سوچنے والے لوگ۔۔نعیم فاطمہ علوی

پی ایم ڈی سی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ڈاکٹرز کو اپنی ڈگری کی تصدیق کے لیے ایک بار نہیں بارہا آنا پڑتا ہے۔صحیح معنوں میں جوتیاں گھسانی پڑتی ہیں ۔۔پاکستان کے ہر صوبے سے ڈاکٹرز یہاں آتے ہیں ۔۔اگر کوئی  رشتے دار ہو تو اپنے کام کے سلسلے میں وہاں ٹھہرجاتے ہیں وگرنہ ہوٹلوں میں رہنا پڑتا ہے۔
دفاتر میں ان مسیحائی  پیشہ وروں کو اپنے جائز کام کے لیے بھی کافی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

آج اسی سلسلے میں پی ایم ڈی سی کے دفتر جانا پڑا ۔تو انتظار کے لیے  مختلف دفاتر کے چکر لگانے والے ڈاکٹرز کی چال ڈھال اور چہرے مہرے پر لکھی تحریریں پڑھتی رہی۔
اس دفتر میں ایک ایسی بچی بھی ملازم تھی ۔جوچند دن پہلےہی کی تو بات ہے۔ہماری گلی میں ڈھیروں بچوں کے درمیان کھیلا کرتی تھی ۔وہ اپنی لیڈرانہ صلاحیتوں کی بناء پر بچوں کی لیڈر بن جایا کرتی تھی گلی میں ستارہ ستارہ کی دھوم سی مچی رہتی۔اخلاق اور لب و لہجے میں دھیماپن مگر بلاء کی مستعد اسلام آباد کے کسی کالج میں ڈیبیٹ ہوتی تو فرسٹ پرائز ہمیشہ ستارہ کا ہوتا۔کہیں محفل میں رنگ بھرنا ہوتا تو ستارہ ڈھولک پر بیٹھ جاتی اور گیتوں بھری شام کو پُر رونق بنا دیتی۔یہ نازک سی حسین بچی دیکھنے میں بھی ستارہ ہی تھی۔ہر فن میں طاق یہ پیاری سی بچی بڑی ہو کر کب ڈاکٹر بن کر پی ایم ڈی سی کے اہم عہدے پر برا جمان ہو گئی  پتہ ہی نہ چلا۔۔اور اب وہاں بیٹھی کس مستعدی سے کام کر رہی تھی۔میں تو اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔

اپنی ڈاکٹر بھتیجی کے ساتھ میں پی ایم ڈی سی گئی ،تو ہمیں یہاں پی ایم ڈی سی کی عجیب و غریب عمارت دیکھنے کا بھی موقع ملا۔
عمارت کیا تھی بھول بھلیاں ہی تھیں ۔شاید آرکیٹیکچر نے اپنے منتشر ذہن کی ساری پیچیدگیاں اس عمارت کا نقشہ بنانے میں پرو دیں۔

ایک صاحب سے انتظار کے دوران عمارت کے بارے میں بات ہوئی  تو انہوں نے کہا اس عمارت کی تعمیر میں بھی بہت سیریس مسائل ہیں کیونکہ اس میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔ایک چونکا دینے والی بات یہ بھی کہ یہ عمارت قبرستان کے اوپر بنائی  گئی  ہے۔
ایک دفتر میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا صاحب نرے صاحب ہی تھے۔انہوں نے گفتگو تو کی سائن بھی کر دیئے مگر پی ایم ڈی سی کی مہر جو ساتھ والی میز پر پڑی تھی اٹھانے کی زحمت کے لیئے جونیئر کو بلایا اور اسے مہر لگانے کا کہا۔مجال ہے جواس نے اپنی سیٹ سے ذرہ برابر بھی حرکت کی ہو۔

یہاں ایک نوجوان ڈاکٹرابو بکر بھی تھے جن کے دفتر میں کچھ دیر زیادہ انتظار کرنا پڑا مگر وہ انتظار تب راحت میں بدل گیا جب ان سے گفتگو ہوئی  ۔میں کافی دیر سے دیکھ رہی تھی کہ یہ صاحب اپنی سیٹ پر تو بیٹھے ہی تھے مگر ان کی نظر چاروں اور تھی جہاں چار لوگ جمع ہو جاتے وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان سے ان کے مسائل دریافت کرتے حتی الا مکان ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ڈاکٹرز کو عزت سے بٹھاتے انتظار کے لیئے حتمی وقت بتاتے تاکہ وہ اپنے دیگر کام نبٹا لیں۔وہ ذاتی طور پراٹھ اٹھ کر ہر ایک ڈیسک پر جاتے اور منتظر افراد کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
مجھے یہ ذمہ دار جوان بچہ جو سب کو بیٹا بیٹا کہہ کر مخاطب کر رہاتھا بہت اچھا لگا ۔اور میں نے پوچھ ہی لیا آپ باقی لوگوں سے منفرد لگے ایسا کیوں!

Advertisements
julia rana solicitors

کہنے لگا میں ڈاکٹر ہوں اور میں نے پی ایم ڈی سی کے رگڑے کھائے ہوئے ہیں اس لیئے مجھے اندازہ ہے کہ یہ کن مشکلات سے گزر کر یہاں آتے ہیں۔۔کہنے لگے ہمارے ہاں بہت سے لوگ آتے ہیں ۔جو جھوٹ بول کر بھی کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
میں نے کہا ہمارے اندر وطن سے محبت کا جذبہ نہیں رہا
کہنے لگامیڈم وطن کسے کہتے ہیں۔
میں نے کہا جس سرزمین پر انسان پیدا ہوتا ہے
کہنے لگا نہیں ایسانہیں وطن قوم کا ہوتا ہے ہم قوم نہیں افراد ہیں اور افراد کا کوئی  وطن نہیں ہوتا۔
میں کچھ افسردہ ہو گئی
میں نے پوچھا کیا یہاں سب ڈاکٹر ہیں ۔
کہا نہیں صرف میں ہی ڈاکٹر ہوں
میں نے پوچھا آپ یہاں ایڈمنسٹریشن میں کیوں آئے
کہا سسٹم کو ٹھیک کرنے!
میں نے کہا کیا کچھ کامیابی ہوئی
کہا نہیں ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے
میں نے کہا میں لکھاری ہوں آج کی روئیداد لکھوں گی
کہنے لگا آپ کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں
آپ سوچنے والے لوگ ہیں جنہوں نے دو زمانے دیکھے ہماری نسل اس حساسیت سے محروم ہے ۔آپ کے بعد خلاء ہی خلاء ہے۔

Facebook Comments