارتے کہ منظر بول اٹھتا دراصل منظر جب نظر نواز کی نظر میں ہو تو کیونکر نہ بولے تان سین کے راگ سے ملہار اتر سکتی تھی اور برکھا میں اگنی بھڑک سکتی تھی تو باقی فنکار بھی تو جادو کر سکتے تھے۔
بس ایسا ہی جادو تھا ان کی ذات میں بات میں اور فن میں ,بن میں گھوم کے جنگل بیلوں کے مناظر کو قید کرنا ان کی عادت تھی اور عادت بھی کیا زندگی تھی۔
اجنبی خاتون کے بالائی گھر کے مناظر کی تصاویر بناتے اس سے دو ایک بار سلام دعا ہوئئ تو آج اس نے چائے پہ بلا لیا۔
موسم خزاں کے سارے رنگ ان کے کیمرے میں قید تھے پر اس گھر کی اداسی اور ترنگ دو متضاد کیفیات کو ایک ساتھ سمجھنا ان کے لئے آسان نہ تھا۔
” کل واپسی ہے”
“یہ ٹریپ بس دس دنوں کا تھا” اس کی آنکھوں میں اداسی کا عکس اترا جسے اس نے کمال ہوشیاری سے ہنسی میں اڑا دیا۔ “اب کب دوبارہ چکر لگے”؟ گا۔ اس نے نارمل ہوتے ہوئے پوچھا۔ “دیکھیں ! اب اس طرف کب چکر لگے”؟
کچھ کہہ نہیں سکتا ایسے معلوم ہوتا تھا دو چار ملاقاتوں میں وہ کسی اپنے پن کے رشتے میں باندھے جا چکے تھے۔ وہ پوچھنا چاہتے تھے کہ جس محبوب کا زکر وہ کرتی ہیں وہ کون ہیں کیا ان کے شوہر یا منگیتر یا دوست مگر پھر سوچا وہ کوئئ بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے …
“آپ کب سے یہاں ہیں ”
“یہ گھر میرے مرحوم شوہر کا ہے ۔ ” “جب میرا بیاہ ہوا میں تب سے یہیں ہوں “۔ کمرے میں اداسی کا بوجھل پن توڑنے کی خاطر وہ گویا ہوئے
“اوہ ان کا انتقال کب ہوا۔”
” بارہ سال ہوگئے ”

بارہ طویل سال….. ایک سایہ لہرایا اور غائب ہو گیا. خاتون کو اپنے احساسات چھپانے کا سلیقہ تھا. وہ اس وقت کو اداسی کی نذر نہیں کرنا چاہتی تھی.
یہ انمول لمحے تھے جن کا اسے برسوں سے انتظار رہتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

“کیا آپ کی اولاد نہیں ہوئئ”. گو یہ ذاتی سوال تھا مگر انہوں نے پوچھ لیا
دراصل میرے بچے نہیں ہو سکتے تھے شادی کے شروع میں ہی میرے مسائل تھے۔ مجھے اپنی بچے دانی سے محروم ہونا پڑا
اوہ سوری
جی
چائے کے لوازمات سے بھری ٹرے لیے ملازمہ آئئ ۔
سفید بالوں والی برف چہرے کے ساتھ ملازمہ گرما گرم چائے لے آئی ۔جس کی مہک سے پورا کمرہ تروتازہ ہو گیا
۔ “صاحب کی تصویر اچھی طرح صاف کر کے کپڑا ڈال دینا اس کمرے کی صفائ بھی کر دینا آج رات میں وہیں رکوں گی۔ “ملازمہ نے گہری نظروں سے انہیں دیکھا وہ سمجھ گئ تھی کہ آج اس تصویر کو ہٹانے کا حکم ہے
جی۔ مختصر جواب دے کے وہ وہاں سے چلی گئ
“آپ جاتے ہوئے اپنی ایک تصویر دے جائیں گے نا ”
کیوں نہیں
انہوں نے سوچا میری تصویر کا کیا کریں گی۔
اگلے دن جب خدا حافظ کہہ کے جانے لگے تو خاتون چند ثانیے کے لیے کمرے سے باہر گئیں .
ان کی نگاہ کونے میں رکھے کینوس پہ پڑی بے خیالی میں اس کے قریب گئے اور اس پہ پڑا پردہ اٹھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ خاتون کے محبوب شخص کی تصویر کی بجائےان کی تصویرکی پینٹنگ پردے کے پیچھے مسکرا رہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”تصویرِ بتاں۔۔دعا عظیمی

Leave a Reply to Shahida Majeed Cancel reply