سفر بالجبر (حصہ اوّل) ۔۔۔ محمد اشتیاق

حوادث زمانہ کا نتیجہ ہے کہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرنے پہ لگتا ہی نہیں کہ سر کے بالوں میں ہیں انگلیاں۔ ایسے میں اگر آپ کا ہاتھ اپنے سر پہ ہو اور بیس سال بعد آپ کوریشمی بالوں کے گھنے گچھے محسوس ہوں تو خطرے کی گھنٹی بالکل ویسے ہی بجتی ہے جیسے یکایک آپ کو دو کی بجائے چار “ہاتھ” نظر آنے پہ بجتی ہے، اپنا یقین ہے کہ سپرمین نہیں ہوں اس لئے چار ہاتھ ہو ہی نہیں سکتے ۔ یکدم اپنی انگڑائی نما “اکڑ” ختم کر کے مڑ کے دیکھا تو ایک محترمہ جو میرے سے پچھلی سیٹ پہ بیٹھی ٹوٹیاں کانوں میں لگائے گانے سننے میں مشغول تھیں ۔ ان کی “پونی ” محترمہ ان کے سر سے تین چار انچ پیچھے بادبان کی طرح جھول رہی تھی ۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے شرافت کے دائرے میں داخل ہونا مناسب سمجھا اور اپنی اکڑ ختم کر کے افضل صاحب کو مختصر بتایا ۔

” سر فلائٹ کا انتظار ہے، میں اسوقت لاونج میں بیٹھا ہوں ۔ اور اب آپ کی باتیں مجھے بہت بری لگ رہی ہیں، باقی باتیں کراچی آکر ہوں گی ”

انہوں نے کمال شفقت سے میری بدزبانی کو اگنور کرتے ہوئے کہا ۔ ” تمہارے ساتھ بات کرنے کو دل بھی نہیں کرتا لیکن صرف یہ کہنا تھا کہ فلائٹ پہ ‘منڈ’ کے کھانے کی ضرورت نہیں ۔ کھانا گھر پہ کھائیں گے ”

” او کے، وہاں پہنچ کے کال کروں گا “، لطیف محسوسات کے بعد چشم تصور میں بھی افضل صاحب کے کھردرے چہرے کو لاتے ہوئے بات کو طوالت دینا مناسب نہیں لگ رہا تھا ۔ لیکن ایک دم سے خیال آیا کہ میں اگلے چند دن کے لئے ان کے رحم و کرم پہ ہوں ۔ ایسی بے رخی اپنے مستقبل کے ئے کوئی خاص فائدہ مند نہیں ۔

فورا سے اپنے لہجے میں جتنی نرمی افضل صاحب کے لئے پیدا ہو سکتی ہے، مجتمع کر کے کہا ” سر پلیز فون آن رکھیے گا، مجھے تو کراچی کی گ، م، ن کا بھی نہیں پتہ ”

اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، فورا گویا ہوئے، ” ارے ٹینشن ہی نہ لو، انشا اللہ بند ہی ہو گا”
ایسے حوصلہ افزاء الفاظ سے ایک مسافر کے اعتماد کو چار چاند لگنا قدرتی امر ہے ۔ خیر اپنا اعتماد تو جہاز کے سفرکا سنتے ہی جہاز کی بلندی سے کہیں زیادہ بلند ہو جاتا ہے ۔ پتہ نہیں کیوں ایسے لگتا ہے کہ جانا تو ہر کسی نے ہے ہی اللہ کے پاس۔ لیکن بلاوجہ آسمان کے اتنے قریب جا کہ فرشتوں کی آمدورفت کا خرچہ بچانا اپنے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کیا پتہ کسی کے ذہن میں ( اگر فرشتوں کے ذہن ہوتے ہیں تو، ) آ جائے کہ آدھا سفر تو طے کر چکا ہے، اوپر ہی بلا لو۔

ویسے اور کوئی خاص خوف نہیں، میرے بس میں ہوتا تو میں پیدل چلا جاتا کراچی جہاز کی بجائے لیکن اب صدیقی صاحب نے اتنی محبت سے اپنی مفتیانہ جیب سے میرے جیسے غیرفائدہ مندانسان کے لئے ایک ائیر ٹکٹ کا بندوبست کیا ہوتوبندہ سوچتا ہے کہ خوف اپنی جگہ، وہ بے چارہ اتنی محبت اور چاہت کا مظاہرہ کر رہا ہے تو کم از کم اپنی بساط کے مطابق اس کا “نقصان” تو کیا جائے ۔ اب اس دنیا میں آئے ہیں تو ہم ہی ایک دوسرے کا نقصان کریں گے نہ کوئی دوسرے سیارے سے آ کے تو ہمارے ساتھ ایسا کرنے سے رہا ۔ اگر نہ جائیں تو اس کے دو چار پیسے بچ جائیں گے اور کسی اچھے کام پہ لگیں گے ، اور میں ساری زندگی اپنے ضمیر کو ملامت کرتا رہوں ۔ بس اسی جذبے کے تحت حامی بھر لی کہ جان جاتی ہے تو جائے، دوستوں کی بچت نہیں ہونی چاہیے ۔

لاونج میں بیٹھے بیٹھے ایک تصویر بنائی، صدیقی صاحب کو واٹس ایپ کی، اور اس خواہش کا، اس وقت کی حالت کے مطابق آخری خواہش کا اظہار کیا کہ اگر یہ سفر مکمل نہ ہو سکا اور میں اپنی سیٹ پہ ہی کراچی کے کسی گھر کی چھت پہ لینڈ کر جاوں تو یہ تصویر سنبھال لو، نوحہ لکھو گے تو کام آئے گی ۔ صدیقی صاحب کی اس خوبی کے تو سب معترف ہیں کہ بھلے اچھی بات اچھے طریقے سے نہییں لکھ پاتے مگر ہر منفی بات کمال طریقے سے لکھتے ہیں ۔ اور اپنے نوحے میں مثبت بات کہاں سے آنی ہے، ۔ اپنے “امر” ہونے کی چاہت میں جو تصویر بھیجی تھی ۔ انہوں نے اپنی خباثت کے عین مطابق، جس کی مجھے بھی امید نہیں تھی، سکرین شاٹ لے کے فیس بک پہ لگا دی ۔ ایک دفعہ تو جسم پہ جہاں جہاں بال تھے “براون” ہو گئے، لیکن ضبط کا مظاہرہ کیا کہ اگلے چند دن میں ایسی کئی محبتوں کا اظہار ہونا تھا ۔ اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک “کھلے” کی تصویر بنا کے کر دیا۔ ( “کھلا” پورا پنجہ کھول کہ متوفی کی طرف کیا جاتا ہے جس کا ہومیوپیتھک ترین الفاط میں مطلب “لعنت” ہوتا ہے، یہ وضاحت صاحب علم لوگوں کی سہولت کے لئے ہے جن کا پالااس طرح کی جہل سے کافی پڑنے والا ہے،)

صدیقی صاحب کی پوسٹ کا بالکل مائنڈ نہیں کرتا میں۔ مائنڈ کرنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ ماشااللہ وہ گریڈ 14 کے دانشور ہو چکے ہیں ۔ مکالمہ کی ایڈیٹری ویسے ہی وی آئی پی پروٹوکول کا استحقاق دلا دیتی ہے، اتنے فالوورز ہوں تو لامحالہ طور پہ وہ مروتا کمنٹ تو کریں گے اور “متفق، شدید متفق” والے تو برداشت بھی ہو جائیں گے لیکن انڈر ٹریننگ بدگو، اور میراثی جو کمنٹ کریں گے اس سے چنگے بھلے میرے جیسے معزز بندے کی لگ جاتی ہے ۔ قسم قسم کے زریں خیالات رکھنے والی شخصیات کا نزول ہوتا ہے، ان کی توسط اور مہربانی سے کئی ایسے شفیق “عاشق” ہیں جو اپنے ہفتے بھر کی محنت سے جوڑی گئی “واحد” جگت بھی میرے اوپر ضائع کر دیتے ہیں ۔ ایسا ضیاع میرے لئے ایک تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے ۔ قوم کی اس فضول خرچی کو ذہن میں لاتے ہوئے “کھلا” عین کفائت شعاری تھا۔

سفری حالات اور واقعات سنانے سے پہلے اپنے ہمسفروں کی شخصیت اور سوانح عمری، مختصرا بیان کرنا ضروری ہے۔ افضل صاحب تو کسی تعارف کےمحتاج نہیں ۔ مکالمہ پڑھنے والے ان سے واقف ہوں گے ۔ صدیقی صاحب کے بارے تھوڑا بتانا مناسب ہوگا ۔ صدیقی صاحب، معاذ بن محمود صدیقی، ایک اردو سپیکنگ اور مفتی (مفتی فتوٰی والا) فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، تعلق آئی ٹی کے شعبے سے، روزگار ان کا دوبئی میں، پاکستانی سے آسٹریلین ہونے کے قریب قریب ہیں ۔ اس سلسلے میں رکی پونٹنگ بننے کی کوششٰیں کر رہے ہیں ۔ ایک آدھ ناکام کوشش کا میں عینی شاہد ہوں ۔ اور لکھاری کمال کے ہیں یہ نہ تو پروفیشن ہے، نہ شوق ۔ بلکہ یہ کھرک ہے، فرسٹریشن ہے، عمر کے ساتھ ساتھ جو زبان چلانے پہ پابندی نافذ ہوئی اس کا متبادل ہے ۔ اور ہر تیسری تحریر میں آپ کو احساس ہو گا کہ اس بندے کو اگر دس پندرہ منٹ ماں بہن کی اصیل گالیاں دینے کی اجازت دے دی جائے تو یہ لکھنے کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ اور ایسی اجازت ہونی چاہیے کہ اردو ادب پہ یہ ایک احسان عظیم ہو گا اور “کتے” ، “گشتی” جیسے افسانے اور آرٹیکل سے اس قوم کو محروم کر کے شائستگی اور محبت کی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ آج کل صدیقی صاحب زندگی کے مزے لے رہے ہیں، دوبئی کی نوکری کی تنخواہ پاکستان میں بیٹھ کے لے رہے ہیں ۔ آوارہ گردی، کھابے، شوقیہ مارکیٹنگ، خدمت خلق، اور اسی بیچ میں کہیں آسٹریلیا جلد پہنچنے کا ڈپریشن۔ ایک اچھا ہم سفر جو آپ چاہیں گے کہ ہر سفر میں ساتھ ہو۔ لکھنے میں جتنا جلدباز نظر آتا ہے، سننے میں اتنا ہی صابر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ائیر پورٹ والی بی بی نے فلائٹ تیار ہونے کی آواز لگائی اور اپنا سازو سامان ہاتھ میں لئے لائن بنانے میں مصروف کراچی کے باسیوں کے پیچھے جا کے کھڑا ہو گیا ۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply