پُراسرار رشتے۔۔دعا عظیمی

تمہیں پتہ ہے۔۔جب شہروں کی کوئی اور نہیں سنتا تو یہاں کی دیواریں کسی رات کےپچھلے پہر چپکے سے وہاں اپنے قریب آنے والے ادیبوں کو اپنا سب کچھ مان کر اپنے چہرے پہ لکھی کہانیاں اور دل کے سب احوال انہیں سونپ دیتی ہیں۔
ادیب ان شہروں کی روح کے محرم ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔۔
وہ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ان چیخوں کو نوحوں میں بدل کے اسی شہر کے باسیوں تک بات دوبارہ سےپہنچا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ پھر سے نئی کہانی کی تلاش میں پھیل جاتے ہیں۔۔۔کبھی کبھار تو دور دیس کی دیواریں بھی انہیں اجنبی نہیں سمجھتیں اور دھیرے دھیرے سب کہہ دیتی ہیں۔
دیواروں اور ادیبوں کے بیچ بہت سے راز ونیاز ہوتے ہیں, بہت سے پُراسرار رشتے۔۔
گلیوں محلوں مکانوں اور بازاروں کی دیواروں کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ لوگ ان ہی کے سائے میں جیون بتاتے ہیں ۔
دیواریں چاہے کھولی کی ہوں یا محل کی طرح طرح کے محسوسات سے بھری رہتی ہیں۔ یہ چپ چاپ دیکھتی ہیں۔ جب عورتیں محبت سے اپنی زندگی میں آنے والوں کے لئے موزے اور سویٹر بنتی ہیں یا چاہنے والوں کے لیے سجتی اور سنورتی ہیں اور جرم کرنے والے جب سازشوں کے جال بنتے ہیں ۔ یہ ان سب کی خاموش عینی شاہد ہوتی ہیں۔خواب گاہوں کے راز اور خواب سب کی امین یہی تو ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس رات گھر میں گھور اندھیرا تھا۔
یوپی ایس کی چارجنگ سرشام ختم ہو چکی تھی اور ایک لمبی اندھیری تنہا رات کا تصور روح فرسا تھا۔ مجھے اندھیرے میں سر پہ چڑھی دیواروں سے خوف آنے لگا تھا۔
اس بار سودا سلف لانے میں دیر ہوگئی تھی ۔صبح جانے سے پہلے میں نے اسے آخری ماچس کی ڈبی پکڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آخری ماچس ہے۔ آتے ہوئے ماچس لے کے آنا۔
میرے سنگھار میز کی نچلی دراز میں کچھ موم بتیاں موجودتھیں مگر میرے پاس ماچس کی ڈبیہ نہیں تھی۔ ایک ماچس کی ڈبیہ میں آخری دیا سلائی تھی۔جسے میں نے بڑی احتیاط سے جلایا مگر اس کا شعلہ موم بتی کو روشن کرنے سے پہلے ہی گُل ہو چکا تھا ۔
کل سے گیس نے بھی لوڈ شیڈنگ کے نام پر چھٹی کی درخواست دے دی تھی۔اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ گھر سے باہر نکل کے میں خود ماچس خرید لاؤں۔ دو ایک باراپنے شوہر کو فون کیا کہ واپسی پر ماچس کا پیکٹ لے کر آنا۔
مگر وہ میرے شوہر ہی کیا جو وقت پہ میری کال لے لیں۔
چارو ناچار میں نے اپنی بڑی چادر اوڑھی, کچھ روپے مٹھی میں دبائے اور اپنے ادیب شوہر کی لاپرواہی کو کوسا جسے گھر کی ذمہ داری کا قطعاً کوئی احساس نہ تھا۔
ہم میوہسپتال کو جانے والی طفیلی سڑک پہ بنے فلیٹس میں رہتے تھے۔ قریب ہی پان سگریٹ کا کھوکھا تھا جو رات گئے تک کھلا رہتا۔
وہاں تک پہنچنے کے لیے بس مجھے ایک ہی موڑ مڑنا تھا۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتی اپنی منزل کی طرف جا رہی تھی کہ ایک آواز نے میرے پاؤں پکڑ لیے ۔مانوس سی آواز تھی ۔اجنبی نے کہا
” اتنی رات گئے ؟”
“شہر کے حالات سے واقف ہو کےاس اندھیرے میں باہر نکل آئی ہو۔۔”
“اکیلی عورت”
“کیا کوئی کہانی بنانا چاہتی ہو؟”
“نہیں” ، میں نے غصے سے کہا , اس وقت باہر نکلنا میری مجبوری تھی۔
میں شوق سے آدھی رات کو باہر نہیں نکلی, مجھے موم بتی جلانے کے لیے ماچس چاہیے تھی۔
اس نے کہا ,رُکو
“میں تمہیں ماچس دیتا ہوں تم گھر جاؤ”
انداز میرے شوہر جیسا تھا قدرے تحکمانہ۔۔۔ دو پل بعد اس نے مجھے ماچس تھما دی۔
میں نے اپنے ادیب شوہر کو کوسا جسے پرواہ نہیں تھی کہ میں گھر میں اکیلی ہوں تب ہی اس نے کہا
تم ادیبوں کی مجبوریوں کو نہیں سمجھتیں یقینا ً وہ کسی ضروری دیوار سے ملنے گیا ہو گا۔
دیوار سے۔۔
ہاں دیواروں سے دیواروں اور ادیبوں کے بیچ بہت سے پُراسرار رشتے ہوتے ہیں۔
یہ ایک نئی بات تھی
کیا ادیب اور دیواریں آپس میں گفتگو کرتے ہیں؟؟
کیا ادیبوں کو معلوم ہوتا ہے کہ آج کون سی دیوار ان کو کون سی کہانی کس جگہ سونپے گی۔
“نہیں “وہ پُرخیال لہجے میں بولا کئی بار تو وہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ وہ ادیب ہیں, بعض اوقات تو وہ تندور سے روٹیاں لینے جاتے ہیں اور واپسی پر روٹیوں کی بجائے کہانی باندھ لاتے ہیں۔
میرے شوہر کے ساتھ بہت بارایسے ہوا
وہ جو لینے جاتا ہے اس کی بجائے کچھ بھی اور لے آتا ہے۔
“چلواب تم گھر جاؤ”
وہ میرے شوہر کی طرح بولا رات اندھیری ہوتی جا رہی ہے۔
کیا تم ادیب ہو؟
” نہیں ”
“میں ایک ادیب کا ہمزاد ہوں۔”
تو ادیب کہاں ہے؟
وہ ادھر ہی قریبی ہسپتال کے ایک بستر پہ پڑا ہے۔
اوہ اسے کیا ہوا؟
ایک موٹر بائیک والے نے فٹ پاتھ پہ اسے ٹکر دے ماری جب کہ وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
وہ وہاں کیوں بیٹھا تھا؟
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
میں ایک ضروری کام سے یہاں آیا تھا۔
کام ہو گیا ہے ۔ واپس جا رہا ہوں۔
“تم جس ادیب کے ہمزاد ہو
اس کا کیا نام ہے؟ مجھے تشویش ہوئی
” وہ بے نام تھا۔”
“کہیں وہ میرا شوہر تو نہیں”
کیا تمہارا شوہر بھی بے نام ہے؟
نہیں اس کا تو شہر میں بہت بڑا نام ہے۔
میں نے خود کو تسلی دی۔
پھر وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا اور میں گھر چلی آئی۔
جب میں گھر آئی تو فون کی گھنٹی بجی، ایک اجنبی آواز آئی،
آپ کے شوہر کا حادثہ ہو گیا ہے۔ گھپ اندھیرے میں میں نے اپنا سر دیوار کو دے مارا, ماچس میرے ہاتھ سے گر چکی تھی۔ دیوار کے سائے میں ایک نئی کہانی سر پیٹ رہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply