• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور گلگت بلتستان صوبہ ۔۔شیر علی انجم

وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور گلگت بلتستان صوبہ ۔۔شیر علی انجم

وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے دوسری بار خطاب بھی پہلے کی طرح مسلہ کشمیر کی حل کے حوالے سے جارحانہ اور سنجیدہ نظر آیا۔ انہوں اقوام عالم پر مسلہ کشمیر کی حل کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ غیرمُلکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اُنہوں اپنے خطاب میں کہا کہ سپر پاور بننے کے خواہش مند ممالک کے درمیان اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو چکی ہے اور تنازعات شدت اختیار کر رہے ہیں جبکہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیع پسندانہ اقدامات سے حق خود ارادیت کو دبایا جا رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جوہری تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور انسانیت کو اس وقت پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں۔اپنی تقریر میں اُنہوں نے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں کی گئی اور اس نظریے کا نشانہ مسلمان اور کسی حد تک مسیحی ہیں۔انہوں نے بین الاقوامی اداروں سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں جغرافیائی تبدیلیاں کر کے کشمیریوں کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اُنہوں نے ہندوستان کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 کے خاتمے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہندوستان جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے پہلے والے پوزیشن پر چلایا جائے۔
اُنکی تقریر کے دوران اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مندوپ اُٹھ کر چلے گئے لیکن ہندوستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی بنیاد پر پوری ریاست جس میں جموں،وادی کشمیر،لداخ،اقصائے ،شگزگام،گلگت بلتستان اور آذاد جموں کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔جبکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ ریاست جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ خطہ ہے اور اس خطے کے عوام نے رائے شماری کے ذریعے ریاست کی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ اب یہاں گلگت بلتستان کا مسلہ بڑا پیچیدہ ہے جہاں عوامی سطح پر ہمیشہ سے یہی مطالبہ اور رائےہے کہ اس خطے کو چونکہ یہاں عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت 1947 میں مہاراجہ کی جانب سے الحاق کے بعد فوجی بغاوت کے ذریعے آذاد کرایا تھا۔ لہذا خطے کو پاکستان کو پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے۔ مگر بدقسمتی سے آج چہتر سال گرز گیا یہاں کے عوام کا یہ خواب آج بھی شرمندہ تعبیر ہونے سے قاصر نظر آتا ہے۔ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کو قانونی طور پر ریاست جموں کشمیر کی اکائی سمجھتے ہیں اور اگر ایسا کیا تو مسلہ کشمیر ایک طرح سے مکمل طور پر دفن ہونا خارج ازامکان نہیں کیونکہ موجودہ حالت میں سری نگر سے کہیں ذیادہ گلگت بلتستان کی حیثیت سی پیک تناظر میں بڑھ چُکی ہے اور گلگت بلتستان ہی مسلہ کشمیر کی اصل کنجی ہے جس پر چین اور امریکہ جیسےعالمی طاقتیں بھی نظر جمائے بیٹھے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ آذادی کے بعد گلگت بلتستان کس طرح متنازعہ ہوگیا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر گلگت بلتستان میںعام طور پر اگہی نہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان آذاد ہونے کے باوجود بھی متنازعہ ہوگیا تھا جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اُس وقت شائد ریاست پاکستان کا یہی خیال تھا کہ اگلے چند ماہ میں رائے شماری ہوگی اورپاکستان ذیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ اُس وقت وزیر خارجہ برسٹرظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان کو بھی متنازعہ خطے میں شامل کرکے دستخط کردی۔کچھ تاریخ دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ سر ظفر اللہ نے گلگت کی آذادی کا ذکر اقوام متحدہ میں چھیڑا بھی تھا لیکن تسلیم نہیں ہوئے اور مہاراجہ کے الحاق کی بنیاد پر جموں کشمیر میں قائم ریاستی حکومت کو قانونی تسلیم کیا اور رائے شماری تک کیلئے گلگت مظفر آباد لوکل اتھارٹی کا قیام چھے ہفتوں میں یقینی بناکر تمام تر اختیارات مقامی قیادت کے سپرد کرنے کو کہالیکن صرف مظفر آباد والے چونکہ سیاسی طور پر اُس وقت بھی طاقتور تھے،ریاستی نظام لینے میں کامیاب ہوئے ۔ آگے چل کر مظفر آباد اور ریاست پاکستان کے درمیان 28 اپریل 1949 کو ایک معاہدہ کراچی طے پایاجس کے تحت گلگت لداخ (آج کا بلتستان) کو ریاست کی ایک اکائی کے طور پر رائے شماری تک کیلئے تمام انتظامات وفاق پاکستان کو تفویض کردی ۔
اسی طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ریاست جموں کشمیر کے سرحدوں کا تعین کرنے کیلئے کراچی ملٹری اگرئمنٹ29 جولائی 1949 بھی تاریخ کا اہم باب ہے جو اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل اور پاکستان اور بھارت کی موجودگی میں تشکیل دی گئی تھی جس کی پاسداری دونوں ممالک پابند ہیں۔ جس میں گلگت بلتستان لداخ کے تمام علاقے ریاست کی اکائی کے طور پر درج ہیں۔
اس وقت چونکہ گلگت بلتستان میں الیکشن قریب ہے اور خبریں آرہی ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کا صوبہ بنایا جائے گا ۔جسپر سول اور ملٹری قیادت میں اتفاق رائے ہوگیا ہے بس طریقہ کار پر بات چیت ہونا باقی ہے ۔ اس حوالے سے مُلکی میڈیا کے مطابق قومی اسمبلی میں بحث کیا جائے گا کہ گلگت بلتستان کیلئے کس طرح پاکستان کے آئین جگہ بنایا جاسکتا ہے۔لیکن اگر وزیر اعظم عمران خان کے تقریر کو گلگت بلتستان صوبہ کی باتوں سے موازنہ کریں تو لگتا ہے کہ معاملہ سنگین ہے کیونکہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے جہاں گلگت بلتستان کے عوام خواہشات کی تکمیل ہونا عین ممکن ہے وہیں مسلہ کشمیر پر پاکستان موقف کو عالمی سطح پر دھچکا پڑسکتا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ ہندوستان کا چونکہ خطے پر باقاعدہ دعویٰ ہے اور وہ کسی قسم کی شیطانی حرکت کرسکتا ہے کیونکہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ہندوستان کے پشت پر امریکہ کھڑا ہے اور امریکہ کسی بھی طرح سی پیک کو ثبوتاز کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے ہندوستان الہ کار کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ لہذا وزیر اعظم کے تقریر سے ایسا لگ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا۔
اگر واقعی میں پاکستان اور چین نے سی پیک کے گزرگاہ کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے باہمی طور پر اتفاق کرکے سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام بین الاقوامی قوانین کو مسترد کرتے ہوئے آئین پاکستان کے ارٹیکل 1 میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو پاکستان کے جعرافیائی حدود میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو بھی بین الاقوامی سطح پر قبولیت نہیں ہوگی اور پاکستان کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر ایسا ہورہا ہے تو تو وزیر اعظم عمران خان نے جو کل اقوام متحدہ میں ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے جو تقریر وہ اس بیانئے کی نفی کرتی ہے۔لہذا عین ممکن ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ پیکج میں کچھ تبدیلیاں کرکے کچھ مزید اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کی جائے گی۔اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کی جارہی تھی بیک ڈور ڈپلومیسی کے زریعے فیصلہ ہوگیا ہے کہ سلامتی کونسل کے قراردادوں کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کو سی پیک کی اہمیت کے پیش نظر اپنایا جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم کے خطاب نے ان خدشات کو بھی مکمل طور پر مسترد کرکے اور دنیا پر واضح کردیا کہ پاکستان مسلہ کشمیر پر کسی قسم کا لچک دکھانے کیلئے تیار نہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عبوری قسم کا صوبہ بنا رہا ہے تو وہ کسطرح کا ہوگا کیا عوامی خدشات اور خطے کی چہتر سالہ سیاسی اور معاشی محرومیاں پیکج کی تبدیلی کو عبوری صوبہ نام دینے سے چند افراد کو مبصر کی حیثیت سے قومی اسمبلی تک رسائی دینے حل ہوگا؟۔ یقینا نہیں اور عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا جو سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت اور سی پیک کے تناظر میں پاکستان دشمن عناصر کے عزائم کو شکست فاش دینے کیلئے گلگت بلتستان کے حوالے سے سلامتی کونسل کے قرارداد میں من عن عملدرآمد کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے داخلی مختاری یقینی بنائیں اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکیں قدیم تجارتی راستوں کو کھول کر منقسم خاندانوں کو آذادانہ طور پر ملنے کی اجازت دیں۔ یہی پاکستان کے تحریک انصاف کے منشور کے مطابق وعدہ وفا کرنے کا تقاضا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر : شیر علی انجم

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply