ڈم ڈم جن۔۔ربیعہ سلیم مرزا

ایک دفعہ کا ذکر ہے، پرستان پر ایک نیک دل بادشاہ کی حکومت تھی۔اس بادشاہ کی چھ بیٹیاں تھیں، اگرچہ اللہ نے اسے بیٹے سے نہیں نوازا تھا، مگر اسے اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت تھی،اسے اکثر اپنی بیٹیوں کی فکر رہتی ۔اسی لیےبادشاہ نے اپنی بیٹیوں کو ناصرف پڑھایا لکھایا، بلکہ انہیں شہزادوں کی طرح تمام فن حرب وضرب بھی سکھانےشروع کیے۔انہیں محبت اور اعتماد سے پروان چڑھایا، تمام پرستان میں بادشاہ اور اسکی بیٹیوں کی قابلیت کے چرچے تھے۔وقت گزر رہا تھا۔
بادشاہ کو اطلاع ملی کہ پرستان میں کوئی ظالم جن گھس آیا ہے ،جو پریوں کو اٹھا لے جاتا ہے، اور انہیں قید کرلیتا ہے۔

رفتہ رفتہ ایسی خبروں میں اضافہ ہونے لگا۔بادشاہ کی پریشانی بڑھنے لگی، تو اس نے اپنے وزیروں اور شاہی جادوگروں کو دربار میں طلب کر لیا۔ انہی میں شاہی نجومی اور جادوگر علی بابا بھی تھا ،علی بابا کے پاس ایک جادوئی زنبیل تھی ۔جس میں بے شمار جادوئی چییزیں موجودتھیں ،جو وقتاََ فوقتا ً مختلف کاموں میں علی بابا کی مدد کرتیں ۔تمام نجومیوں نے اپنے اپنے علم سے پریوں کاپتہ لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

اچانک شاہی نجومی اور وزیر علی بابا نے اپنی زنبیل کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کے جادوئی طوطا نکالا۔سب لوگ اس طوطے کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔علی بابا نے طوطے کو کھانے کے لیےایک خوبصورت سیب پیش کیا۔طوطے نے مزے مزے سے سیب ہڑپ کیا اور بولا!

علی بابا، پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں؟

علی بابا نے شہزادیوں کے متعلق دریافت کیا۔
طوطا کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا!
شہزادیوں کو ڈم ڈم جن لے گیا ہے، اور۔بہت جلد وہ انہیں کھا بھی جائے گا۔میں آپکو وہاں لے جا سکتا ہوں، بشرطیکہ آپ مجھے دوبارہ قید نہ کریں ۔علی بابا نے وعدہ کرلیا۔
بادشاہ سے اجازت لے کر، گھوڑے پر سوار علی بابا طوطے کے راہنمائی میں چل پڑا ۔

پرستان کی حدود سے نکلتے ہی اچانک کالے کالے بادلوں نے علی بابا کو گھیر لیا، علی بابا نے اپنے سر پہ اڑتے طوطے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو طوطے نے جواب دیا کہ ڈم ڈم جن کو انکی آمد کی خبر ہو چکی ہے۔علی۔بابا ڈرے بغیر آگے بڑھتا رہا۔
جب دونوں کالے پہاڑوں کے نزدیک پہنچے تو بڑے بڑے کالی پتھر لڑھکنے لگے۔پھر طوطے نے بتایا کہ یہ بھی ڈم ڈم جن کی کارستانی ہے، لیکن گھبرائیں نہیں آقا، وہ آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ایک موڑ مڑتے ہی، اچانک وہ دونوں ایک بڑےغار کے دہانے پہ پہنچ گئے ۔طوطے نے زور دار سیٹی بجائی تو اندر موجود شہزادیوں کو پتہ چل گیا، کہ کوئی انہیں بچانے آگیا ہے۔علی بابا نے کھل جا سم سم کا منتر پڑھ کر دروازہ کھولا تو تمام شہزادیاں علی بابا سے لپیٹ گئیں۔
عل بابا نے زنبیل سے سلیمانی چادر نکال کر شہزادیوں پرپھیلادی، جس کی وجہ سے وہ نظروں سے اوجھل ہو گئیں ۔
اچانک ڈم ڈم جن آدم بو، آدم بو کہتا نمودار ہوگیا۔ علی بابا نے ڈپٹ کر جن سے پوچھا!
تمہاری جرأت کیسے ہوئی پریوں کو اغوا کر کے قید کرنے کی؟ جن نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا!

بجائے اس کے، پریاں یہاں سے بچ نکلنے کی کوشش کریں، وہ میرے خوف اور ڈر سے چلانے لگتی ہیں تو مجھے بہت مزا آتا ہے، اور پھر میں انہیں کھا جاتا ہوں ۔یہ کہتے ہی جن نےعلی بابا پر حملہ کردیا۔
تلوار کے ایک ہی وار سے علی بابا نے جن کا سر قلم کر دیا۔

جن کے مرتے ہی تمام بادل غائب ہو گئے، اب شہزادیاں آزاد تھیں، علی۔بابا نے اپنی زمبیل سے ایک خرگوش نکا لا اور زور سے چٹکی بجائی تو خرگوش اُڑن بگھی میں بدل گیا۔

علی بابا اور تمام شہزادیاں اُڑن بگھی میں سوار ہوئیں تواُڑن بگھی محل کی طرف پرواز کرنے لگی ۔تمام شہزادیوں نے علی بابا کا شکریہ ادا کیا تو علی بابا بولا!

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھو بچو، ڈم ڈم جن جیسے کئی جن آتے رہیں گے ،لیکن ہو سکتا ہےہر دفعہ علی بابا بچانے نہ آ سکے، تو ہمیں اسکا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔
علی بابا کی بات سن کر تمام شہزادیاں پریشان ہو گئیں۔
علی بابا کہنے لگا!
ضروری ہے بچو ہم ڈرنے کی بجائے، اپنی حفاظت خود کرنا سیکھیں، اور دوسرے بچوں کی زندگی بچانے کی بھی کوشش کریں ۔
اپنے دل و دماغ سے ڈر کو نکال کربہادر بنیں۔
محل پہنچنے کے بعد علی بابا نے وعدے کے مطابق جادوئی طوطے کو آزاد کر دیا، اور تمام واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا ۔
شاہی پریاں بھی یہ سب ماجرا سن رہی تھیں ۔انہوں نے بادشاہ سےدرخواست کی کہ پرستان کی تمام پریوں کو اپنی حفاظت کے گر سکھائے جائیں۔
بادشاہ نے اسی وقت فرمان جاری کیا کہ تمام پرستان میں پریوں کو پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ، جنگی فنون اور خفاظتی طریقے لازمی سکھائے جائیں گے، تاکہ آئیندہ کوئی بھی پریوں کو نقصان نہ پہنچا سکے، شاہی پریاں، ہر جگہ اپنی نگرانی میں یہ قانون نافذ کروا رہی تھیں۔۔
پریوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا، اب ہر ایک پری بہت مضبوط ہو چکی تھی، اور پرستان میں بھی امن سکون کا راج تھا۔اب پریوں کو۔یقین تھا کہ جو بھی جن آئے گا وہ خود اس سے نپٹ لیں گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply