تشکیک پسند کیمسٹ ۔ بوائل (42)۔۔وہاراامباکر

کسی بھی معمے کو حل کرنا ہو تو پہلے اس کے ٹکڑوں کی شناخت کی جاتی ہے۔ مادے کے معمے کے یہ ٹکڑے عناصر تھے۔ کیمسٹری کو جس چیلنج کا سامنا تھا، وہ نہ صرف انٹلکچوئل تھا اور طریقے سے سوچنے اور تجربات کرنے کا تھا بلکہ ماضی کے خیالات کو اتار پھیکنے کا بھی تھا۔ جب تک یہ یقین باقی رہتا کہ ہر شے مٹی، ہوا، آگ اور پانی سے بنی ہے یا ایسی ہی کسی سکیم سے ۔۔۔ میٹیریل کی سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ ماسوائے تجربات اور غلطیوں سے سیکھنے کے، کچھ بھی نیا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گلیلیو اور نیوٹن کے وقت میں بننے والا نیا فکری ماحول کیمسٹری کو بھی جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کر سکتا تھا۔ اور کیمسٹری کے لئے ایسا کرنے والے ایک مفکر رابرٹ بوائل تھے۔

علم کی جستجو والی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ یونیورسٹی کی ملازمت کا تھا۔ جبکہ دوسرا بہت امیر ہونے کا۔ جہاں جدید فزکس کے ابتدائی مفکرین کا تعلق یونیورسٹیوں سے تھا، جدید کیمسٹری کے بانیوں کی اکثریت امراء کی تھی۔ وہ جو اپنی لیبارٹری بنانا اور تجربات کرنا افورڈ کر سکتے تھے۔ رابرٹ بوائل کے والد ایک ارل تھے جو نہ صرف امیر تھے بلکہ بہت ہی امیر تھے اور شاید برطانیہ کے امیرترین فرد تھے۔

رابرٹ بوائل کٹر مذہبی تھے اور بے حد امیر ہونے کے باوجود انہوں نے خود ایک سنیاسی کی زندگی گزاری ہے۔ ان کو سائنس کا شوق پندرہ سال کی عمر میں گلیلیو کی کتاب پڑھنے سے ہوا۔

نیوٹن کی طرح بوائل نے بھی شادی نہیں کی اور وہ بھی کام میں جنون کی حد تک دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سائنس انسانی مسائل کا خاتمہ اور زندگیوں کا معیار بہتر کرنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے پیسوں سے لیبارٹری قائم کی اور اپنا وقت تحقیق کے لئے وقف کر دیا جس میں زیادہ تر کیمسٹری کے لئے تھا۔

برطانیہ میں ہونے والی انگلش سول وار کے دوران بوائل ایک گروپ میں شامل ہو گئے جہاں نئی سائنس کی بات ہوا کرتی۔ برطانیہ میں بادشاہت کی واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد 1662 میں چارلس دوئم نے اس گروپ کو چارٹر دے دیا اور یہ رائل سوسائٹی آف لندن بن گئی۔

رائل سوسائٹی ایسی جگہ بنی جہاں پر نیوٹن، ہک، ہیلے جیسے بڑے سائنسی اذہان اکٹھے ہوتے۔ ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ ہوتا، بحث ہوتی، ایک دوسرے کے خیالات پر تنقید کی جاتی اور خیالات کا ملاپ ہوا کرتا۔ ان سوسائٹی کا موٹو تھا، “کسی بھی چیز پر بس یقین نہ کر لو”۔ سوسائٹی کے ممبران کو علم تھا کہ آگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے۔

بوائل نے 1661 میں “تشکیک پسند کیمسٹ” کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں ارسطو کے خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بوائل کیمسٹری کو شیشہ سازی، رنگسازی، دھات سازی اور الکیمیا سے آگے لے جا کر آسٹرونومی یا فزکس کی طرح فطری دنیا کی بنیادی سمجھ کی سائنس بنانا چاہتے تھے۔

اپنی کتاب میں بوائل نے کیمیکل ری ایکشن سے مثالیں دیں جو ارسطو کے خیالات سے متصادم تھیں۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے لکڑی کے راکھ بننے کے عمل کا لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ جب آپ لکڑی جلاتے ہیں تو جو شے پیدا ہوتی ہے، اس کا پانی کے عنصر سے کوئی قریبی تعلق نظر نہیں آتا۔ دھواں اور ہوا کی کوئی قریبی رشتہ داری نہیں۔ دھویں کو کشید کیا جائے تو نمکیات اور تیل نکلتا ہے۔ یہ کہنا کہ آگ لکڑی کو بنیادی عناصر میں بدل دیتی ہے ۔۔۔ تجربے کے چھلنی سے نہیں گزر سکتا۔ اس کے مقابلے میں سونے یا چاندی کو مزید سادہ عناصر میں لے جانا ناممکن لگتا ہے۔ اور ہمیں انہیں بنیادی عناصر سمجھنا چاہیے۔

بوائل کے کئے گئے کام میں سب سے زبردست کام ہوا کے بارے میں تھا۔ انہوں نے آکسفورڈ کے ایک طالب علم کے ساتھ ملکر تجربات کئے۔ یہ طالب علم رابرٹ ہک تھے۔ ان تجربات میں ایک تنفس کے بارے میں تھا۔ سانس کیوں لیا جاتا ہے؟ یہ اس وقت کی کیمسٹری کے لئے ایک معمہ تھا۔ اگر ہوا کوئی ری ایکشن نہ کرے تو سانس لینا ایک بے کار کی مشق معلوم ہوتی ہے جو پھیپھڑوں کو مصروف رکھنے کا طریقہ لگتی ہے۔

لیکن اگر سانس لینے کا کوئی مصرف ہے تو وہ اسی وقت سمجھ میں آ سکتا ہے اگر ہوا اندر جا کر کچھ کرے۔ بوائل نے اس کے تجربات چوہوں اور پرندوں پر کئے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ سیل بند برتن میں جانداروں کو رکھا جائے تو ان کا سانس بھاری ہوتا جاتا ہے اور پھر رک جاتا ہے۔

یہ تجربات کیا دکھاتے تھے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ اپنے پالتو جانور بوائل کی پہنچ سے دور رکھیں لیکن اس کے بعد یہ کہ جب جانور سانس لیتے ہیں تو ہوا میں کوئی ایسی شے ہے جو ختم ہو جائے تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے یا پھر یہ کہ جانور کوئی ایسی زہریلی شے سانس کے ساتھ نکال رہے ہیں جو اگر زیادہ ہو جائے تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان دونوں میں سے کچھ بھی ہوتا، یہ تجربات دکھاتے تھے کہ ہوا ایک بنیادی عنصر نہیں ہے، بلکہ اس کے اجزا ہیں۔

بوائل نے ہوا کے آگ لگنے میں کردار کی انوسٹیگیشن کی۔ ہک کے بنائے گئے ویکیوم پمپ کو بہتر کیا۔ یہ مشاہدہ کیا یہ اگر پمپ کسی سیل بند برتن سے ساری ہوا نکال لے تو جلتی ہوا بجھ جاتی ہے۔ بوائل نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہوا میں کوئی نامعلوم شے ہے جو جلنے کے عمل کے لئے ضروری ہے۔

اب یہ عناصر کیا ہیں؟ ان کی شناخت بوائل کے لئے سب سے اہم کام تھا۔ انہوں نے یہ تو معلوم کر لیا تھا کہ ارسطو اور ان کے بعد آنے والوں کے خیالات بنیادی طور پر غلط تھے۔ لیکن ناکافی وسائل ہونے کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکے کہ ان خیالات کو کسی مکمل اور ایکوریٹ آئیڈیا سے تبدیل کیا جا سکے۔ لیکن صرف یہی دکھا دینا کہ ہوا بنیادی عنصر نہیں ہے، ارسطو کے خیالات کے لئے اتنا بڑا دھچکا تھا جتنا گلیلیو کے اس مشاہدے کا، کہ چاند پر پہاڑ اور گھاٹیاں ہیں۔ اور اس کام کے ذریعے اس تشکیک پسند کیمسٹ رابرٹ بوائل نے نئی ابھرتی سائنس کو ماضی کے روایتی خیالات کے شکنجے آزاد کروا دیا۔

نئی آزادی کے بعد اب کیمسٹری میں نئی دریافتیں کی جا سکتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply